... loading ...
جاوید محمود
اقوام متحدہ کے ایک ماہر کا کہنا ہے کہ امریکی حملہ جس میں اعلیٰ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو ہلاک کیا گیا، بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ واضح رہے جنوری 2020میں عراق میں بغداد ہوائی اڈے کے قریب ایک ڈرون حملے میں قاسم سلیمانی دیگر نو افراد کے ساتھ مارے گئے تھے ۔قاسم سلیمانی کا شمار آیت اللہ خامنہ ای کے بعد ایران کی دوسری بڑی شخصیت میں کیا جاتا تھا۔ رواں سال جولائی میں حماس کے سیاسی سربراہ اسماعیل ہانیہ کو ایران کے دارالحکومت تہران میں قتل کر دیا گیا تھا۔ حماس نے ان کے قتل کا ذمہ دار اسرائیل کو ٹھہرایا ہے۔ گزشتہ روز حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ اسرائیلی حملے میں مارے گئے۔ امریکی میڈیا کے مطابق نتن یاہو نے نیویارک سے حسن نصر اللہ کے قتل کا گرین سگنل دیا۔ نتن یاہو اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے امریکہ آئے ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ ان تینوں شخصیات نے اسرائیل کی ناک میں دم کر رکھا تھا اور یہ شخصیات پہلے بھی قاتلانہ حملوں میں کئی بار بچ چکی تھیں۔ حسن نصر اللہ بیروت کی مشرق میں ایک غریب محلے میں پیدا ہوئے، ان کے والد ایک چھوٹی سی دُکان کے مالک تھے اور حسن ان کے نو بچوں میں سب سے بڑے تھے۔ جب لبنان میں خانہ جنگی شروع ہوئی تھی جس نے بحیرہ روم کے اس چھوٹے سے ملک کو 15سال تک اپنی لپیٹ میں رکھا اور اس دوران لبنانی شہری مذہب اور نسل کی بنیاد پر ایک دوسرے سے لڑے۔ اس دوران مسیحی اور سنی ملیشیا گروپوں پر الزام لگا کہ وہ بیرونی ممالک کی مدد حاصل کرتے ہیں حسن نصر اللہ 15 سال کی عمر میں اس وقت کے سب سے اہم لبنانی شیعہ سیاسی عسکری گروپ کے رکن بن گئے جس کا نام امل موومنٹ تھا ۔یہ ایک باثر اور فعال گروپ تھا جس کی بنیاد ایرانی موسی صدر نے رکھی تھی اس دوران نصراللہ نے اپنی مذہبی تعلیم بھی شروع کی۔ نصر اللہ کے اساتذہ میں سے ایک نے مشورہ دیا کہ وہ شیخ بننے کا راستہ اختیار کریں اور نجف جائیں حسن نصر اللہ نے یہ مشورہ قبول کرلیا اور 16 سال کی عمر میں عراق کے شہر نجف چلے گئے۔ حسن نصر اللہ کے قیام کے صرف دو سال میں بعث پارٹی کے رہنما اور خاص طور پر صدام حسین کے فیصلوں میں سے ایک یہ تھا کہ تمام لبنانی شیعہ طلبہ کو عراقی مدارس سے نکال دیا جائے۔
حسن نصر اللہ نے نجف میں دو سال تعلیم حاصل کی اور پھر انہیں یہ ملک چھوڑنا پڑا۔ لیکن ان کی نجف میں موجودگی نے اس نوجوان لبنانی کی زندگی پر گہرا اثر ڈالا۔ ان کی ملاقات نجف میں عباس موسوی نامی ایک اور عالم سے بھی ہوئی موسوی جو کبھی لبنان میں موسی صدر کے شاگردوں میں شمار ہوتے تھے اور روح اللہ خمینی کے سیاسی نظریات سے بہت متاثر تھے ،وہ نصر اللہ سے آٹھ سال بڑے تھے اور بہت جلد انہوں نے ایک سخت استاد اور ایک با اثر رہنما کا کردار سنبھال لیا۔ لبنان واپس آنے کے بعد یہ دونوں مقامی خانہ جنگی میں شامل ہو گئے تاہم اس بار نصر اللہ، عباس موسوی کے آبائی شہر گئے جہاں آبادی کی اکثریت بھی شیعہ تھی اس دور میں نصر اللہ تحریک امل کے رکن رہے اور عباس موسوی کے قائم کردہ مدرسے میں تعلیم بھی حاصل کرتے رہے۔ حسن نصر اللہ کی لبنان واپسی کے ایک سال بعد ایران میں انقلاب آیا اور روح اللہ خمینی نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ یہاں سے نہ صرف لبنان کی شیعہ برادری کا ایران کے ساتھ تعلق بالکل بدل گیا بلکہ ان کی سیاسی زندگی اور مسلح جدوجہد بھی ایران میں رونما ہونے والے واقعات اور نظریے سے شدید متاثر ہوئی۔ حسن نصر اللہ نے بعد میں تہران میں اسلامی جمہوریہ ایران کے اس وقت کے رہنما سے ملاقات کی اور خمینی نے انہیں لبنان میں اپنا نمائندہ مقرر کیا۔ یہیں سے حسن نصر اللہ کے ایران کے دوروں کا آغاز ہوا اور ایرانی حکومت میں فیصلہ ساز اور طاقت کے مراکز سے ان کے تعلقات قائم ہوئے ۔ایران نے لبنان کی شیعہ برادری کے ساتھ تعلقات کو بہت اہمیت دی۔ مشرقی وسطیٰ میں اسرائیل کی وجہ سے فلسطینی تحریک بھی انقلابی ایران کی خارجہ پالیسی کی اہم ترین ترجیحات میں شامل تھی۔ اس عرصے کے دوران خانہ جنگی میں گھرا لبنان فلسطینی جنگجوؤں کے لیے ایک اہم اڈہ بن گیا تھا اور قدرتی طور پر بیروت کے علاوہ جنوبی لبنان میں بھی ان کی مضبوط موجودگی تھی ۔لبنان میں بڑھتے ہوئے عدم استحکام کے بیچ اسرائیل نے لبنان پر حملہ کر دیا اور اس ملک کے اہم حصوں پر تیزی سے قبضہ کر لیا۔ اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ اس نے فلسطینی حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے لبنان پر حملہ کیا ۔اسرائیل کے حملے کے فورا بعد ہی ایران میں پاسداران انقلاب اسلامی کے فوجی کمانڈروں نے لبنان میں ایران سے وابستہ عسکری گروپ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ۔یہ تحریک حزب اللہ تھی اور حسن نصر اللہ اور عباس موسوی ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے امل تحریک کے کچھ دیگر ارکان کے ساتھ اس نئے قائم ہونے والے گروپ میں شمولیت اختیار کی۔ اس گروہ نے بہت جلد لبنان میں امریکی افواج کے ساتھ مسلح کارروائیاں کر کے خطے کی سیاست میں اپنا نام پیدا کیا ۔
جب حسن نصر اللہ نے حزب اللہ میں شمولیت اختیار کی تو ان کی عمر صرف 22 سال تھی اور وہ نو آموز سمجھے جاتے تھے تاہم نصر اللہ کے ایران سے تعلقات دن بدن گہرے ہوتے جا رہے تھے۔ انہوں نے اپنی دینی تعلیم کو جاری رکھنے کے لیے ایران کے قم شہر جانے کا فیصلہ کیا۔ نصر اللہ نے دو سال تک قم میں تعلیم حاصل کی اور اس عرصے کے دوران فارسی سیکھنے کے ساتھ ساتھ ایرانی اشرافیہ میں بہت سے قریبی دوست بنائے۔ لبنان واپسی پر ان کے اور عباس موسوی کے درمیان ایک اہم اختلاف پیدا ہو گیا۔ اس وقت موسوی شام کے صدر حافظ الاسد کے حامی تھے لیکن نصر اللہ نے اصرار کیا کہ حزب اللہ کی توجہ امریکی اور اسرائیلی فوجیوں پرحملوں پر مرکوز ہے۔ نصر اللہ حزب اللہ میں اقلیت بن گئے اور کچھ عرصہ بعد انہیں ایران میں حزب اللہ کا نمائندہ مقرر کر دیا گیا اور وہ ایک بار پھر ایران واپس آئے لیکن حزب اللہ سے دور ہو گئے۔ عباس موسوی کو حزب اللہ کا جنرل سیکرٹری منتخب ہونے کے ایک سال سے بھی کم عرصے میں اسرائیلی ایجنٹوں نے قتل کر دیا اور اسی سال 1992 میں اس گروپ کی قیادت حسن نصر اللہ کے ہاتھ میں چلی گئی۔ اس وقت ان کی عمر 32 سال تھی اس وقت لبنان کی خانہ جنگی کے خاتمے کو ایک سال گزر چکا تھا اور نصر اللہ نے ملک میں حزب اللہ کی سیاسی شاخ کو اپنی عسکری شاخ کے ساتھ ایک سنجیدہ کھلاڑی بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس حکمت عملی کے نتیجے میں حزب اللہ کو لبنانی پارلیمنٹ کی آٹھ نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی ۔طائف معاہدے کے تحت جس نے لبنان کی خانہ جنگی کا خاتمہ کیا حزب اللہ کو اپنے ہتھیار رکھنے کی اجازت دی گئی تھی۔ اس وقت اسرائیل نے جنوبی لبنان پر قبضہ کر رکھا تھا اور حزب اللہ مسلح تحریک چلا رہی تھی۔ 2000 میں اسرائیل نے اعلان کیا کہ وہ لبنان سے مکمل طور پر نکل جائے گا اور اس ملک کے جنوبی علاقوں پر قبضہ ختم کر دے گا۔ حزب اللہ گروپ نے اس تقریب کو ایک عظیم فتح کے طور پر منایا اور اس فتح کا سہرا حسن نصر اللہ کے سر رکھا گیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب اسرائیل نے امن معاہدے کے بغیر کسی عرب ملک کی سرزمین کو یکطرفہ طور پر چھوڑا اور خطے کے بہت سے عرب شہریوں کی نظر میں اسے ایک اہم کامیابی قرار دیا گیا۔ 2002 میں حسن نصر اللہ نے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے دوران قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ کیا جس کے دوران 400 سے زائد فلسطینی لبنانی قیدیوں اور دیگر عرب ممالک کے شہریوں کو رہا کیا گیا۔ حزب اللہ کی طاقت میں اضافے کی وجہ سے حریف گروپ گروہوں بالخصوص لبنانی سیاست دانوں نے حزب اللہ کے خلاف کوششوں کو تیز کیا۔ حزب اللہ کے زیر کنٹرول ٹیلی کمیونیکیشن سسٹم کو ختم کر دیا گیا اور ٹیلی کمیونیکیشن کے معاملات صرف حکومت کے کنٹرول میں کر دیے گئے۔ اس فیصلے کو نہ صرف حسن نصراللہ نے قبول نہیں کیا بلکہ تھوڑے ہی عرصے میں ان کے مسلح گروہ نے بیروت پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ۔حسن نصر اللہ کے اس اقدام پر مغربی ممالک کی جانب سے شدید تنقید کی گئی لیکن سیاسی مذاکرات کے بعد وہ لبنانی کابینہ میں اپنے گروپ کی طاقت بڑھانے اور کابینہ کے فیصلوں میں ویٹو کا حق حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ یہاں سے حسن نصر اللہ ایک ایسی شخصیت بن گئے کہ لبنان کی سیاسی اشرفیہ مین سے تقریبا کوئی بھی ان کی طاقت کو کم کرنے میں کامیاب نہیں ہوا، نہ تو ان کی مخالفت کرنے والے وزرائے اعظم کا استعفے اور نہ ہی سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی مداخلت انہیں پیچھے دھکیل سکی ۔اس کے برعکس ان تمام برسوں میں اسلامی جمہوریہ ایران کی حمایت سے حسن نصراللہ شام کی خانہ جنگی اور لبنان میں اقتصادی بحران جیسے تاریخی بحرانوں پر قابو پانے میں کامیاب رہے ۔
63 سال کی عمر میں انہیں لبنان میں نہ صرف ایک منفرد سیاسی اور عسکری رہنما تصور کیا جاتا تھا بلکہ ان کے ریکارڈ پر کئی دہائیوں کی جدوجہد بھی موجود ہے اور وہ اس کریڈٹ کو اپنے سیاسی حریفوں کی نیندیں اڑانے اور پروپیگنڈا کرنے کے لیے استعمال کرتے رہے ۔حسن نصر اللہ کی شہادت فلسطینیوں کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے اور ان کا خلا پرکرنا کتنا آسان ہوگا اس کا جواب آج کسی کے پاس نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔