وجود

... loading ...

وجود

یہ نسل کشی ہے!

بدھ 02 اکتوبر 2024 یہ نسل کشی ہے!

حمیداللہ بھٹی

ہر ملک کو دفاع کا حق ہے مگر کسی دوسرے ملک کی آزادی وخودمختاری پامال کرنے کاکوئی حق نہیں لیکن مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل دفاع کے نام پر نسل کشی میں مصروف ہے ۔اِس خطے میں جاری نسل کشی روکنے میں اقوامِ متحدہ سمیت تمام عالمی اِدارے ناکام ہو چکے ہیں۔ یہ ایسا بدقسمت خطہ ہے جہاں کئی دہائیوں سے وحشت و سفاکیت کی داستانیں رقم ہو رہی ہیں مگر عالمی بے حسی میں کمی نہیں آئی۔ اسرائیل جب چاہتا ہے ہمسایہ ممالک کو جارحیت کا نشانہ بناتا اور اپنی پسند کے مطابق سرحدوں کاتعین کرلیتا ہے۔ اُسے کوئی روکنے والا نہیں ۔وہ آئے روز اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی نفی کرتا اور انسانی حقوق کی دھجیاں اُڑاتا ہے مگراقوامِ متحدہ سمیت کوئی عالمی طاقت جواب طلبی نہیں کرتی بلکہ امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک تو جارحانہ کارروائیوں کواُس کے دفاع کا حق کہتے ہیں۔ انسانی حقوق اور عالمی امن کا دعویدار امریکہ شب و روز اسلحہ و گولہ بارود پہنچا رہا ہے تاکہ سفاکانہ حملے جاری رکھنے میں دشواری نہ ہو یہ طرزِ عمل عالمی امن کو تباہ کر سکتاہے۔ اسرائیل جیسے مذہبی تعصب کا مظاہرہ کسی مسلم ملک کی طرف سے ہوتا تو اقوامِ متحدہ نہ صرف ہر قسم کی کاروائی کی اجازت دے چکی ہوتی بلکہ امریکہ جیسا ملک اپنے حواریوں کی ہمرکابی میں لائو لشکر سمیت چڑھائی کر تے ہوئے ایسے ملک کو تاراج کرچکاہوتامگر کیونکہ جارح اسرائیل ہے اورنسل کشی مسلمانوں کی ہورہی ہے اسی لیے قتلِ عام پرخاموشی ہے اور دفاعی امداد دے کر نسل کشی کی استعدادمیں اضافہ کیاجارہاہے۔ جدید دنیا اتنی سنگ دل اور سفاک ہے کہ طاقتورکو تمام قوانین و ضوابط سے بالاتر قراردے دیاگیاہے ۔بظاہر تو عالمی اِدارے وعالمی طاقتیں شاید نفی کریں مگر مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیلی کارروائیوں سے ظاہر ہے کہ جدید دنیا سفاکی ،سنگدلی اور بے رحمی میں زمانہ قدیم کو مات دے چکی ہے لیکن اگرامن کے لیے جلد اقدامات نہیں کیے جاتے تو خطے کے کئی ممالک کی جغرافیائی حدودمیں تبدیلی نوشتہ دیوارہے جس سے ایک طویل اور تباہ کُن لڑائی چھڑنے کا اندیشہ ہے ۔
دنیامیں جانوروں سے بہتر سلوک کی مثالیں پیش کی جاتی ہیں جس میں مغربی ممالک پیش پیش ہیں، کتے ،بلیو ں اور دیگر جانوروں کی فلاح و بہبود کے نام پر عطیات اکٹھے کیے جاتے ہیں،تاکہ کوئی شخص بے زبان مخلوق سے بے حمانہ سلوک نہ کرسکے مگر گزشتہ برس سات اکتوبر سے اسرائیل مسلسل فلسطینی علاقے غزہ پر بمباری کررہا ہے ۔یہاں تمام رہائشی عمارات تباہ ہو چکیں۔ غزہ کے مکینوں سمیت اقوامِ متحدہ کے زیرِ انتظام فلاحی اِداروں کے کارکنان اور صحافی تک بے رحمانہ فضائی حملوں میں ماردیے گئے لیکن عالمی طاقتیں کہتی ہیں کہ یہ اسرائیل کی دفاعی کاروائیاں ہیں۔ ارے بھائی دفاع کا حق تسلیم مگر نسل کشی کا کیا جواز؟فضائی حملوں کے آغاز میں تو چندماہ تک مرنے والوں کی تعداد سے دنیا آگاہ ہوتی رہی ،اب تو غزہ کی اصل صورتحال بارے کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ اسی بناپر آزادذرائع کاکہنا ہے کہ غزہ مکینوں کی اکثریت موت کی نیند سُلائی جا چکی اور جوزخموں سے چور قلیل تعداد ابھی حیات ہے وہ بھی قحط کا شکار اور مرنے کے قریب ہے لیکن اسرائیل کی محافظ مہذب کہلوانے والی طاقتیں صیہونی ریاست کی پشت پناہی پر متفق ہیں۔ مظلوم ،معصوم اور نہتے فلسطینیوں کا مقدمہ لڑنے والا کوئی نہیں۔ کیا یہ غلط ہے کہ فلسطین کے متعلق اقوامِ متحدہ کی پا س کی گئی قراردادوں سے انحراف کرنے کے بجائے عملدرآمد ہوتا تو حماس معرض ِ وجود میں نہ آتی۔ 1982 میں لبنان پر اسرائیلی حملے کے نتیجے میں ہی حزب اللہ تشکیل پائی۔ حماس اورحزب اللہ بنانے میں ظلم وجبر اور وحشت کا کلیدی کردار ہے جنھیں امریکہ اور مغربی ممالک دہشت گردکہتے ہیں لیکن ابھرتی طاقت چین اِن تنظیموں کودہشت گرد تصور نہیں کرتی۔ اِس معاملے میں روس ،شام ،ایران اور شمالی کوریا بھی چین کے ہم خیال ہیں ۔
اسرائیل کو محفوظ بنانے میں امریکہ ہمیشہ پیش پیش رہتا ہے 2020 میں اُس نے ایرانی القدس فورس کے جنرل قاسم سلیمانی کو بغداد ائیرپورٹ سے نکلتے ہوئے ڈرون حملے میں شہیدکر دیا۔ غزہ پر حملوں کے دوران اسرائیل نے دمشق میں ایرانی سفارتی مشن کو نشانہ بنا کر تباہ کر دیا ۔نومنتخب ایرانی صدر کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کی غرض سے تہران آئے حماس رہنما اسماعیل ہنیہ کو31 جولائی 2024 میں شہید کردیا۔غزہ اور شام کے ساتھ اب اسرائیل کی جنونی قیادت نے لبنان کونشانے پررکھ لیاہے۔ فضائی اور میزائل حملوں میں بے دریغ شہری آبادی کو موت کے گھاٹ اُتارا جارہا ہے۔ ایسی بے رحمی کی دنیا میں نظیر نہیں ملتی جس کا مظاہرہ مشرقِ وسطیٰ میں کیاجارہا ہے۔ موبائل اور پیجر دھماکوں سے خوف و ہراس پھیلانے کے بعد براہ راست حملوں سے لبنان کو نشانہ بنانا مسلم نسل کشی کاحصہ ہے۔ گزشتہ ماہ اٹھائیس ستمبر کو بیروت میں حزب اللہ کے سربراہ شیخ حسن نصراللہ کو شہید کرنے پروزیرِ اعظم نیتن یاہوکا خیال ہے کہ بدلہ لینے کے ساتھ اُس نے اپنے ملک کا ایک بڑا دشمن ختم کردیاہے لیکن اِس طرح مزاحمتی تحریکیں ختم نہیں ہوتیں۔ 1992 میںاسرائیل نے ایک فضائی حملے میں حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل عباس الموسوی کوشہیدکیاتوبھی اسرائیلی وزیرِ اعظم اسحاق میر نے یہی کہاتھا کہ اُس نے اسرائیل کو محفوظ کردیا ہے مگر حسن نصراللہ کے جانشین بننے سے محفوظ ہونے کا خیال غلط ثابت ہو گیا۔اب حسن نصراللہ کی جانشینی سخت گیر نعیم قاسم کو مل گئی ہے جس سے مزاحمتی تحریک کو نئی وسعت مل سکتی ہے۔
امریکہ جسے امن اور انسانی حقوق کا علمبردار کہلوانے کا شدید عارضہ لاحق ہے نے مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کی بے رحمانہ و سنگدلانہ کاروائیاں روکنے کاطریقہ کار بنانے کی بجائے خطے میں اپنی افواج بھیج دی ہیں تاکہ کوئی ملک اسرائیل جیسی ظالم ،جابراور جارح ریاست کے لیے خطرہ نہ بن سکے۔ صاف ظاہر ہے کہ اسرائیل کو اہداف حاصل کرنے کے مواقع فراہم کیے جا رہے ہیں۔ اسی بناپرپرتو بلا خوف وخطر اسرائیل اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لیے عالمی قوانین روند رہا ہے کیونکہ اُسے بڑی عالمی طاقتوں کی معاونت حاصل ہے مگر کیا ہمیشہ حالات ایسے ہی رہیں گے؟وثوق سے ایسے کسی خیال کی تائید نہیں کی جا سکتی۔ یہ درست ہے کہ اسرائیل کے ہمسایہ ممالک فی الوقت اُس کی جارحیت روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔اسی لیے وہ جسے چاہتا ہے دبوچ کر ملبے کا ڈھیر بنا دیتا ہے اور اگر کوئی ملک مقابلے کی جرات کرتے ہوئے دفاعی حکمتِ عملی اپنائے تو امریکہ جھٹ دہشت گردی کا الزام لگا کر پابندیاں لگا دیتا ہے لیکن اب حالات بدل رہے ہیں نہ صرف طاقت کا توازن چین کی طرف ہورہاہے بلکہ روس بھی کھویا وقار بحال کرنے کی جدوجہدمیں ہے جس کی وجہ سے یہ کہنا خلافِ حقیقت نہیں کہ زیادہ دیر تک ناانصافی کا برقرار رہنا مشکل ہے نیز دفاع کے نام پر نسل کشی سے اسرائیل اپنے لیے ہی خطرات میں اضافہ کررہا ہے۔ اِس طرح خطہ تو بدامنی کا شکار ہوگا ہی،اسرائیل بھی غیر محفوظ ہو سکتاہے۔

 


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر