... loading ...
زریں اختر
(٢٨ ِ ستمبر ، ”خبر” کا عالمی دن )
شمس الرحمن فاروقی نے کسی جگہ لکھا ہے کہ ‘زَبان کبڈی کا کھیل نہیں’۔ ایسا انہوں نے کیوں لکھا؟ کیا کبڈی کے کوئی اُصول نہیں ہوتے؟ کھیلو ں کے بھی اصول طے ہوئے تو کیا ! کیا لفظ ‘پامال یا پائمال’ لغت کا حصہ نہیں بنا ، اگر ہم اصولوں کو پامال نہیں کریں گے تو یہ لفظ متروک ہوجائے گایعنی ذخیرئہ الفاظ میں ایک لفظ کی کمی اور ہماری حرکتوں کے اشاریے بتا رہے ہیں کہ کوئی اور لفظ جس نے اس کی جگہ لی ، اس سے بڑ ھ کر ہی ہوگا ، کمی کے امکانات تو سرِ دست نظر نہیں آرہے۔
اَ کھاڑہ کا متبادل لفظ میدان ہے ، لیکن کالم کے مصالحے کی مناسبت سے سنسکرتی لفظ اکھاڑہ جو مزا دے رہا ہے وہ فارسی لفظ میدان نہیں دے رہا۔ لفظ میدان سے تصور آتاہے ریت کی چٹیل زمین کا جہاں بچے کرکٹ یا فٹ بال کھیل رہے ہیں۔ لفظ اکھاڑہ ! کیا آپ کے تصور میں دوپہلوان شلوار اڑسے ایک دوسرے سے گتھم گتھا نہیں آدھمکے، آپ کے تصور میں یہ چمتکار کس نے کیا ؟ لفظ اکھاڑہ نے۔
جامعات سیاسی اکھاڑہ بن گئیں، اسمبلیاں اکھاڑے کا منظر پیش کرنے لگیں ؛ ابھی معاملہ یہاں بھی قابو میں ہے کہ لفظ اکھاڑہ کے تصور میں شلوار اڑسے پہلوانوں کی جگہ شلوار قمیص اور جینز ٹی شرٹ میں ملبوس ڈاکٹر پروفیسر یا کوٹ نکٹائی اور شیروانی زیب تن کیے منتخب و معزز اراکین نے نہیں لے لی کہ ایک دوسرے سے دست و گریباں، ایک کے ہاتھ میں دوسرے کی ٹائی ہو اور دوسرے کے ہاتھ میں پہلے کی شیروانی کا بٹن یا خدانخواستہ ازار بند۔
خبر کے عالمی دن کے موضوع کی مناسبت سے لفظ خبر کچھ سابقوں اور لاحقوں کے ساتھ بھی اتنا ہی درست معلوم ہوا جتنا کہ لفظ خبر ،جیسے باخبر ، بے خبر اور خبردار۔ خبر یہ تینوں کام کرتی ہے ، باخبر بھی کرتی ہے ، بے خبر بھی رکھتی ہے اور خبردار بھی کرتی ہے۔
میں قارئین کی توجہ (اخباری مالکانِ تمام اور مدیرانِ ناتوان سے معذرت کے بغیر) اس رزم گاہ کی طرف دلانا چاہتی ہوں جو یہ روزانہ اُردو اخبارات کے صفحۂ اوّل کی خبروں میں بالعموم او ر سرخیوں میں با لخصوص و بالالتزام کبھی ببانگ دہل اور کبھی ذومعنوی و بین السطور اس طرح کرتے ہیں کہ اس میں شک نہیں کہ اش اش کرنے کو دل چاہتا ہے لیکن جلد ہی اس اش اش کی جگہ تردُّدو تفکر لے لیتاہے۔ اس سے قبل مصحفی غلام ہمدانی کا ایک شعر(بشکریہ ریختہ) لفظ ‘خاک ‘ کی جگہ ‘صحافت’ کی ترمیم کے ساتھ کہ :
یہ سطح ‘صحافت’ ہے کیا رزم گاہ کا میدان
کہ جس پہ ہوتی ہوئی نت لڑائیاں دیکھیں
رزم گاہ سجانے کے لیے بنیادی اجزائ: فریقین جو ایک دوسرے کی شکلوں کے نفرین اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوں، ہونا ضروری ہیں۔ ہماری قومی ، ملکی ، صوبائی ،سیاسی ، لسانی ، فرقہ ورانہ و وغیرہ وغیرہ فلانا ڈھماکا تاریخ میں یہ الم غلم اجزاء حسب ضرورت و حسب منشاء و حسب ذائقہ موجود رہتے ہیں اور بہ وقت ضرورت استعمال میں لائے جاتے رہے ہیں۔
یہ اُردو روزناموں کی ٢٣ ِ ستمبر کی خبریں ہیں:
روزنامہ جنگ کی بینر لائن اور بالاترتیب ذیلی سرخیاں ہیں :”عمران عوامی سطح پر اسرائیل مخالف، اندرونِ خانہ ہم خیال، رائے عامہ اور خارجہ پالیسی بدل سکتے ہیں، اسرائیل میڈیا کی مسلسل حمایت۔
اسرائیل سے تعلقات میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے مضبوط مزاحمت کا سامنا ہے ، مسئلے کے حل کے لیے موجودہ سیاسی قیادت کو بدلنا ہوگا، عمران خان کا کردار کلیدی ہوگا۔
ٹرمپ کی واپسی پاک اسرائیل تعلقات کو تیز کرسکتی ہے،عمران خان کے بڑھتے اثر و رسوخ کے تناظر میں دیکھنا ہوگاپاکستان کس حد تک اسرائیل کے خلاف اپنی روایتی دشمنی بدل سکتاہے،صیہونی اخبار میں تیسرا مضمون”۔
جنگ نے خبر میں مزید جان پیدا کرنے کے لیے تین تصاویر شائع کی ہیں، ایک میں عمران خان اپنی سابقہ اہلیہ جمائما خان کے بھائی گولڈ اسمتھ کے ساتھ ہیں، دوسری تصویر میںعمران خان ٹرمپ او ر ان کی اہلیہ کے درمیان میں کھڑے ہیں اور تیسری تصویر میںزلفی بخاری ٹرمپ کی بیٹی اور داماد کے ساتھ ہیں۔
روزنامہ ایکسپریس کی خبرہے جو اخبار نے شہ سرخی کے برابرتین کالمی شائع کی ہے کہ :” عمران خان کا بڑھتا اثرو رسوخ،اسرائیل بارے عوامی رائے،فوجی پالیسی بدل سکتا،اسرائیلی اخبار
سابق وزیرِ اعظم کی انتخابی کامیابی تعلقات کا ازسرِ نو جائزہ لینے کا موقع فراہم کرتی،اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں فوجی اسٹیبلشمنٹ مزاحم
عمران نے اسرائیل کے خلاف سخت بیان بازی کی مگر وہ خارجہ پالیس پر نظر ثانی بھی چاہتے ہیں، یروشلم پوسٹ میں شائع مضمون”۔
سرخی کی زبان قواعد کے اعتبار سے کچھ ٹوٹی پھوٹی ہے یا یہ نیا چلن ہے (بولی وڈ کی ایک فلم میں اردو اسی طرح تھی ، ہوسکتاہے کسی علاقے میں اس طرح بولی جاتی ہو )، لیکن معروضیت کا معیار اور قدر ملحوظ رہا، پچھلی ملاقاتوں اور خبروں کی کوئی تصویر بھی نہیں دی گئی ۔
نوائے وقت کی بینر لائن ہے:” بانی پی ٹی آئی اسرائیل کا حمایتی،مخالف بیان دینے کے باوجود بہتر تعلقات کے اشارے دیتے رہے، یروشلم پوسٹ
عمران خان اسرائیل کے لیے ہم خیال سیاستدان ہیں،بانی پی ٹی آئی کی انتخابات میں کامیابی پاک اسرائیل تعلقات کا ازسر نو جائزہ لینے کا موقع ہے،اسرائیل دوست خارجہ پالیسی کے اسٹریٹیجک فوائد ہیںلیکن پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ سے مزاحمت کا سامناہے۔
فوجی اسٹیبلشمنٹ نے طویل عرصہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر آنے سے روکا،اس لیے اسرائیل سے تعلقات کے لیے پاکستان کی موجودہ سیاسی قیادت کو بدلنا ہوگاکیوں کہ عمران خان اسرائیل کے حمایت اور اسٹیبلشمنٹ و سیاسی قیادت کے مخالف ہیں”۔
صحافتی سیاست یا سیاسی صحافت کے اکھاڑے میں اس خبر کو کیسے کھیلا گیا یہ ایک الگ بحث ہے۔خبروں پر اب لسانیاتی نکتہ نظر سے بھی تحقیقات ہو رہی ہیں۔ مشہور صحافی حامد میرنے کسی پروگرام میں تفصیلی گفتگو کی تھی جس میں انہوں نے پاکستان انڈیا تعلقات کے پس منظر میں ایسے ممالک کی مثال دی تھی جن کے درمیان اسی طرح کی پیدائشی و ازلی و موروثی وغیرہ چپقلش و کشیدگی ہی نہیں بلکہ جنگیں بھی تھیں ، جیسا کہ ہماری پاک بھارت تاریخ ہے ،لیکن ان ممالک نے اس تاریخ سے اپنا پیچھا چھڑایا اوردوستانہ بنیادوں پر استوار مستقبل کے نئے تعلقات کی بنیاد رکھی ۔
اسرائیل کے حوالے سے مجھے حتمی رہنمائی کسی مذہبی عالم کی درکار تھی ۔ مذہبی عالم کا بھی وہ بیان جو فوجی اسٹیبلشمنٹ کے مفادات کی مخالفت میں جاتاہے ، متنازع بنادیا جاتا ہے ، اور یہی پر بس نہیں بلکہ وہ مذہبی عالم ہی مضر معاشرہ ہو جاتاہے۔ جاوید احمد غامدی کابیان سامنے آیا کہ ”ہمیں اسرائیل کو پہلے ہی دن تسلیم کرلینا چاہیے تھا”۔ کیوں ؟ کیو ں کہ یہی امن و سلامتی کا اور قتل و غارت گری اورخون ریزی سے بچائو کا راستہ تھا جو فلسطین نے اسرائیل کو تسلیم نہ کرکے چنا۔
نہ ہمیں کوئی مصالحہ بیچنا ہے ، نہ ہم کسی اکھاڑے کے پہلوان ہیں ، نہ ہمارے کوئی مفادات اشرافیہ کے ساتھ وابستہ ہیں ؛ ہم پاک انڈیا اور پاک اسرائیل دوستی کے حامی ہیں کیوں کہ ہم انسانیت کے حامی ہیں، بھارت دشمنی میں ہم نے زندگی کے کتنے شعبوں میں ترقی کرلی؟اگر طاقتوں کو رزم گاہ سجانے کا اتنا ہی شوق ہے تویہ تو دیکھ لیں کہ آج طاقت کے توازن کا پلڑا کس طر ف جھکا ہواہے؟
٭٭٭
نوٹ: یہ کالم نگار کے ذاتی خیالات ہیں، ادارہ جرأت پاک بھارت تعلقات اور پاک اسرائیل تعلقات کے حوالے سے مختلف خیالات کا حامل ہے۔ نیز عمران خان کے حوالے سے قومی اخبارات میں شائع صیہونی اخبار کے مضامین کو پروپیگنڈے کی اُسی مکروہ روش کا حصہ سمجھتا ہے جو ماضی میں دیگر مختلف سیاست دانوں کے خلاف عالمی ذرائع ابلاغ میں مخصوص سیاسی حالات میں ہوتے رہے ہیں۔ (ادارہ جرأت)