... loading ...
جاوید محمود
اسرائیل کا جنگی جنون اس قدر بے لگام ہو چکا ہے کہ اس نے غزہ کو کھنڈرات میں بدلنے کے بعد خان یونس میں تباہی مچائی۔ اب اس نے اپنا رخ لبنان کی جانب کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام نے اعلان کیا ہے کہ غزہ میں جنگ کے دوران تباہ ہونے والے گھروں کی تعمیر نو کا کام 2040تک جاری رہ سکتا ہے۔ پوری پٹی میں تعمیر نو کی کل لاگت 40سے 50 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ اقوام متحدہ نے اسرائیل کو متنبہ کیا ہے کہ وہ لبنان کو غزہ نہیں بننے دیں گے۔ بظاہر اسرائیل کے اقدامات سے لگتا ہے کہ وہ پورے خطے کو جنگ کی آگ میں جھونک دینا چاہتا ہے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ اسرائیل مسجد اقصیٰ کے صحنوں میں یہودیوں کے گائیڈ ٹورز کے لیے فنڈ مختص کرنے پر راضی ہوا ہے۔ اسرائیلی براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے مطابق وزارت کی طرف سے مختص رقم دو ملین شیکل اسرائیلی کرنسی ہے جو تقریبا 550ہزار امریکی ڈالر کے برابر ہے ۔ان گائیڈ ٹورز کو فنڈ دینے کا اعلان بین گوئیر کے متنازع بیان کے ایک دن بعد سامنے آیا جس میں انہوں نے یروشلم کے قانونی اور تاریخی اسٹیٹس پرسوال اٹھاتے ہوئے ماؤنٹ ٹیمپل یعنی ہیکل سلیمانی کے مقدس مقام پر یہودی عبادت گاہ کی تعمیر کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کیا ۔بین گوئر کے بیانات کے بعد اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کا دفتر فوری طور پر یہ وضاحت دینے پر مجبور ہوا کہ ٹیمپل ماؤنٹ کے اسٹیٹس کو میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ا سٹیٹس کو سے مراد وہ معاہدے ہیں جس کے تحت یہودی مغربی دیوار تک مخصوص صورتوں میں جا سکتے ہیں لیکن وہاں عبادت نہیں کر سکتے۔
یروشلم میں اسلامی اوقاف کے محکمے کے ایک اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی صورت میں ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ اسرائیل بن گوئر اور الیاہو جیسے اپنے انتہا پسند وزراء کے ذریعے خطے میں کشیدگی کو بھڑکانا چاہتا ہے ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اسرائیلی حکومت جنگی حالات اور ہنگامی قوانین سے فائدہ اٹھا کر اسلحے کے زور پر اپنا کنٹرول مسلط کر رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسجد اقصیٰ کے صحنوں میں ہونے والی خلاف ورزیاں مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کر سکتی ہیں جو ایک مذہبی جنگ کو بھڑکانے کا سبب بن سکتی ہیں اور ایسی جنگ کے نتائج کا اندازہ لگانا مشکل ہوگا۔ انہوں نے اس بات کا بھی شکوہ کیا کہ اسلامی دنیا اور عرب قوم مسجد اقصیٰ کے بارے میں اپنے فرائض سے غافل ہیں اور اسرائیل کی اجارہ داری کو روکنے کے لیے سیاسی طور پر کچھ نہیں کر رہے۔ اسلامی اوقاف کے محکمے کے اہلکار کا مزید کہنا تھا کہ ان کا محکمہ مسجد اقصیٰ میں اپنے کردار کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے موقف پر سختی سے قائم ہے اور اسرائیلی وزراء کے حالیہ غیر ذمہ دارانہ بیانات کے لیے اسرائیلی حکومت کو مکمل طور پر ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں تھا جب بین گوئر نے یہودیوں کو ٹیمپل ماؤنٹ میں عبادت کرنے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس مہینے کے شروع میں دو ہزار سے زیادہ یہودی اسرائیلی پرچم لہراتے ان کے ساتھ ٹیمپل ماؤنٹ کے صحن میں داخل ہوئے ،جس پر خاصا رد عمل سامنے آیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے اعلان کیا تھا کہ عبادت گاہ کے صحنوں کے اندر یہودیوں کو عبادت کرنے کی اجازت دی جائے گی جو ان تاریخی معاہدوں میں ایک واضح تبدیلی ہے جو غیر مسلموں کو مسجد اقصیٰ کے صحن میں عبادت کرنے سے روکتے ہیں اور معاہدوں کے لحاظ سے صرف مخصوص اوقات میں ہی یہودیوں کو اندر جانے کی اجازت ہے۔ حالیہ چند مہینوں اور سالوں میں ایسی بہت سی ویڈیو وائرل ہوئی ہیں جن میں یہودیوں کو دستخط شدہ معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسجد اقصیٰ کے صحنوں میں عبادت کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ لیکن اسرائیلی پولیس کا کہنا ہے کہ وہ اسٹیٹس کو کو برقرار رکھے ہوئے ہیں اور کسی بھی غیر قانونی اقدام کو ہونے سے روک رہی ہے۔ یاد رہے یروشلم تینوں مذاہب اسلام یہودیت اور مسیحت کے پیروکاروں کے لیے مقدس مقام ہے۔ مسجد اقصیٰ بیت المقدس کے پرانے شہر کے وسط میں ایک پہاڑی پر واقع ہے جسے مسلمان الحرم الشریف کے نام سے جانتے ہیں ۔الحرم الشریف کمپاؤنڈ میں مسلمانوں کے دو مقدس مقامات موجود ہیں جن میں ڈوم آف دی راک اور اقصیٰ مسجد شامل ہیں، جسے آٹھویں صدی میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس پورے کمپاؤنڈ کو الاقصیٰ مسجد کہا جاتا ہے۔ تقریبا 35ایکڑ رقبے پر محیط اس مقام کو یہودی ٹیمپل ماؤنٹ کہتے ہیں جبکہ ڈوم آف دی راک کو بھی یہودی مذہب میں مقدس ترین مقام کا درجہ دیا گیا ہے۔
مسلمانوں کا ماننا ہے کہ یہاں کئی پیغمبروں نے عبادت کی جن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت داؤد علیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام، حضرت الیاس علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام شامل تھے۔ مسلمانوں کا اعتقاد ہے کہ پیغمبر اسلام کو سن 620 میں ایک ہی رات کے دوران مکہ سے الاقصیٰ مسجد لایا گیا جہاں سے انہوں نے معراج کا سفر کیا۔ اس لیے اسے مسلمانوں کے لیے بہت مقدس سمجھا جاتا ہے۔ دوسری جانب یہودیوں کا ماننا ہے کہ شاہ سلیمان نے 3000 سال قبل پہلی یہودی عبادت گاہ اس مقام پر تعمیر کی تھی۔ ان کے مطابق اس مقام پر تعمیر ہونے والی دوسری یہودی عبادت گاہ کو رومیوں نے 70 قبل از مسیح میں تباہ کر دیا تھا۔ بین گوئر مسجد اقصیٰ یا ٹیمپل ماؤنٹ کے اسٹیٹس کو کو مکمل طور پر تبدیل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے وہ آگ پر تیل ڈال رہے ہیں۔ بین گویر کے اقدامات کا فوری اور انتہائی خطرناک رد عمل آنے کا امکان ہے اور اس پر فلسطینیوں اور بین الاقوامی برادری کی جانب سے بھی سخت رد عمل آئے گا۔ مقامی اور بین الاقوامی برادری میں اس حوالے سے اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ الحرم الشریف یا مسجد اقصیٰ کا اسٹیٹس کو کو برقرار رہنا چاہیے اور یہ کہ اس میں کوئی بھی تبدیلی کسی بڑی کشیدی کا سبب بن سکتی ہے ۔بین گوئر کے پاس پولیس کی پالیسی کو تبدیل کرنے کی صلاحیت موجود ہے ۔اسرائیل میں پولیس اب تک ایک آزاد ادارہ نہیں ہے۔ اور بین گویا ذاتی طور پر پولیس کی پالیسی کو کنٹرول کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اسرائیل میں سپریم ریسینٹ جو ایک سرکاری مذہبی ادارہ ہے نے یہودیوں کے وہاں آنے پر پابندی عائد کر دی ہے کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے ظہور اور گائے کو ذبح کیے جانے سے قبل اس مقام پر ان کا داخلہ ان جگہ کی بے حرمتی ہے۔ ربی ملر کے مطابق اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ فتوی اس جگہ کی مسلمانوں یا فلسطینیوں کے نزدیک اہمیت کے باعث دیا گیا ہے بلکہ اس کی وجہ مذہبی ہے جو یہودیوں کو ایک خاص وقت پر یہاں داخل ہونے اس پر کنٹرول حاصل کرنے اور یہاں عبادت کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ تاہم ملر کا کہنا ہے کہ سخت گیر یہودیوں اور مذہبی انتہا پسندوں کے مابین ٹیمپل ماؤنٹ پر یہودیوں کے عبادت کے معاملے پر تنازع ہے اور اس کی وجوہات سیاسی ہیں کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ اس علاقے میں یہودیوں کی موجودگی اور مسلمانوں کے مقدس مقامات کی تباہی بڑے پیمانے پر خونریزی کو ہوا دے سکتی ہے جو عرب اور اسلامی ممالک کو مشتعل کر سکتا ہے۔ اسرائیلی وزیر دفاع نے ایکس پر لکھا کہ ٹیمپل ماؤنٹ کے ا سٹیٹس کو تبدیل کرنا ایک خطرناک غیر ضروری اور غیر ذمہ دارانہ عمل ہے اور بین گوئر کے بیانات اسرائیلی ریاست کی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ اپوزیشن لیڈرلاپیٹ نے کہا کہ بین گوئر کے بار بار متضاد بیانات دینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ نتن یاہو اپنی حکومت کا کنٹرول کھو چکے ہیں۔ فلسطینی صدارتی ترجمان نبیل ردو دینا ئے بین گویر کے بیانات کو انتہائی خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ اقصیٰ اور مقدس مقامات ایک سرخ لکیر ہیں ہم انہیں کبھی بھی نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دیں گے جبکہ اردن کی ہاشمی بادشاہت نے مسجد اقصیٰ کے اسٹیٹس کو میں کسی بھی تبدیلی کی مذمت کرتے ہوئے اس حوالے سے واضح بین الاقوامی موقف کا مطالبہ کیا ہے۔ مصری وزارت خارجہ کے ایک بیان کے مطابق مصر نے ان بیانات کی مذمت کی ہے اور انہیں غیر ذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے اسے جاری اسرائیلی خلاف ورزیوں کو خطرناک قرار دیا ہے۔ سعودی وزارت خارجہ نے بن گویر کے بیانات کی مذمت کرتے ہوئے مملکت کی جانب سے شدت پسندانہ اور اشتعال انگیز بیانات کو مسترد کیا ہے اور مسجد اقصی میں قانونی اور تاریخی ا سٹیٹس کا احترام کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے جبکہ اقوام متحدہ نے بین گوئیر کے بیانات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پہلے سے کشیدہ صورتحال کو مزید بگاڑنے کا خطرہ مول لیا ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ اسرائیلیوں کے مابین اختلاف رائے کی بنیاد نتن یاہو کی کابینہ کے چند انتہا پسند وزرا ہیں ۔اسرائیل نے جنگی جنون میں بے لگامی کی یہی پالیسی اپنائی رکھی اور مسلمانوں کا ناحق خون بہایا گیا اور ان کے جذبات کو مجروح کیا گیا تو وہ وقت دور نہیں کہ پورا خطہ جنگ کی لپیٹ میں ہوگا۔