وجود

... loading ...

وجود

سوزِ غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا!

جمعه 27 ستمبر 2024 سوزِ غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا!

زریں اختر

پاکستان ٹیلی وژن سے راشد منہاس شہید پر ڈرامہ پیش کیا گیاتھا۔ جس رات یہ ڈرامہ نشر ہوا اس کے اگلے دن کچھ صحافی راشد منہاس کے گھر پہنچ گئے ، مقصد ڈرامے پر رد عمل معلوم کرنا تھا اوراس غم میں شرکت بھی کہ غیروں کے لیے بھی اس واقعے کی یادیں تازہ ہوگئیں تھیں۔ راشد منہاس کی والدہ نے بتایا کہ ڈرامے کا آخری منظرنہیں دیکھا گیا، انہوں نے اپنی آنکھوں پہ ہاتھ رکھ لیااور سب گھر والوں کی ہچکیاں بندھ گئی تھیں۔ ڈرامے کے بعد پڑوس سے لوگ آگئے کہ ان کی بھی ایسی ہی کیفیات تھیں جو آپ کو یہاں لائی ہیں۔ یہ ڈرامہ تو حقیقی واقعے پر مبنی تھا ، حساس لوگ فرضی ڈرامے پر بھی آبدیدہ ودل گرفتہ ہوجاتے ہیں۔
محدود سرکٹ ٹیلی وژن (سی سی ٹی وی) فوٹیج کے ذریعے جہاںایک طرف شریر شہری پکڑ میں آئے وہاںدوسری طرف روح فرسا مناظر کی حقیقی متحرک فلم نہ صرف تفتیشی اداروں بلکہ ذرائع ابلاغ اور اب سوشل میڈیا کے ہاتھوں وائرل ہونے لگیں۔لوگ اپنے پیاروں کی زندگی کے آخری مناظر دل پکڑ کر اس نا ممکن دعائی کلمات کے ساتھ دیکھتے ہونگے کہ کاش یہ بدل سکتا۔
ان ہی سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعے تفتیشی ادارہ قاتل تک پہنچاتھا۔بوری میں ایک لڑکی کی لاش ملی تھی ، سڑک پر سی سی ٹی وی کیمرا لگا تھا ، تفتیشی اہلکاروں نے دیکھا کہ رات گئے ایک برقع پوش عورت وہ بوری وہاں رکھ رہی ہے ۔ اگلے دن خبر لگی کہ فلاں علاقے سے لڑکی کی بوری بند لاش برآمد۔ دو تین روز بعد خبر آئی کہ قتل کے شبے میں ماں گرفتار ، اور پھر اس کے بعد خبر آگئی کہ ماں نے بیٹی کے قتل کا اعتراف کر لیا۔ تفتیشی اہلکار اس تک کیسے پہنچے ؟ جب وہ فوٹیج انہوں نے دوبارہ اور سہ بارہ دیکھی اور تھوڑی دیر تک دیکھی ، تو بعد میں یہ نظر آیا کہ وہ برقع پوش عورت دوبارہ بوری کے پاس آئی اور چیخی ۔تفتیشی اہلکاروں نے پالیا کہ دوبارہ پلٹ کر آنے والی اور بین کرنے والی عورت ماں کے علاوہ کون ہو سکتی ہے۔
قارئین کو جامعہ کراچی میں خود کش بمبار عورت کی وہ ویڈیو بھی یاد ہوگی جس میں تفتیش کاروں کی گفتگو بھی سنی جاسکتی ہے کہ”دیکھیں وہ سیاہ برقعے میں ، درخت کے پاس جاکر وہ مڑی ، اب ہاتھ میں ڈیوائس نظر آرہی ہے ‘ اور جیسے ہی وین اس نکڑ پر پہنچی وہ وین کے قریب آئی ، ایک زور دار دھماکہ ہواور لمحہ بھی نہیں لگاکہ وہ سفید وین سرخ شعلوں کی لپیٹ میں تھی ، ایک دوسری وڈیو میں جھلستے انسانوں کی چیخیں بھی سنائی دے رہی ہیں۔ آرمی اسکول پشاور میں اس دن الوداعی تقریب تھی ، اس الوداع پر کیا لکھوں؟ سی سی ٹی وی فوٹیج آئی جس میں طالب علم اسٹیج پرپر فارم کر رہے ہیں۔اور وہ فوٹیج جس میں مجمع میں سے ایک ہاتھ بلند ہوتا ہے ، جس میں پستول ہے ، بے نظیر بھٹو نشانے پر اور نشانہ پکا۔ میرا دل بوجھل ہورہا ہے ، قارئین کا دل بوجھل کرنے کی معذرت چاہتی ہوں۔دل ہلکا کرنے کے لیے میں ان فوٹیج کی یہاں مثال نہیں دے سکتی جو دیکھنے والوں کے لیے سطحی و سستی تفریح کا سبب بن جاتی ہیں ۔
اب اس آخری فوٹیج کی مثال جو اس تحریر کا محرک بنی ۔ کارساز حادثہ ،جس میں ایک اسکوٹراور اس میں سوار باپ اور بیٹی جاتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں ،عقب سے ایک ویگو آتی ہے ،اسکوٹر ایک طرف ہونے لگتی ہے لیکن ویگو ، اس کی بے سدھ ڈرائیور اور بے قابو رفتار کے آگے اسکوٹر کی رفتار کیا معنی ، زندگی کو ہارنا ہی تھا۔ بس زندگی وہاں تک دیکھی جاسکتی ہے کہ موٹر سائیکل پر ایک باپ سفید شلوار قمیص میں ملبوس، سرپر ٹوپی ،معمولی سی جھکی کمر اور ساتھ سر پر اسکارف باندھے بیٹی بیٹھی ہے ۔۔۔محنت کش باپ اور اس کی ہونہار بیٹی ۔۔۔ویگو کی ڈرائیور امیرزادی اور مہا امیر کی بیوی ،پیسے کا نشہ اور اس پر شیشے کا نشہ ۔۔۔۔ان نشوں کے سامنے محنت کا پسینہ مٹی ہوگیا۔ وہاںتو ماتھے پر پشیمانی کے چند قطرے بھی نہیں، یہ نشہ ابھی بھی اترا نہیں ہے ،بلکہ سر چڑھ کر بول رہا ہے ، آپ بھی سنیں کہ کیا بول رہاہے !” ہم نے دیت میں باپ بیٹی کے لواحقین کو پانچ کروڑ روپے دیے ہیں ، وہ اگر ساری زندگی بھی ملازمت کرتی تو اتنے پیسے نہیں کما سکتی تھی ، اوریہ رقم اس رقم سے کہیں زیادہ ہے جتنی عدالت نے دیت کی مد میں مقرر کی ہے”۔
باپ بوڑھا تھا ، اب بیماریوں کا شکار ہی ہوتا ، بیٹی ملازمت کی تلاش میں پھرتی ، یہاں ملازمت ملنا کون سا آسان ہے ، اور اگر مل بھی جاتی تو ، کیا پتا شادی کے بعد اس کا میاں اس کی کمائی ماں باپ اور بہن بھائیوں پر خرچ کرنے کی اجازت دیتا یا نہیں ، پھر یہ حادثہ تھا ، شکر کریں کہ ایسے ارب پتی کی گاڑی سے ہوا تو اتنی رقم مل سکی ،وگرنہ چند لاکھ ہی ملتے ، برا نہ مانیں ، یہ زمینی حقائق ہیں ، تلخ ، کڑوے ،کسیلے ،زہر ناک زمینی حقائق، لیکن یہ ہیں۔ ایک اندوہناک جھٹکا تو لگا لیکن سوچو اس جھٹکے میں لواحقین کی زندگی سنور گئی ، ایسا میں نہیں سوچ رہی ،لیکن غریب ذہن ایسا نہ سوچ رہے ہوں ، یہ میں نہیں کہہ سکتی ، پس ماندہ ذہنوں میں ایسا کوئی خیال نہ آیا ہو ، یہ کہنا بھی مشکل ہے ، لیکن ایسا نتاشا کے شوہر نے ضرور سوچا کہ اتنی رقم کی بات کرو جتنی انہوں نے خواب میں بھی نہ دیکھی ہو۔ اپنی اہلیہ پر انہوں نے بس اتنا ہی غصہ کیا ہو یا نہ بھی کیا ہو کہ بیٹھے بٹھائے اتنے کروڑ کی پسوڑی ڈال دی ، باپ نے کہا ہوگا بیٹا آگے خیال رکھنا ، نوکروں کو سرزنش کردی ہوگی یا کڑی ہدایت کہ اگر آئندہ ایسی” غیر” حالت میں گھر سے نکلی تو تمہاری خیر نہیں۔ پیسہ بڑی حقیقت ہے تو سمجھ لیں کہ حقیقت بھی وہی جو پیسے والا بولے۔ جوش صاحب بھی کہہ گئے ہیں :
سوز ِ غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا
جا تجھے کش مکشِ دہر سے آزاد کیا
بقول نتاشا کے ارب پتی پتی ، انہوں نے غریب بیچاروں کو کش مکشِ دہر سے آزاد ہی کیا ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر