وجود

... loading ...

وجود

مقبوضہ کشمیر میں جعلی انتخابات

پیر 30 ستمبر 2024 مقبوضہ کشمیر میں جعلی انتخابات

ریاض احمدچودھری

گزشتہ ہفتے مقبوضہ جموں و کشمیر میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات کے دوسرے مرحلے میں بدھ کو ووٹ ڈالے گئے، جموں و کشمیر کے چھ اضلاع کے چھبیس حلقوں میں بھاری تعداد میں بھارتی سیکورٹی فورسز کی موجودگی میں ووٹ ڈالے گئے۔ جن میں کشمیر کے پندرہ اور جموں کے گیارہ حلقے شامل ہیں۔ تازہ ترین انتخابی فہرستوں کے مطابق اس مرحلے میں پچیس لاکھ اٹھتر ہزار سے زائد ووٹر اپنا حق رائے استعمال کرنے کے اہل تھے جن میں تیرہ لاکھ بارہ ہزار سے زائد مرد اور بارہ لاکھ پیسنٹھ ہزار سے زائد خواتین ووٹرز شامل ہیں جبکہ من پسند غیر ملکی سفارت کار وں کے دورہ مقبوضہ کشمیر کے پیش نظرسرینگر، گاندربل اور بڈگام اضلاع میں ہزاروں اضافی بھارتی فوجی تعینات کیے گئے ہیں جس سے علاقہ فوجی چھاونی میں تبدیل ہوکے رہ گیا ہے۔من پسند غیر ملکی سفارت کار وں کے دورہ کشمیر کے پیش نظرسرینگر، گاندربل اور بڈگام اضلاع میں ہزاروں اضافی بھارتی فوجی تعینات کیے گئے ہیں جس سے علاقہ میدان جنگ کا منظرپیش کررہا ہے۔ نام نہاد اسمبلی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے باوجود سخت پابندیاں عائد کی گئیں۔بھارتی حکام نے پورے علاقے میں نگرانی کے جدیدآلات نصب کئے اور پابندیاں مزید سخت کر دیں۔ ڈرونز کے ذریعے حساس علاقوں کی نگرانی کی گئیں، اسٹریٹجک مقامات پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب کئے گئے اورلوگوں کی نقل وحرکت پر نظررکھنے کے لئے خصوصی چیک پوائنٹس بھی قائم کئے گئے۔جگہ جگہ گاڑیوں اورمسافروں کی تلاشی کے دوران لوگوں کے شناختی کارڈ چیک کئے گئے اور اختلاف رائے کی نشاندہی کے لئے موبائل فون سروسز اورانٹرنیٹ کی نگرانی بھی کی گئی۔
مقبوضہ جموں وکشمیرمیں نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے اسمبلی ا نتخابات کے مشاہدے کے نام پر غیر ملکی سفارتکاروں کو مدعو کرنے کے بھارتی حکومت کے فیصلے پر کڑی تنقید کی ہے۔عمر عبداللہ نے مودی حکومت کے مقاصد پر سوال اٹھاتے ہوئے کہاکہ اسے ان کے موقف میں تضاد کی عکاسی ہوتی ہے۔مقبوضہ جموں وکشمیرمیں ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی نے غیر ملکی سفارت کاروں پرزوردیاہے کہ وہ علاقے میں حالات معمول پرآنے کے بھارتی حکومت کے جھانسے میں نہ آئیں۔ میرواعظ عمر فاروق نے کے ایم ایس کو انٹرویو میں کہا ہے کہ تنازعہ کشمیر کے حل کیلئے بھارت پاکستان سے بامعنی مذاکرات کرے۔ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے مذاکرات ناگزیر ہیں۔ پاک بھارت کشیدگی کے خاتمے کیلئے جنگ نہیں بات چیت، باہمی افہام و تفہیم کی ضرورت ہے۔دوسری طرف شوپیاں کے لوگوںنے بڑی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارتی فوجیوں کے زیر استعمال تین گاڑیوں کو روکا جو چوری شدہ سیبوں کے ڈبوں سے لدے ہوئے تھے۔ ضلع کے علاقے چتراگام کلاں میں مقامی لوگوں نے دو لوڈ کیرئیر اور ایک اسکارپیو گاڑی کو رات کے دو بجے کے قریب روکا۔ تلاشی لینے پر گاڑیوں کے اندر سے چوری شدہ سیبوں کے سینکڑوں ڈبے برآمد ہوئے۔
مقبوضہ کشمیر میں غاصب بھارتی فوج کے ظلم و ستم پرہٹلرکی روح بھی کانپ اٹھی ہے،مگرنہتے کشمیریوں پرظلم کے پہاڑتوڑتے ہوئے بھارتی حکومت اورفوج کو شرم نہیں آئی۔کشمیریوں پر بد ترین ریاستی دہشت گردی کر کے حقوق انسانی کی کھلی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔دنیا اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے عوام کو محض عسکری طاقت کے بل بوتے پر نہ صرف اپنا غلام بنا رکھا ہے،بلکہ اس نے کشمیری عوام پر ظلم و ستم اور جبر و تشدد کے ایسے پہاڑ توڑے ہیں جن کا کوئی اخلاقی یا سیاسی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔ کل جماعتی حریت کانفرنس آزاد جموں و کشمیر کی طرف سے حال ہی میں جو تفصیلات فراہم کی گئی ہیں ان کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں 1989ء سے اب تک 94ہزار سے زائد بے قصور اور بے گناہ افراد کو شہید کیا جا چکا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک لاکھ 7ہزار سے زائد بچے یتیم ہو گئے اور 22ہزار 7سو سے زائد عورتیں بیوہ ہو گئیں۔ اس کے علاوہ 10ہزار ایک سو سے زائد خواتین کی آبرو ریزی کی گئی۔ اس عرصے میں ایک لاکھ 6ہزار سے زائد مکانات اور دکانوں کو مسمار کر دیا گیا۔ اس ظلم و ستم کے باوجود مقبوضہ وادی کے عوام اپنے حق خود ارادیت کے حصول کے لئے پرامن جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اگر بھارت اپنے تمام وسائل، عسکری قوت اور خزانہ مقبوضہ کشمیر میں بروئے کار لائے تو بھی وادی کی ہیئت تبدیل نہیں ہو گی۔ بھارتی قیادت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ دھونس اور دباؤ کی پالیسی سے جذبہ آزادی ختم نہیں ہو گا۔عالمی برادری کے ساتھ ساتھ حقوق انسانی کے عالمی ادارے گزشتہ 25برسوں کے دوران لاپتہ کئے گئے 9ہزار سے زائد افراد کی بازیابی اور ان لوگوں کی گمشدگی سے متعلق حقائق کو منظر عام پر لانے کے لئے بھارت پر دباؤ ڈالیں۔ 8ہزار سے زائد گمنام قبروں میں دفن لوگوں کے اصل حقائق سے کشمیری قوم اور ان افراد کے لواحقین کو معلومات فراہم کرنا عالمی برادری کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ ہم عالمی برادری کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے ہوئے یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ کشمیری عوام پر جاری مظالم کے خاتمے کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔
اس کا واحد حل یہی ہے کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیا جائے۔ پاکستان کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا حامی، جبکہ بھارت انکاری ہے۔ یہ مسئلہ اگر ابتدا ہی میں حل ہو جاتا یا سلامتی کونسل کی قرار دادوں کو سامنے رکھتے ہوئے کشمیریوں کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے دیا جاتا تو آج جنوبی ایشیا ایک پرامن خطہ ہوتا، لیکن نہ تو اقوام متحدہ نے اس طرف کوئی دلچسپی لی اور نہ ہی بھارت نے اپنی ہٹ دھرمی چھوڑی اور آج تک یہ مسئلہ جوں کاتوں ہے۔ اقوام متحدہ اس پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ہم اقوام متحدہ سے اپیل کرتے ہیں کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیا جائے اور عالمی برادری سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کریں، تاکہ مظلوم کشمیری عوام کو ان کا حق خودارادیت مل جائے اور وہ بھی آزادانہ طور پر زندگی گزار سکیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر