وجود

... loading ...

وجود

بلوچستان میں بھارتی دہشت گردی

اتوار 29 ستمبر 2024 بلوچستان میں بھارتی دہشت گردی

ریاض احمدچودھری

اسلام دین فطرت ہے جو اپنے پیروکاروں کو راہ راست پر رہنے کا درس دیتا ہے یعنی صراط مستقیم پر چلنے اور مل جل کر معاشرے میں رہنے اور حقوق العباد پر رہنے کا سبق دیتا ہے۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ انسانی جان کی حرمت کو قائم رکھیں اور معاشرے کو امن و آشتی پر چلائیں’ مگر حالیہ چند سالوں میں نام نہاد مسلمان جن کا فلسفہ ہی قتل و غارت گری ہے دین اسلام میں ایک ناسور اور نئے فتنہ کی صورت اختیار کرچکے ہیں اور ابوجہل کی طرح جاہلیت پر مبنی فلسفہ پر گامزن ہیں۔ یہ لوگ اپنے سیاسی مفادات کے تحت اسلام کی غلط ترجمانی کرتے ہیں اور دنیا بھر میں امت مسلمہ کو ان نام نہاد جہادیوں کی وجہ سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اپنے مفادات کی خاطر جھوٹ بولنا سخت گناہ ہے’ مگر یہ لوگ تو اسلام کو اور مسلمانوں کو اس حد تک بدنام کر رہے ہیں کہ پوری مغربی دنیا اسلام کو ایک خوفناک مذہب سمجھنے لگی ہے اور اپنے ممالک میں موجود مسلمانوں کو جو وہاں گزشتہ کئی دہائیوں سے مقیم ہیں کو اس طرح شک کی نظر سے دیکھتے ہیں کہ جیسے القاعدہ اور تحریک طالبان کا تعلق ہر اس مسلمان سے ہوسکتا ہے جو کہ نماز پڑھتا ہو اور دین اسلام پر سختی سے کاربند ہو۔ مغربی دنیا ہر ایسے مسلمان کو دہشت گردوں کا ساتھی یا خود دہشت گرد سمجھتے ہیں۔
ہمسایہ ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور اندر سے کمزور کرنے کا بھارتی طریقہ کار آج کا نہیں بلکہ بھارتی حکمران 1947ء سے ہی اس پر کاربند ہیں خصوصاً پاکستان کے معاملے میںتو وہ ادھار کھائے بیٹھے ہیں اور کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ حالانکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے بھارت کا ریکارڈ کبھی شاندار نہیں رہا۔ سکھ خالصہ تحریک کو طاقت کے ذریعے کچلنے کے اقدام سے لے کر بھارتی ریاست میزورام، ناگا لینڈ اور منی پور میں اٹھنے والی علاقائی تحریکوں کیخلاف بھارت نے جس وحشیانہ انداز میں طاقت کا استعمال کر کے عام انسانوں کا خون بہایا ، تاریخ ان واقعات کو کبھی نہیں بھلا سکے گی جبکہ اقلیتوں کے خلاف امتیازی قوانین و کارروائیوں کے ذریعے ان پر عرصہ حیات تنگ کرنا بھارتی ریاستی اداروں کا وطیرہ ہے۔
بلوچستان سے گرفتار خودکش حملہ آور عدیلہ بلوچ نے کہا ہے کہ دہشت گرد بلیک میل کرکے بلوچ خواتین کو ورغلاتے ہیں، جس کی میں چشم دید گواہ ہوں۔ میں ایک کوالیفائیڈ نرس ہوں اورورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا ایک پروجیکٹ چلا رہی ہوں۔ میرا کام لوگوں کی مدد کرنا اور زندگیاں بچانا ہے۔ میری بدقسمتی ہے کہ میں ایسے عناصر کے ساتھ رہی جنہوں نے مجھے صحیح راستے سے بھٹکایا۔عدیلہ بلوچ کا کہنا تھا کہ مجھے ایسے بہکایا گیا کہ میں خود کش حملہ کرنے کے لیے تیار ہو گئی۔ میں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ میرے خودکش حملے کرنے سے کتنے معصوم اور بے گناہ لوگوں کی جان چلی جائے گی۔ مجھے دہشتگردوں کی جانب سے ایک نئی اور خوشگوار زندگی کے سبز باغ دکھائے گئے۔گرفتار خودکش حملہ آور کے مطابق میں اپنے گھر والوں کو بتائے بغیر دہشت گردوں کے پاس پہاڑوں میں چلی گئی۔ وہاں جا کر مجھے احساس ہوا کہ یہاں مشکلات اور سخت زندگی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ میرے علاوہ وہاں اور بھی بہکائے ہوئے بلوچ نوجوان موجود تھے۔ دہشتگردوں کی جانب سے یہ تاثر دینا کہ بلوچ خواتین اپنی مرضی سے خود کش حملہ کرتی ہیں سراسر جھوٹ ہے۔ دہشتگرد بلیک میل کرکے بلوچ خواتین کو ورغلاتے ہیں جس کی میں چشم دید گواہ ہوں۔ مجھے اپنے غلط راستے پر چلنے کا احساس تک نہیں ہوا۔عدیلہ بلوچ نے ا بلوچ نوجوانوں کے لیے پیغام دیا کہ جو غلطی میں نے کی ہے آپ نہ کریں۔ اس میں صرف ہمارا نقصان اور نہ ہی ایسے کاموں سے کوئی آزادی ملتی ہے۔ جن لوگوں سے میں ملی ہوں، اگر ایسے لوگ آپ کو ملیں تو اپنے والدین کو ضرور بتائیں۔ یہ بربادی کا راستہ ہے، اپنے آپ کو خود کش حملے میں استعمال کرکے مارنا حرام راستہ ہے۔ میں نہیں چاہتی کہ بلوچ نوجوان غلطی کریں جو میں نے کی۔واضح رہے کہ بلوچستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایک بڑی کامیابی ملی ہے، جس میں انہوں نے ضلع کیچ کے شہر تربت سے خاتون خودکش حملہ آور کو گرفتار کیا ہے، جس کی شناخت عدیلہ بلوچ کے نام سے ہوئی ہے۔ عدیلہ بلوچ گرفتاری کے وقت تربت ٹیچنگ اسپتال میں نرس کے طور پر کام کررہی تھی۔ عدیلہ بلوچ کی گرفتاری قانون نافذ کرنے والے اداروں کی انتھک محنت اور فعال انٹیلی جنس کا ثبوت ہے۔عدیلہ بلوچ کا گرفتار ہونا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد کیلئے بلوچ خواتین کا استعمال کررہے ہیں۔ عدیلہ بلوچ کی جانب سے کی جانے والی گفتگو بلوچ نوجوانوں کیلئے واضح پیغام ہے کہ وہ بلوچستان کی ترقی کا راستہ اپنائیں نہ کہ دہشت گردی کا یا بربادی کا راستہ اختیار کریں۔ اس موقع پر عدیلہ بلوچ کی والدہ نے کہا کہ دہشت گرد ہماری مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہیں، خواتین کو دہشت گرد اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں، اللہ جانتا ہے کہ ہم نے کن مشکل حالات میں وقت گزارا ہے، بیٹی کے لاپتہ ہونے کے بعد ایک دن کرب اور مصیبت میں گزارا۔عدیلہ بلوچ کے والد نے کہا کہ میں بینک ملازم ہوں، کراچی میں نوکری کرتا ہوں، اپنی تنخواہ سے گھر کا خرچ اور بچوں کو تعلیم دلا رہا ہوں، پہاڑوں پر بیٹھے لوگوں سے کہتا ہوں آپ کیسے بلوچ ہیں، ایک بلوچ کی بیٹی کو ورغلا کر لے گئے۔ میری بیٹی لاپتہ ہوئی میں ہی جانتا ہوں کہ مجھ پر اور اہلخانہ پر کیا گزری، جو پہاڑوں میں جاتے ہیں ان کا واپس آنا مشکل ہوتا ہے، پہاڑوں پر لے جانے والے آزادی کے نام پر نوجوانوں کو ورغلاتے ہیں۔ میں نے بلوچستان حکومت سے رابطہ کیا کہ میری بیٹی لاپتہ ہے، بلوچستان حکومت سے درخواست کی کہ میری بیٹی کو بازیاب کرائیں، حکومت پاکستان اور بلوچستان کی وجہ سے میری بیٹی بازیاب ہوئی، ہم یہاں پر اپنی مرضی سے آئے ہیں، سوشل میڈیا پر جو دیکھتے ہیں وہ پروپیگنڈا ہے۔اس موقع پر فرح عظیم شاہ نے کہا کہ بلوچ اپنی عزت پر جان دینے والی قوم ہیں، حیرانی ہوئی کہ ان کے ہاتھوں ہماری بیٹیوں کی عزت محفوظ نہیں، پاکستان ایک نور ہے اور نور کو کبھی زوال نہیں ہوتا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر