وجود

... loading ...

وجود

آبجیکشن می لارڈ:اب کلام نرک و نازک بے اثر پاتے ہیں ہم

جمعرات 26 ستمبر 2024 آبجیکشن می لارڈ:اب کلام نرک و نازک بے اثر پاتے ہیں ہم

ڈاکٹر سلیم خان

عدالت عظمیٰ نے بلڈوزر ناانصافی میں دلچسپی لی تو اس بابت حقائق منظرِ عام پر آنے لگے ۔ یہ پتہ چلا کہ وہ تو صرف ڈبل انجن کمل چھاپ سرکار وں میں ہی چلتے ہیں ۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے گھر وں کو اجاڑنے کی ضرورت انہیں لوگوں کو کیوں پیش آتی ہے ؟ دوسروں کو کیوں نہیں ؟ اس کاایک جواب تو یہ ہوسکتا ہے کہ نفرت کے بغیر ان کا گزارہ نہیں ہوتا اور خالی زمینوں کو سرمایہ داروں کے حوالے کرکے اپنے وارے نیارے کرنے میں یہ لوگ نہایت بے حیا ہیں ۔ اسباب سے قطع نظریہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پچھلے سات سالوں میں مرکزی حکومت کی پشت پناہی سے ظلم و استبداد کا یہ ننگا ناچ چلتا رہا اور عدلیہ گہری نیند میں سوتا رہا ۔ دیر آید درست آید کی ماننداب بیدار ہوا تو اتر پردیش کے بابا ، مدھیہ پردیش کے ماما اور اتراکھنڈ کے چاچا متفکر ہوگئے ۔ یوگی حکومت نے لکھنؤ کے اکبر نگر میں 1,169 مکانات اور 101 تجارتی اداروں کو کوکریل ریور فرنٹ یعنی تفریح گاہ کے نام پر اجاڑ دیا گیا اور یہ جھوٹ گھڑا گیا کہ وہاں لینڈ مافیا کے ساتھ ساتھ روہنگیا اور بنگلہ دیشی دراندازوں کی غیر قانونی تعمیرات تھیں حالانکہ ان میں ایک بڑی تعداد مقامی ہندووں کی بھی تھی ۔ جون 2024 کو مدھیہ پردیش میں مسلمانوں کے 11گھروں کو ریفریجریٹرز میں گائے کے گوشت کا بہانہ بناکر توڑدیا جبکہ اب تو ترپتی کے لڈو میں بھی گائے کی چربی اور مچھلی کا تیل پایا گیا ہے تو کیا وہاں بھی بلڈوزر چلے گا؟
ایک غیر سرکاری تنظیم ہاؤسنگ اینڈ لینڈ رائٹس نیٹ ورک کی تحقیق کے مطابق اس سرکاری غنڈہ گردی میں جملہ 7,38,438سے زیادہ افراد کو جبری طور پر بے دخل کیا گیا ہے ۔ 2017سے 2023 تک 16لاکھ08ہزار سے زیادہ لوگ بلڈوزر کارروائی سے متاثر ہوئے ۔ 2019 تک 1,07,625گھروں کو مسمار کیا گیا تھا مگر 2022 میں یہ تعداد دوگنا ہوکر 2,22,686 تک پہنچی 2023 میں تو 5,15,752 تک پہنچ گئی ۔ گزشتہ دو سالوں میں، 59 فیصد بے دخلیاں کچی آبادیوں میں تجاوزات ہٹانے یا شہر کی خوبصورتی کی آڑ میں ہوئی ہیں۔ سپریم کورٹ کے علاوہ الہ باد ہائی کورٹ میں اس طرح کا ایک معاملہ زیر سماعت ہے جس میں اعظم گڑھ کے سنیل کمار نے عدالت میں عرضی داخل کی کہ ، زمین تنازع کے کیس میں اعظم گڑھ کے ایڈیشنل کلکٹر نے اس کاموقف سنے بغیر 22 جولائی کو گھرگرانے کا حکم جاری کردیا۔ اس کے بعد انتظامیہ نے ان کے گھرکوبلڈوزرسے گرا بھی دیا۔ سنیل کا الزام ہے کے بغیرسماعت کا موقع دیئے جلد بازی میں ان کے مکان پربلڈوزرچلا دیا گیا۔اس تنازع میں الہ آباد ہائی کورٹ نے اترپردیش میں بلڈوزرکارروائی پرسوال اٹھایا۔
جسٹس پرکاش پڑیا کی سنگل بینچ نے اس معاملے میں سماعت کے دوران سخت ناراضگی ظاہرکرتے ہوئے اترپردیش حکومت سے پوچھا کہ ایسی کون سی مجبوری تھی کہ جس کے سبب قانونی طریقہ کارپرعمل کئے بغیرعرضی گزارکے گھرکومنہدم کردیا گیا؟ عدلیہ کی بنیادی ذمہ داری ناانصافی کی تلافی کرکے آئندہ اس کی روک تھام کے لیے ضروری اقدامات کرنا ہوتا ہے مگر اس کے بجائے جج صاحبان پروچن (پندو نصیحت) پر اکتفا کرکے اپنے آپ کو مطمئن کرلیتے ہیں۔ اس طرح کا ایک واقعہ 10نومبر 2023 کو بھی پیش آیا تھا۔ اس وقت الہ آباد ہائی کورٹ نے پریاگ راج کے جھونسی تھانہ علاقے میں رہنے والے ایک وکیل کے گھر کو منہدم کرنے پر سماعت کے دوران پریاگ راج ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی ڈی اے ) کو پھٹکار لگائی تھی ۔ ایڈوکیٹ ابھیشیک یادو کی شکایت پر دورانِ سماعت ہائی کورٹ نے سخت تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ بلڈوزر کی کارروائی من مانی کے لیے نہیں ہے ۔پریاگ راج ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی ڈی اے ) کے وائس چیئرمین سے جواب طلب کرنے والے الہ آباد ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ گھر کی ایک اینٹ لگانے میں کئی سال لگ جاتے ہیں اور حکام اسے توڑنے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرتے ۔ اس معاملے میں اگر عدالت نے بی ڈی اے اتھارٹی یا اس کے آقاوں کو کوئی سزا دی ہوتی تو ممکن ہے اس طرح کی دھاندلی پر لگام لگتی کیونکہ یوگی جیسے بے حس و سفاک انتظامیہ سے متعلق خواجہ منظر حسن منظر کا کہنا ہے
اب کلام نرم و نازک بے اثر پاتے ہیں ہم
پھول کی پتی نہ ہیرے کا جگر پاتے ہیں ہم
وطن عزیز میں انتظامیہ فی الحال اس قدر خود سر ہوگیا ہے کہ اسے عدالتی احکامات کی ذرہ برابر پروا نہیں ہے ۔ اس کی تازہ مثال گیان واپی مسجد کے حوالے سے الہ باد ہائی کورٹ کا فیصلہ اور اس کے فوراً بعد وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ وان کے ہمنواوں کے احمقانہ تبصرے ہیں ۔ وارانسی کی سیول عدالت میں گیانواپی محلے کے اندر واقع جامع مسجد کے حوالے سے ہندو فریق نے عرضی داخل کرکے یہ مطالبہ کیا کہ ویاس جی تہہ خانہ کی چھت پر مسلموں کو نماز پڑھنے سے روکا جائے ۔ عدالت نے جب ہندو فریق کی عرضی خارج کردی تو اس نے مایوس ہوکر اس فیصلہ کے خلاف ضلع عدالت میں جانے کا ارادہ ظاہر کیا ۔اس سے قبل عدالت نے مسجد کے تہہ خانے میں پوجا کرنے کی اجازت دے کر جو فتنہ کھڑا کیا ہے اس کا فائدہ اٹھاکر ہندو فریق نے کمزور چھت کے کسی بھی وقت ٹوٹنے پھوٹنے کو بنیاد بناکر عدالت میں دلیل دی تھی کہ اگر بڑی تعداد میں مسلمان ویاس جی کے تہہ خانہ کی چھت پر نماز ادا کرتے رہیں گے تو اس بات کا قوی امکان رہے گا کہ چھت منہدم ہو جائے ، یہ جان لیوا بھی ہو سکتا ہے لہٰذا مسلم طبقہ کے وہاں نماز پڑھنے پر روک لگا دی جائے ۔۔ وہ لوگ بھول گئے کہ اس مسجد کو مودی انتظامیہ نے رشوت لے کر تعمیر نہیں کیاجو چند ماہ میں ٹوٹنے پھوٹنے لگے ۔ سیول جج (سینئر ڈویژن) ہتیش اگروال کی عدالت نے اس دلیل کو مسترد کرکے نماز کی ادائیگی پر پابندی لگانے سے انکار کر دیا۔
عدالت کے ان احکامات والے دن ہی اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے پنڈت دین دیال اپادھیائے گورکھپور یونیورسٹی میں ‘ہم آہنگی پر مبنی سماج کی تعمیر میں ناتھ پنتھ کی شراکت’ کے موضوع پر ایک بین الاقوامی سیمینار کا افتتاح کرتے ہوئے فرمایا، ”یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ کچھ لوگ گیان واپی کو مسجد کہتے ہیں جبکہ بھگوان وشواناتھ خود ایک اوتار ہیں”۔انہوں نے اسے یعنی مسجد کی عمارت کو “بھگوان وشوناتھ کا اوتار قرار دے دیا۔ اسے کہتے ہیں ‘جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے ‘۔ یوگی آدتیہ ناتھ کے اس غیر ذمہ دارانہ بیان کی مذمت کرتے ہوئے ایس پی کے ترجمان عباس حیدر کو کہنا پڑا کہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے ۔ بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ نے آئین پر حلف اٹھایا اس کے باوجود وہ عدالت کا احترام نہیں کرتے ۔ حیدر کے مطابق ، عوام نے بی جے پی کو جو مینڈیٹ دیا ہے ، اس کو نظر انداز کرکے انہوں نے عوام سے جڑے مسائل پر بات نہیں کی بلکہ اپنے ذاتی سیاسی مفادات کے لیے وہ سماج کو تقسیم کر رہے ہیں”۔
بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ کی مصداق اترپردیش بی جے پی کے ترجمان منیش شکلا نے تو آگے بڑھ کر یہاں تک کہہ دیا کہ ، ”تاریخی، آثار قدیمہ اور روحانی شواہد واضح طور پر بتاتے ہیں کہ گیانواپی ایک مندر ہے ”۔ اس بابت ایودھیا میں ہنومان گڑھی مندر کے مہنت راجو داس اور چار قدم آگے نکل گئے ۔ انہوں نے کہہ دیا کہ ، ”یہ صرف بدقسمت لوگ ہیں جبکہ گیان واپی خود وشوناتھ کا مندر ہیں۔ اس مہنت کے مطابق ، ”ہم مسلسل کہتے رہے ہیں کہ یہ مندر ہے ، اسے صرف بے وقوف ہی مسجد کہتے ہیں”۔ یعنی مہنت راجو داس کی نظر میں عدالتیں احمق ہیں۔ کیا یہ عدالت کی توہین نہیں ہے ۔عدالت میں زیر سماعت معاملے پرجولوگ ایسی بدزبانی کرتے ہیں ان سے بھلا بلڈوزر سے متعلق کیا توقع کی جائے ؟ سپریم کورٹ نے تو حال ہی میں بلڈوزر انصاف کے حوالے سے سخت تبصرے کیے مگر اپنے بلڈوزر استعمال کا دفاع کرتے ہوئے یوگی نے کہہ دیا بلڈوزر دل اور دماغ سے چلایا جاتا ہے حالانکہ جس کے پاس قلب سلیم اور ٹھیک ٹھاک دماغ ہو وہ بلڈوزر کے بجائے اپنی کارکردگی عوام کا اعتماد اور ووٹ حاصل کرتا ہے اور جو اس میں ناکام ہوجائے اسے بلڈوز کا سہارا لینا پڑتا ہے ۔ ویسے عدالت اگر چاہے تو حکمرانوں کی عقل ٹھکانے لگا سکتی ہے مگر وہاں بھی خوف اور لالچ کے بلڈوزر تلے انصاف کو روند دیا جاتا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کے مثبت تبصروں کے بعد سب سے بڑا یہ سوال جنم لیتا ہے کہ کیا سپریم کورٹ کے آخری فیصلے میں متاثرین کے تباہ آشیانوں کو پھر سے تعمیر کرکے دینے حکم ہوگا یا صرف وعظ و نصیحت کرکے اپنی تعریف کروائی جائے گی ۔ان بے گھر ہونے والے متاثرین کو جب تک دوبارہ چھت مہیا نہ کی جائے اور خاطیوں کو قرار واقعی سزا نہ ملے اس وقت باتیں تو ہوں گی انصاف نہیں ہوگا اور نہ ہی بلڈوزر چلانے والوں پر لگام لگے گی۔ اس دورِ پر فتن میں عوام کے ووٹ سے منتخب ہوکر سرمایہ داروں کے مفادکی خاطر غریبوں کا گھر اجاڑنے والے حکمرانوں سے جب لوگ سوال کرتے ہیں تو ان کو میکش اکبر آبادی کا یہ شعر سننے کو ملتا ہے
میں نے پوچھا غیر کے گھر آپ کیا کرتے رہے
ہنس کے فرمایا تمہارا راستا دیکھا کئے


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر