... loading ...
انصاف ایک تمسخرانہ ورق میں لپٹا، عدل کی بارگاہوں میں بکھر اہوا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ خود اپنے ہی فیصلوں کے برخلاف
کھڑے ہیں اور عدلیہ گہری تقسیم کی شکار ہے۔ یہ آئین جوں کا توں اگلے چند ہفتوں تک قائم رہتا ہے تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 26/اکتوبر کو ریٹائر ہو جائیں گے۔ مگر وہ سپریم کورٹ کو جس انداز اور تیور سے چلا رہے ہیں اُس سے کہیں یہ محسوس نہیں ہوتا کہ وہ اب سے ٹھیک 23 روز بعد ریٹا ئر ہو رہے ہیں۔ اُن کا یہ اعتماد ”تو میرا شوق دیکھ ، مرا انتظار دیکھ” کی تصویر کشی کرتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ آئینی ترمیم سیاسی بندوبست سے کہیں زیادہ کچھ آئینی عہدوں کی ضرورت ہے۔
قدیم زمانوں کی عمیق صداقتوں سے اُصول اُبھرا ہے کہ معاشرے انصاف سے بقا پاتے ہیں۔ طاقت کی حرکیات پر قائم ریاستوں میں تو یہ واحد توازن پیدا کرنے والا ہتھیار رہ گیا ہے۔ خلیفہ چہارم حضرت علی نے خبردار کیا تھا: جب عدل طاقت وروں کا سہارا بن جائے تو معاشرہ برباد ہو جاتا ہے”۔ پاکستان میں ایسا کون ہے جسے معاشرے کے برباد ہونے کا یقین نہ ہو۔ افسوس 23 کروڑ کا یہ ملک انصاف کی سب سے اونچی بارگاہ پر اپنا یقین کھو بیٹھا ہے۔ ایسا برباد معاشرہ دھیرے دھیرے بھوت منڈلی بن کر رہ جاتا ہے۔ کیا عدلیہ طاقت ور لوگوں کا ایک سہارا نہیں بن گئی؟ جسٹس منیر سے لے کر جسٹس مشتاق تک پاکستان کی عدالتی تاریخ تعفن کے اُٹھتے بھبکوں کے ساتھ اس کا ازخود جواب دیتی ہے۔ عصرِ رواں اسی متعفن تاریخ کا عکس لے کر ہمیں یہ سبق بھی دیتا ہے کہ ہم نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ ابھی ہم نے بمشکل جسٹس ثاقب نثار کو رخصت کیا تھا۔ اس سے ذرا قبل ایک امید چیف جسٹس افتخارچودھری نے جگائی تھی، مگر اس انکشاف نے قوم کی بیداری کو ایک دھچکا پہنچایا کہ یہاں انصاف کی آرزو اور آزادی کا کوئی جگنو بھی طاقت وروں کی باہمی لڑائی میں کسی سرپرستی کے بغیر نہیں جاگتا ۔ اُس قوم کی تیرہ نصیبی کے لیے اور کیا کہا جائے جس کا خیر بھی شر میں لپٹا ہو۔ جس کی آزادی بھی آزادی کے دھوکے میں ملفوف ہو۔ جس کی بیداری بھی حالت ِ نیند میں ہو۔ اب ایک نیا امتحان سر پر آ پڑا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی اسی ”دور افتخار” کا ایک
بابرکت تحفہ” تھے۔ افسوس ناک مغالطوں اور کرب ناک خود فریبیوں میں یہ انتخاب بھی سوالات کے نرغے میں آگیا۔ کیا ہم اس کے مستحق ہیں؟”
عدلیہ کی موجودہ دراڑ 1997 کے بحران کی نوعیت رکھتی ہے جب واضح طور پر انصاف کا یہ”مقدس” ایوان دونیم ہو گیا تھا۔ ایک ہی عمارت میں دو دو کمرہ نمبر ایک قائم ہو گئے تھے، دو دو چیف جسٹس اور ایک ہی وقت میں ایک ہی مقدمے میں دو دو حکم نامے عدالتی اہلکار لیے لیے پھرتے تھے۔
غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر
محل پہ ٹوٹنے والا ہو آسماں جیسے
ابھی ڈیڑھ ہی برس تو ہوا ہے، جب محترم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدل کے اسی محل کو سر پر اُٹھا لیا تھا۔ اور ماسٹر آف روسٹر کی پھبتی سنائی دی تھی۔تب کیسے آدرش الفاظ ہمیں سنائی دیے تھے۔ اعلیٰ ترین عدالت میں سماعتوں کے لیے ایک شفاف ضابطہ ہونا چاہئے۔ تب کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال اب ایک نجیب ترین شخص دکھائی دیتے ہیں، زباں درازوں نے اُن کے گھر کی عورتوں کو بھی زد پر لے لیا تھا۔ ہمارے آج کے چیف جسٹس تب روٹھے روٹھے ایک جج تھے جو کمرۂ عدالت میں دکھائی نہ دیتے تھے۔ سینئر ججز پر مشتمل ایک شفاف ضابطے کو قائم کیے بغیر وہ کسی بینچ کو ماننے کے لیے آمادہ نہ تھے۔ حکومت یا طاقت وروں سے کو ئی تعلق تو کہیں نہ کہیں موجود تھا، چنانچہ ان کی ضرورتوں کے لحاظ سے حکومت اُدھر حرکت میں آتی۔ اِدھر عدالتوں سے اُدھر کی ضرورتوں کی تکمیل دکھائی دیتی۔ یہ ایک نامیاتی رشتہ ہے جس نے پاکستان کو اپنے حصار میں نہ جانے کب سے لیے رکھا ہے۔ حضرت علی کے گرہ کشا الفاظ دہرانے میں کیا حرج ہے ،جب عدل طاقت وروں کا سہارا بن جائے تو معاشرہ برباد ہو جاتا ہے”۔
ماند یادداشتوں میں تازہ کر لیں، قومی اسمبلی نے 29/مارچ 2023 کو متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھیجے گئے ریفرل کو نظر انداز کرتے ہوئے قانون سازی کی منظوری دی تھی۔ پاکستان کی پارلیمنٹ سے سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 10/اپریل 2023 کو منظور کر لیا گیا۔ یہ قانون تجویز کرتا ہے کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں سب سے زیادہ سینئر ججوں پر مشتمل ایک کمیٹی کی طرف سے تشکیل دیا گیا تین رکنی پینل سپریم کورٹ کے سامنے پیش کیے گئے تمام مقدمات، اپیلوں یا مسائل کو نمٹائے گا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ایکٹ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے پیش کیا تھا۔ یہ بھی کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہم یہاں انسانوں میں کوئی شرف اور ظرف ہونے کی بات نہیں کر رہے۔ یہ وہی قانون ہے جس کی تمنا میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، تب کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے محاذ آرا رہے، بینچوں کا حصہ نہیں بنے۔ چشم فلک کو یہ نظارہ بھی دیکھنا تھا! جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو یہی قانون چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے لیے بوجھ محسوس ہونے لگا۔ اب وہ بت کدۂ اوہام کی ویرانیوں میں خود کے مقابل کھڑے ہیں۔ تب کے اُن کے تمام ساتھی ایک ایک کرکے اُن سے چھوٹ گئے ہیں۔ یہاں بھی آدرش کا استعمال ایک ڈرامائی صورت حال کو ظاہر کرتا ہے، جس میں اُصول کا چرچا ضرورت کے مطابق رہتا ہے۔ ہائے یہ چیف جسٹس افتخار چودھری والی بیداری!! طاقت ور مذہب اور اخلاق کا استعمال بوقت ضرورت کرتا ہے۔ اُسے ڈاکٹر ذاکر نائیک اور امام کعبہ کی چھب دکھلاتے ہوئے اپنے اہداف پورے کرنے ہوتے ہیں۔ مگر قانون قدرت ایک حدیث نے واضح کردیا: کوئی آدمی لقمۂ اجل نہیں بنتا جب تک اُس کا باطن، ظاہر نہ کردیا جائے”۔یا ستار العیوب !! رحم !رحم!
شخصیت پرت در پرت بے نقاب ہوتی رہتی ہے! تب وہ خود سے بے پروا ہو جاتی ہے۔ نوامیسِ فطرت سے آشکار ہے، انسان اپنی طاقت کے ہنگام میں ہی اپنے انجام سے دوچار ہوتا ہے۔ آہنگ بگڑنے لگا ہے اور آرٹیکل 63 اے پر نظرثانی کیس نے تضادات کے بوجھ کو مزید بڑھا دیا ہے۔ مطلوب پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو ایک آرڈیننس سے تبدیل کرا دیا گیا۔ سینئر ججز کا بوجھ، اب مزید نہیں اُٹھایا جا سکتا۔ جسٹس منیب اختر کے پاس وہی دلائل ہیں جو جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے پاس چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے خلاف تھے۔ اُن کے سامنے جسٹس منصور وہی روپ دھار چکے ہیں جو قبلہ محترم، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے مقابل اختیار کیے ہوئے تھے۔ یہ لیجیے! انسان کا باطن آشکار ہونے کا دائرہ مکمل ہوا۔ عافیت اب روسی کہاوت میں باقی رہ گئی ہے: میں بہو تھی، تو ساس اچھی نہیں ملی اور جب ساس بنی تو بہو اچھی نہیں ملی۔