... loading ...
زریں اختر
پاکستان ٹیلی وژن سے راشد منہاس شہید پر ڈرامہ پیش کیا گیاتھا۔ جس رات یہ ڈرامہ نشر ہوا اس کے اگلے دن کچھ صحافی راشد منہاس کے گھر پہنچ گئے ، مقصد ڈرامے پر رد عمل معلوم کرنا تھا اوراس غم میں شرکت بھی کہ غیروں کے لیے بھی اس واقعے کی یادیں تازہ ہوگئیں تھیں۔ راشد منہاس کی والدہ نے بتایا کہ ڈرامے کا آخری منظرنہیں دیکھا گیا، انہوں نے اپنی آنکھوں پہ ہاتھ رکھ لیااور سب گھر والوں کی ہچکیاں بندھ گئی تھیں۔ ڈرامے کے بعد پڑوس سے لوگ آگئے کہ ان کی بھی ایسی ہی کیفیات تھیں جو آپ کو یہاں لائی ہیں۔ یہ ڈرامہ تو حقیقی واقعے پر مبنی تھا ، حساس لوگ فرضی ڈرامے پر بھی آبدیدہ ودل گرفتہ ہوجاتے ہیں۔
محدود سرکٹ ٹیلی وژن (سی سی ٹی وی) فوٹیج کے ذریعے جہاںایک طرف شریر شہری پکڑ میں آئے وہاںدوسری طرف روح فرسا مناظر کی حقیقی متحرک فلم نہ صرف تفتیشی اداروں بلکہ ذرائع ابلاغ اور اب سوشل میڈیا کے ہاتھوں وائرل ہونے لگیں۔لوگ اپنے پیاروں کی زندگی کے آخری مناظر دل پکڑ کر اس نا ممکن دعائی کلمات کے ساتھ دیکھتے ہونگے کہ کاش یہ بدل سکتا۔
ان ہی سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعے تفتیشی ادارہ قاتل تک پہنچاتھا۔بوری میں ایک لڑکی کی لاش ملی تھی ، سڑک پر سی سی ٹی وی کیمرا لگا تھا ، تفتیشی اہلکاروں نے دیکھا کہ رات گئے ایک برقع پوش عورت وہ بوری وہاں رکھ رہی ہے ۔ اگلے دن خبر لگی کہ فلاں علاقے سے لڑکی کی بوری بند لاش برآمد۔ دو تین روز بعد خبر آئی کہ قتل کے شبے میں ماں گرفتار ، اور پھر اس کے بعد خبر آگئی کہ ماں نے بیٹی کے قتل کا اعتراف کر لیا۔ تفتیشی اہلکار اس تک کیسے پہنچے ؟ جب وہ فوٹیج انہوں نے دوبارہ اور سہ بارہ دیکھی اور تھوڑی دیر تک دیکھی ، تو بعد میں یہ نظر آیا کہ وہ برقع پوش عورت دوبارہ بوری کے پاس آئی اور چیخی ۔تفتیشی اہلکاروں نے پالیا کہ دوبارہ پلٹ کر آنے والی اور بین کرنے والی عورت ماں کے علاوہ کون ہو سکتی ہے۔
قارئین کو جامعہ کراچی میں خود کش بمبار عورت کی وہ ویڈیو بھی یاد ہوگی جس میں تفتیش کاروں کی گفتگو بھی سنی جاسکتی ہے کہ”دیکھیں وہ سیاہ برقعے میں ، درخت کے پاس جاکر وہ مڑی ، اب ہاتھ میں ڈیوائس نظر آرہی ہے ‘ اور جیسے ہی وین اس نکڑ پر پہنچی وہ وین کے قریب آئی ، ایک زور دار دھماکہ ہواور لمحہ بھی نہیں لگاکہ وہ سفید وین سرخ شعلوں کی لپیٹ میں تھی ، ایک دوسری وڈیو میں جھلستے انسانوں کی چیخیں بھی سنائی دے رہی ہیں۔ آرمی اسکول پشاور میں اس دن الوداعی تقریب تھی ، اس الوداع پر کیا لکھوں؟ سی سی ٹی وی فوٹیج آئی جس میں طالب علم اسٹیج پرپر فارم کر رہے ہیں۔اور وہ فوٹیج جس میں مجمع میں سے ایک ہاتھ بلند ہوتا ہے ، جس میں پستول ہے ، بے نظیر بھٹو نشانے پر اور نشانہ پکا۔ میرا دل بوجھل ہورہا ہے ، قارئین کا دل بوجھل کرنے کی معذرت چاہتی ہوں۔دل ہلکا کرنے کے لیے میں ان فوٹیج کی یہاں مثال نہیں دے سکتی جو دیکھنے والوں کے لیے سطحی و سستی تفریح کا سبب بن جاتی ہیں ۔
اب اس آخری فوٹیج کی مثال جو اس تحریر کا محرک بنی ۔ کارساز حادثہ ،جس میں ایک اسکوٹراور اس میں سوار باپ اور بیٹی جاتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں ،عقب سے ایک ویگو آتی ہے ،اسکوٹر ایک طرف ہونے لگتی ہے لیکن ویگو ، اس کی بے سدھ ڈرائیور اور بے قابو رفتار کے آگے اسکوٹر کی رفتار کیا معنی ، زندگی کو ہارنا ہی تھا۔ بس زندگی وہاں تک دیکھی جاسکتی ہے کہ موٹر سائیکل پر ایک باپ سفید شلوار قمیص میں ملبوس، سرپر ٹوپی ،معمولی سی جھکی کمر اور ساتھ سر پر اسکارف باندھے بیٹی بیٹھی ہے ۔۔۔محنت کش باپ اور اس کی ہونہار بیٹی ۔۔۔ویگو کی ڈرائیور امیرزادی اور مہا امیر کی بیوی ،پیسے کا نشہ اور اس پر شیشے کا نشہ ۔۔۔۔ان نشوں کے سامنے محنت کا پسینہ مٹی ہوگیا۔ وہاںتو ماتھے پر پشیمانی کے چند قطرے بھی نہیں، یہ نشہ ابھی بھی اترا نہیں ہے ،بلکہ سر چڑھ کر بول رہا ہے ، آپ بھی سنیں کہ کیا بول رہاہے !” ہم نے دیت میں باپ بیٹی کے لواحقین کو پانچ کروڑ روپے دیے ہیں ، وہ اگر ساری زندگی بھی ملازمت کرتی تو اتنے پیسے نہیں کما سکتی تھی ، اوریہ رقم اس رقم سے کہیں زیادہ ہے جتنی عدالت نے دیت کی مد میں مقرر کی ہے”۔
باپ بوڑھا تھا ، اب بیماریوں کا شکار ہی ہوتا ، بیٹی ملازمت کی تلاش میں پھرتی ، یہاں ملازمت ملنا کون سا آسان ہے ، اور اگر مل بھی جاتی تو ، کیا پتا شادی کے بعد اس کا میاں اس کی کمائی ماں باپ اور بہن بھائیوں پر خرچ کرنے کی اجازت دیتا یا نہیں ، پھر یہ حادثہ تھا ، شکر کریں کہ ایسے ارب پتی کی گاڑی سے ہوا تو اتنی رقم مل سکی ،وگرنہ چند لاکھ ہی ملتے ، برا نہ مانیں ، یہ زمینی حقائق ہیں ، تلخ ، کڑوے ،کسیلے ،زہر ناک زمینی حقائق، لیکن یہ ہیں۔ ایک اندوہناک جھٹکا تو لگا لیکن سوچو اس جھٹکے میں لواحقین کی زندگی سنور گئی ، ایسا میں نہیں سوچ رہی ،لیکن غریب ذہن ایسا نہ سوچ رہے ہوں ، یہ میں نہیں کہہ سکتی ، پس ماندہ ذہنوں میں ایسا کوئی خیال نہ آیا ہو ، یہ کہنا بھی مشکل ہے ، لیکن ایسا نتاشا کے شوہر نے ضرور سوچا کہ اتنی رقم کی بات کرو جتنی انہوں نے خواب میں بھی نہ دیکھی ہو۔ اپنی اہلیہ پر انہوں نے بس اتنا ہی غصہ کیا ہو یا نہ بھی کیا ہو کہ بیٹھے بٹھائے اتنے کروڑ کی پسوڑی ڈال دی ، باپ نے کہا ہوگا بیٹا آگے خیال رکھنا ، نوکروں کو سرزنش کردی ہوگی یا کڑی ہدایت کہ اگر آئندہ ایسی” غیر” حالت میں گھر سے نکلی تو تمہاری خیر نہیں۔ پیسہ بڑی حقیقت ہے تو سمجھ لیں کہ حقیقت بھی وہی جو پیسے والا بولے۔ جوش صاحب بھی کہہ گئے ہیں :
سوز ِ غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا
جا تجھے کش مکشِ دہر سے آزاد کیا
بقول نتاشا کے ارب پتی پتی ، انہوں نے غریب بیچاروں کو کش مکشِ دہر سے آزاد ہی کیا ہے۔