... loading ...
حمیداللہ بھٹی
پاک روس شراکت داری حوصلہ افزا ہے کیونکہ نہ صرف ماضی میں جنم لینے والی تلخیوں کی خلیج کم ہورہی ہے بلکہ دونوں ممالک قریب سے قریب تر آنے لگے ہیں۔ دودہائی قبل ایسی صورتحال کے بارے میں سوچنابھی محال تھا کہ پاکستان جیسا امریکہ کا قریبی اتحاد ی روس کی طرف ہاتھ بڑھائے گا جسے بخوشی تھام لیاجائے گا مگر اب یہ حقیقت ہے کہ دونوں ممالک تلخ ماضی کو بھول کر مستقبل میں باہمی تعاون بڑھانے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔اِس میں چین کابھی کردار ہے جس نے ماضی کے حریفوں کو حلیف بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ شراکت داری کے لیے پُرعزم پاک روس قیادت کو شنگھائی تعاون تنظیم سے اختلافی امور کاحل تلاش کرنے میں بھی کافی مددملی۔
پاکستان کے لیے تجارتی حوالے سے امریکہ ،سعودی عرب ،چین اور برطانیہ آج بھی اہم ہیں لیکن اب روس بھی غیر اہم نہیں رہا۔ اِس وقت دونوں ممالک کی باہمی تجارت کا حجم ایک ارب ڈالر کے قریب ہے ،جسے اِس بناپر زیادہ بہتر نہیں کہہ سکتے کہ پاک امریکہ تجارتی حجم دس ارب ڈالر سے تجاوزکرگیا ہے۔ قابلِ ذکربات یہ کہ زیادہ حصہ پاکستان کا ہے، اِس تناظرمیں پاک روس تجارت حوصلہ افزانہیں ۔البتہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر ضرورتوں کا تعین کرلیاجائے تو ایک ارب ڈالر کے تجارتی حجم کو کئی گنا بڑھایا جا سکتا ہے کیونکہ امریکہ کے لیے پاکستان کچھ زیادہ اہم نہیں رہا بلکہ میزائل سازی کے حوالے سے پابندیوں کی زدمیںہے ۔نیز روس کو بھی امریکہ اور مغربی ممالک کی طرف سے مختلف قسم کی پابندیوں کاسامنا ہے جس کا تقاضا ہے کہ پاک روس قیادت صرف روابط اور تجارت بڑھانے کے عزم تک محدود نہ رہے بلکہ توانائی اور دفاعی شعبوں تک تعلقات اور تعاون کے اقدامات کرے ۔صرف اِس طرح ہی پابندیوں کو بے اثر کیاجا سکتاہے ۔افغانستان سے انخلا کے بعدامریکہ نے پاکستان سے نظریں پھیرلیںمگر چینی خطرے نے پاکستان کو ایک بار پھرامریکہ کے لیے اہم کردیا ہے اوراب اُس کی کوشش ہے کہ پاکستان کو مکمل طور پر چین کی طرف جانے سے روکاجائے۔ اسی لیے پابندیاں لگانے کے باوجود آئی ایم ایف سے سات ارب ڈالر بھاری قرض دلانے میں تعاون کیاہے۔ اب یہ ہماری قیادت کی فہم وفراست کامتحان ہے کہ ماضی کی سرد جنگ کی طرح اب پھر کسی ایک بلاک کا حصہ نہ بنے بلکہ ملکی مفاد کے تحفظ کو یقینی بنائے ۔
پاک روس شراکت داری کے آغاز میںذوالفقارعلی بھٹوکاقابلِ قدرکردارہے۔ انھوں نے سرد جنگ کے عروج میں روس کے دو دورے کیے جن کے دوران غلط فہمیاں دورکرنے اور شراکت داری کی طرف آنے کا نہ صرف موقع ملا بلکہ روسی تعاون سے پاکستان اسٹیل مل جیسا منصوبہ مکمل کیاگیا جس سے پاکستان کے اسٹیل کی درآمدات پر اُٹھنے والے بھاری اخراجات کم ہوئے۔ اب دوبارہ دونوں ممالک ایک نئی اسٹیل مل قائم کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں جس کے لیے پہلے کی طرح کراچی کاہی انتخاب کیا گیا ہے۔ خوش قسمتی سے غیر فعال اسٹیل مل کا سات سو ایکٹر رقبہ اِس مقصد کے لیے دستیاب ہے ،اِس لیے یہ منصوبہ ممکن ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں خام لوہے کے ذخائر 1887ملین ٹن سے زائد ہیں مگرپاکستان اپنی ضرورت کا لوہااور اسٹیل درآمد کرنے پر مجبورہے اگر نئی اسٹیل مل کا منصوبہ مکمل ہوجاتا ہے تو ملکی ضروریات کے لیے نہ صرف لوہا اور اسٹیل وافر ملے گا جس سے صنعتی ترقی کی رفتارتیز ہوگی بلکہ درآمدی اخراجات میں بھی کمی آئے گی ۔
منصوبے بنانا آسان مگر مکمل کرنا محنت طلب ہے۔ 2015 میںپاک بیلا روس کے درمیان معاہدہ طے پایا جس کے مطابق بیلا روس نے جنوری 2016سے پاکستان میں ہر برس پانچ سو ٹریکٹر تیارکرنا تھے مگر یہ منصوبہ اِس حدتک ناکام ہوا کہ اِس شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والے کئی سرمایہ کاردیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئے۔ اب دونوں ممالک ٹریکٹر وبس سازی کا منصوبہ بنارہے ہیںجو تبھی مفید ثابت ہو سکتا ہے جب پاکستان تیارسامان خریدنے کی بجائے ٹیکنالوجی کی منتقلی پر توجہ دے۔ رواں ماہ پاکستان کے دورے پر آئے روس کے نائب وزیرِ اعظم الیکسی اوورچک اور اسحاق ڈار نے اٹھارہ ستمبرکومشترکہ پریس کانفرنس میں شراکت داری کو بہتر اور وسیع کرنے کا عزم دہرایامگر ضرورت اِس امر کی ہے کہ عزم کے ساتھ عمل بھی ہو تاکہ روسی معاہدوں کا حشربھی بیلا روس کی طرح نہ ہو۔
پاک روس شراکت داری بہتر بنانے پر دونوں ممالک میں کامل اتفاق ہے۔ توانائی کے درپیش مسائل کی وجہ سے روسی تعاون بہت اہم ہے۔ اپریل 2005میں روسی وزیر اعظم میخائل فریڈکوف پاکستان کے دورے پر آئے مگرتعاون کے خوشنما وعدوں سے بات آگے نہ بڑھ سکی ۔موجودہ صدر آصف زرداری جب پہلی بار ملک کے صدر بنے تو بطور صدر انھوں نے 2011 میںروس کا دورہ کیا۔ اِس دوران اتنی پیش رفت ہوئی کہ دونوں ممالک تعاون بڑھانے کاعندیہ ظاہرکرنے تک محدودنہ رہے بلکہ کسی حدتک کام بھی ہوا یہی دورہ صیح معنوں میں شراکت داری کے لیے سنگِ میل ثابت ہوا۔قبل ازیں اپریل 1999 میں میاں نواز شریف بھی ماسکوگئے لیکن صنعت کار وزیر اعظم کا یہ سفراِس لیے رائیگاں گیاکیونکہ بات وعدوں سے آگے نہ بڑھ سکی۔ 2022میں عمران خان ماسکو گئے تو صدر پوٹن نے نہایت گرمجوشی سے خیر مقدم کیا مگر اِس دورے کی گرمجوشی کارآمدثابت نہ ہوسکی ۔دراصل عمران خان ماسکوپہنچنے تو اگلے ہی دن روس نے یوکرین پر حملہ کر دیا۔ یہ جنگ ابھی تک جاری ہے جس میں روس جزوی حدتک کامیاب ہے اور امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک اربوں ڈالر کایوکرین کو اسلحہ دیکر بھی اُسے شکست نہیں دے سکے۔ صدر پوٹن نے چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چین کو قریب تر کرکے ایسی چال چلی ہے جس کا توڑہنوزتلاش نہیں کیا جا سکا ۔یہ درست ہے کہ روس اِس وقت کوئی بڑی عالمی طاقت نہیں لیکن رقبے کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑایہ ملک اب بھی بااثر ہے جو کسی بھی وقت عالمی منظر نامے پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ مگر ماضی کے تلخ تجربات کا تقاضا ہے کہ پاکستان اپنا مکمل وزن کسی ایک پلڑے میں ڈالنے کی بجائے سب سے تعاون حاصل کرنے کی روش پر چلے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کا جلاس آئندہ ماہ اکتوبر میں اسلام آباد ہورہاہے جس میں روسی وزیر اعظم میخائل مشسٹن مشسٹن کی آمد متوقع ہے دیرپا اور پائیدار تعلقات کے لیے لازم ہے کہ دونوں ممالک تعلیمی اور ثقافتی وفودکو فروغ دیں۔ سرمایہ کاری کا طریقہ کار آسان بنائیں ۔ صنعت ،زراعت اور توانائی میں تجربات کاتبادلہ کیا جائے، ہمہ جہتی نوعیت کے تعلقات سے ہی باہمی شراکت داری مضبوط ہو سکتی ہے۔ خوش قسمتی سے روس بقا کی جنگ لڑرہا ہے جس میں دنیا کے اکثر ترقی یافتہ ممالک اُس کے مخالف ہیں۔ مختلف نوعیت کی پابندیوں سے وہ معاشی طورپردبائو کا شکارہے ۔اسی لیے ارزاں نرخوں پر تیل فروخت کرنے پرمجبورہے اگر پاکستانی قیادت توجہ دے تو روسی شراکت داری سے ملک کے زرعی،صنعتی اور توانائی کے کئی مسائل پرقابوپا سکتی ہے۔