وجود

... loading ...

وجود

اسرائیل شاید جوا کھیل رہا ہے!

پیر 30 ستمبر 2024 اسرائیل شاید جوا کھیل رہا ہے!

جاوید محمود

حزب اللہ کا لغوی مطلب خدا کی جماعت کے ہیں ۔یہ لبنان کی ایک طاقتور تنظیم ہے جسے نہ صرف ملک کی پارلیمان اور حکومت میں قابل ذکر نمائندگی حاصل ہے بلکہ یہ ملک کی فوج کو بھی کنٹرول کرتی ہے۔ ایران کی پشت پناہی سے 1980 کی دہائی میں تشکیل پانے والی یہ تنظیم لبنان سے اسرائیلی فوجی دستوں کے انقلاب کے لیے مسلسل جدوجہد کرتی رہی ہے۔ اسرائیل کے رہنما حزب اللہ کے خلاف کارروائی میں ہونے والی پیشرفت کے بارے میں خوش ہیں۔ وہ کاروائی جو دھماکہ خیز مواد سے لیس پیجرز اورواکی ٹاکیز کے پھٹنے سے شروع ہوئی اور شدید مہلک فضائی حملوں کی شکل میں اب بھی جاری ہے۔ اسرائیلی وزیر دفاع یوگلنٹ حالیہ جنوبی لبنان کے علاقوں پر کیے گئے فضائی حملوں کے بعد اپنی تعریف سے باز نہیں رہ سکے۔ ان کا کہنا تھا آج ایک شاہکار تھا۔ حزب اللہ کے قیام کے بعد سے یہ ان کے لیے بدترین ہفتہ تھا اور نتائج خود ہی بولتے ہیں ۔یوگلنٹ نے کہا کہ اسرائیلی فضائیہ حملوں کی مدد سے ایسے ہزاروں راکٹ بھی تباہ کیے گئے جس سے اسرائیلی شہری ہلاک ہو سکتے تھے جبکہ لبنان کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے 50بچوں سمیت اس کے 550سے زائد شہریوں کو اس حملوں میں قتل کیا ہے۔ یہ 2006میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان ہونے والی ایک ماہ کی جنگ کے دوران لبنان میں ہونے والی ہلاکتوں کا لگ بھگ نصف ہے۔ اسرائیل کا خیال ہے کہ ایک زبردست حملہ حزب اللہ کو وہ کرنے پر مجبور کرے گا جو وہ اسرائیل چاہتا ہے یعنی یہ اسے اس قدر تکلیف پہنچائے گا کہ اس کے رہنما حسن نصر اللہ اور ایران میں اس کے اتحادی اور حمایتی فیصلہ کریں گے کہ مزاحمت کی یہ قیمت بہت زیادہ ہے۔
اسرائیل کے سیاست دانوں اور جرنیلوں کو فتح درکار ہے۔ تقریباً ایک سال کی جنگ کے بعد غزہ ان کے لیے دلدل بن چکا ہے۔ حماس کے جنگجو اب بھی اسرائیل فوجیوں کو مارنے اور زخمی کرنے کے لیے سرنگوں اور کھنڈرات سے نکلتے ہیں اور اب بھی اسرائیلیوں کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں۔ حماس نے گزشتہ اکتوبر میں بڑے حملے کر کے اسرائیل کو حیران کر دیا تھا۔ اسرائیلیوں نے حماس کو ایسے بڑے خطرے کے طور پر نہیں دیکھا تھا جس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے۔ لبنان مختلف ہے اور اسرائیل کی فوج ہو یا اس کی خفیہ ایجنسی موساد وہ 2006 میں حزب اللہ کے خلاف جنگ کے بعد ان کے خلاف اگلی جنگ کی منصوبہ بندی میں مصروف تھیں ۔اسرائیل کے وزیراعظم نتن یاہو کا خیال ہے کہ ان کے ملک کا تازہ حملہ ان کی جانب سے طاقت کا توازن حزب اللہ کے مخالف پلڑے میں ہونے کے اعلان کردہ مقصد کی طرف بڑی پیش رفت ہے ۔وہ چاہتے ہیں کہ حزب اللہ کی طرف سے اسرائیلی علاقوں پر راکٹ داغنے کا سلسلہ ختم ہو ۔اس کے ساتھ ہی اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ حزب اللہ کو سرحد سے پیچھے ہٹانے اور اسرائیل کے لیے خطرہ بننے والی فوجی تنصیبات کو تباہ کرنے کا ہے۔ لبنان میں چند روز قبل پیش آئے واقعات غزہ میں ایک سال سے جاری جنگ کی بازگشت کی یاد دلاتا ہے۔ اسرائیل نے لبنانی شہریوں کے لیے ویسا ہی انتباہ جاری کیا جیسا کہ اس نے غزہ میں کیا تھا کہ وہ ان کے علاقوں سے نکل جائیں ،جہاں وہ حملہ کر سکتا ہے۔ وہ حماس کی طرف سے حزب اللہ پر بھی الزام لگا رہا ہے کہ وہ شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہی ہے ۔کچھ ناقدین کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے مخالفین کا کہنا ہے کہ شہریوں کو بھیجے جانے والے یہ انتباہی پیغامات بہت ہیں اور شہریوں کو انقلاب کے لیے کافی وقت نہیں دیا گیا ۔جنگ کے قوانین کے تحت لازم ہے کہ شہریوں کی حفاظت کی جائے اور طاقت کے اندھا دھند اور غیر متناسب استعمال سے گریز کیا جائے۔ حزب اللہ نے جہاں اسرائیلی فوج کو نشانہ بنایا وہیں اسرائیل پر کچھ حملوں کے دوران شہری علاقے بھی نشانہ بنے جو شہریوں کے تحفظ کے لیے بنائے گئے قانون کے خلاف ورزی ہے۔ اسرائیل امریکہ اور برطانیہ سمیت اہم مغربی اتحادی حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں جبکہ اسرائیل کا اصرار ہے کہ اس کی فوج قوانین کا احترام کرتی ہے لیکن دنیا کے بیشتر ممالک نے غزہ میں اسرائیلی فوج کے طرز عمل کی مذمت کی ہے۔ لبنان میں بھی پیجر حملوں کے بعد یہ بحث چھڑی ہے ۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد حزب اللہ کے کارندوں کو نشانہ بنانا تھا جنہیں وہ پیجرز دیے گئے تھے لیکن اسرائیل یہ نہیں جان سکتا تھا کہ جب یہ پیجرز کے اندر نصب بم پھٹیں گے تو وہ کارندے کہاں ہوں گے جس کی وجہ سے گھروں دکانوں اور دیگر عوامی مقامات پر عام شہری اور بچے بھی زخمی ہوئے اور مارے گئے۔ کچھ سرکردہ وکلا کا کہنا ہے کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیل جنگجوؤں اور عام شہریوں میں فرق کیے بغیر مہلک طاقت کا استعمال کر رہا تھا جو کہ جنگ کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان لڑائی 1980 کی دہائی میں شروع ہوئی تھی لیکن حالیہ سرحدی جنگ گزشتہ برس سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے اگلے دن شروع ہوئی، جب حسن نصر اللہ نے اپنے نوجوانوں کو حماس کی حمایت کے لیے سرحد پر ایک محدود تعداد میں لیکن تقریبا ًروزانہ کی بنیاد پر راکٹ داغنے کا حکم دیا۔ اس عمل نے جہاں اسرائیلی فوجیوں کو باندھ کر رکھ دیا، وہیں ملک کے سرحدی قصبوں میں تقریبا 60ہزار لوگ اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ۔اسرائیلی میڈیا میں حزب اللہ پر حالیہ فضائے حملوں کے اثرات کا موازنہ آپریشن فوکس سے کیا ہے جو جون 1967میں مصر پر اسرائیل کا اچانک حملہ تھا۔ یہ ایک مشہور حملہ تھا جس نے مصری فضائیہ کو اس وقت تباہ کر دیا جب اس کے طیارے زمین پر کھڑے تھے۔ اگلے چھ دنوں میں اسرائیل نے مصر شام اور اردن کو تین مختلف محاذوں پر شکست دی۔ اس فتح نے ہی موجودہ تنازع کو جنم دیا کیونکہ اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس غزہ کی پٹی اور گولان کی پہاڑیوں سمیت مغربی کنارے پر قبضہ کر لیا۔ یہ ایک بہتر موازنہ نہیں ہے۔ لبنان اور حزب اللہ کے ساتھ جنگ الگ ہے۔ اسرائیل نے اگرچہ شدید ضرب لگائی لیکن ابھی تک وہ حزب اللہ کی اسرائیل پر گولہ باری کرنے کی صلاحیت یا ارادے کو ختم نہیں کر سکا۔
ماضی میں حزب اللہ کے ساتھ اسرائیل کی لڑائی میں کبھی بھی دونوں فریق ایک فیصلہ کن فتح حاصل نہیں کر سکے اسرائیل کی لڑائی میں دونوں فریق ایک فیصلہ کن فتح حاصل نہیں کر سکے اس بار بھی معاملہ اسی طرح چل سکتا ہے، تاہم جا رحانہ کارروائی کا آخری ہفتہ اسرائیل اس کی انٹیلی جنس سروسز اور اس کی فوج کے لیے اطمینان بخش رہا ہے۔ اسرائیل کی جارحیت ایک مفروضے پر منحصر ہے ایک جوا یعنی کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب حزب اللہ کچلی جائے گی۔ سرحد پیچھے ہٹ جائے گی اور اسرائیل پر حملے بند کر دے گی۔ حزب اللہ کی کارروائیوں پر نظر رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ وہ نہیں رکے گی کیونکہ یہی لڑائی اس کی وجود کی بنیادی وجہ ہے اس کا مطلب ہے کہ اسرائیل جس طرح شکست تسلیم کرنے سے گریزاں ہے، اسے جنگ کو مزید بڑھانا پڑے گا۔ اگر حزب اللہ نے شمالی اسرائیل کو اسرائیلی شہریوں کے لیے خطرناک بنانا جاری رکھا تو اسرائیل کو فیصلہ کرنا پڑے گا کہ آیا زمینی کارروائی شروع کی جائے تاکہ شاید بفرزون کے طور پر کام کرنے کے لیے زمین کی ایک پٹی پر قبضہ کیا جا سکے اسرائیل پہلے بھی لبنان پر حملہ کر چکا ہے۔ 1982میں اس کی فوجیں بیرو ت تک پہنچ گئیں تاکہ اسرائیل میں فلسطینیوں کے حملوں کو روکنے کی کوشش کی جا سکے تا ہم وہ اس وقت ذلت آمیز پسپائی پر مجبور ہوئے جب ان کی لبنانی عیسائی اتحادیوں نے بیروت کے صابرہ اور شتیلہ پناہ گزین کیمپوں میں فلسطینی شہریوں کا قتل عام کیا اور اسرائیل فوج نے اس عمل کے دوران انہیں تحفظ دیا ۔1990کی دہائی تک بھی اسرائیل سرحد کے ساتھ لبنانی زمین کے ایک وسیع حصے پر قابض تھا۔ آج کے اسرائیلی جرنیل اس وقت نوجوان آفیسر تھے جنہوں نے اس حزب اللہ کے خلاف نہ ختم ہونے والی جھڑپوں میں حصہ لیا جو اسرائیل کو لبنانی سرزمین سے نکالنے کے لیے لڑنے کے ساتھ ساتھ مضبوط تر ہوتی جا رہی تھی۔ 2000میں اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم اہود باراک نے نام نہاد سکیورٹی زون سے دستبرداری اختیار کر لی۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس سے اسرائیل کو زیادہ محفوظ نہیں بنایا جا سکتا اور اسرائیل کو بہت زیادہ فوجیوں کی جانوں کی قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ 2006میں حزب اللہ کی طرف سے ایک سرحد پار کارروائی میں اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک اور گرفتار کر لیا گیا جس کا نتیجہ جنگ کی شکل میں نکلا ۔پہلے اسرائیل کو امید تھی کہ اس کی فضائی طاقت اسرائیل پر راکٹ حملوں کو روک دے گی جب ایسا نہیں ہوا تو زمینی دستے اور ٹینک ایک بار پھر سرحد پر واپس چلے گئے ۔یہ جنگ لبنانی شہریوں کے لیے ایک تباہی تھی لیکن جنگ کے آخری دن بھی حزب اللہ اسرائیل پر راکٹ داغ رہی تھی۔ اس جنگ کے خاتمے کے بعد حسن نصراللہ نے کہا تھا کہ اگر وہ جان لیتے کہ اسرائیل جواباً کیا کرے گا تو وہ چھاپے کی اجازت نہ دیتے۔ اسرائیل کے کمانڈر جانتے ہیں کہ لبنان میں داخل ہونا غزہ میں حماس سے لڑنے کے مقابلے میں بہت بڑا فوجی چیلنج ہوگا۔ حزب اللہ بھی 2006 کی جنگ کے خاتمے کے بعد سے منصوبہ بندی کر چکی ہے اور جنوبی لبنان میں اپنے ہوم گراؤنڈ پر لڑے گی جس میں کافی نہ ہموار پہاڑی علاقے ہیں جو گوریلا حکمت عملی کے لیے بہترین ہے۔ اسرائیل غزہ میں حماس کی کھودی گئی تمام سرنگوں کو تباہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ جنوبی لبنان کے سرحدی علاقوں میں حزب اللہ نے پچھلے 18برس کو ٹھوس چٹانوں میں سرنگیں اور دفاعی پوزیشنیں تیار کرنے میں صرف کیا ہے۔ اس کے پاس ایران کا فراہم کردہ اسلحے کا زبردست ذخیرہ ہے اور غزہ میں حماس کے برعکس اسے شام کے راستے زمینی راستے سے دوبارہ رسد فراہم کی جا سکتی ہے۔ سینٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز واشنگٹن ڈی سی میں ایک تھنک ٹینک کا تخمینہ ہے کہ حزب اللہ کے پاس تقریبا 30ہزارفعال جنگجو اور 20ہزار ریزرو فوجی ہیں جن میں زیادہ تر ہلکی پیدل فوج کے چھوٹے چھوٹے یونٹوں کے طور پر تربیت یافتہ ہیں۔ اس کے پاس بہت سے جوانوں کو شام میں اسد حکومت کی حمایت میں لڑنے کا جنگی تجربہ بھی ہے۔ زیادہ تر اندازوں کے مطابق حزب اللہ کے پاس ایک لاکھ 20ہزار سے 2لاکھ تک میزائل اور راکٹ ہیں جن میں ان گائیڈ ہتھیاروں سے لے کر طویل فاصلے تک مار کرنے والے ایسے ہتھیار بھی شامل ہیں، جو اسرائیل کے شہریوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ اسرائیل شاید جوا کھیل رہا ہے کہ حزب اللہ اس سب کا استعمال نہیں کرے گی ۔اس ڈرسے کہ اسرائیلی فضائیہ لبنان کے ساتھ وہی کرے گی جو اس نے غزہ کے ساتھ کیا یعنی تمام قصبوں کو ملبے میں تبدیل کر دیا اور ایک لاکھ سے زیادہ شہریوں کو ہلاک کر دیا۔

 


متعلقہ خبریں


مضامین
یہ نسل کشی ہے! وجود بدھ 02 اکتوبر 2024
یہ نسل کشی ہے!

اپنی باری کاانتظار وجود بدھ 02 اکتوبر 2024
اپنی باری کاانتظار

حسن نصر اللہ کی شہادت فلسطینیوں کے لیے بڑا دھچکا! وجود منگل 01 اکتوبر 2024
حسن نصر اللہ کی شہادت فلسطینیوں کے لیے بڑا دھچکا!

بلوچستان میں بغاوت اور لندن گروپ وجود منگل 01 اکتوبر 2024
بلوچستان میں بغاوت اور لندن گروپ

دو ارب خوابیدہ قوم کے نام وجود منگل 01 اکتوبر 2024
دو ارب خوابیدہ قوم کے نام

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر