وجود

... loading ...

وجود

سپریم کورٹ نے بلڈوزر کومسمار کردیا!

منگل 24 ستمبر 2024 سپریم کورٹ نے بلڈوزر کومسمار کردیا!

معصوم مرادآبادی

غیرقانونی، غیردستوری اور غیراخلاقی بلڈوزر کارروائی پرگزشتہ منگل کو سپریم کورٹ نے اگرچہ عبوری پابندی لگائی ہے ، لیکن اس سے ان تمام لوگوں نے راحت کی سانس لی ہے جو بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں آخری درجے کے ظلم وستم کا شکار ہیں۔ تمام قانونی ضابطوں اور اخلاقیات کو پس پشت ڈال کر جس طرح مسلمانوں کی جائیدادوں پر بلڈوزر چلایا جارہا ہے ، وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ سپریم کورٹ نے واضح الفاظ میں کہا کہ”ملک میں ناجائز انہدام کا کوئی بھی معاملہ آئینی اخلاقیات کے خلاف تصور کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں آئندہ سماعت کی تاریخ یکم اکتوبر طے کی گئی ہے اور اس وقت تک عدالت کی اجازت کے بغیر کوئی توڑ پھوڑ نہیں کی جائے گی، البتہ سپریم کورٹ کا یہ حکم سڑک اور فٹ پاتھ پر بنے ہوئے ناجائز ڈھانچوں پر نافذ نہیں ہوگا۔عدالت نے کہا ہے کہ وہ اس سلسلے میں تمام فریقین کو سننے کے بعد گائڈ لائن جاری کرے گی۔
سماعت کے دوران سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت کی توجہ اصل مسئلہ سے ہٹانے کی کوشش کرتے ہوئیکہا کہیہ بیانیہ قایم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ایک خاص برادری کے گھروں کو منہدم کیا جارہا ہے ۔ اس پر عدالتی بنچ نے کہا کہآپ بے فکر رہیں، بیرونی شور ہمیں متاثر نہیں کرتا۔ کسی کا مکان صرف اس لیے کیسے منہدم کیا جاسکتا ہے کہ وہ ایک ملزم ہے ۔ عدالت کی یہ رولنگ جمعیة العلماء اور بعض دیگر فریقوں کی عرضیوں پر سماعت کے دوران سامنے آئی ہے ۔ظاہر ہے عدالت عظمیٰ کے اس قدم سے ان لوگوں کو راحت ملی ہے جوگزشتہ ایک عرصے سے بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں بلڈوزردہشت گردی کا شکار ہیں اور جہاں بغیر کسی قانونی کارروائی کے ان کی زندگی بھر کی محنت کو ملبے میں تبدیل کیا جارہا ہے ۔ حالیہ عرصے میں ایسے کئی المناک واقعات سامنے آئے ہیں جہاں کسی ملزم کے گھر پرصرف اسلیے بلڈوزر چلاکر مسمار کردیا گیا ہے کہ وہ مسلمان ہے ۔ گزشتہ ہفتہ آسام کی بی جے پی سرکار میں بلڈوزر ایسی ہی ظالمانہ کارروائی کی مخالفت کرنے والوں پر پولیس نے اندھادھند فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں دوبے گناہ مسلم نوجوان ہلاک ہوگئے ۔
یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ اس ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی ہے اورکسی کو بھی اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کسی کو سزادے سکے ۔ مگر بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں یہ چلن عام ہوگیا کہ کوئی مسلمان اگر کسی معاملے میں ملزم قراردیا جاتا ہے تو اسسب سے پہلے اس کا مکان منہدم کردیا جاتا ہے ۔ اس سلسلہ کی سب سے بڑی واردات پچھلے دنوں مدھیہ پردیش کے چھترپور میں ہوئی تھی،جہاں توہین رسالت کے خلاف احتجاج کی قیادت کرنے والے مقامی لیڈر حاجی شہزاد علی کا دس کروڑ روپے کی لاگت کا مکان آن واحد میں بلڈوزر چلاکر مسمار کردیا گیا تھا۔ حاجی شہزاد علی کو پہلے مقامی تھانے پر پتھراؤ کا ملزم قراردیا گیا اور اس کے بعد ان کے عالیشان مکان پر بلڈوزر چلاکراسے تہس نہس کردیا گیا۔ اتنا ہی نہیں ان کے گھر میں کھڑی ہوئی قیمتی کاریں بھی بلڈوزر سے روند دی گئیں۔اسی دوران اترپردیش کے ایودھیا میں آبروریزی کا الزام لگا کر وہاں کے ایک تاجر معید خاں کا شاپنگ کمپلکس منہدم کردیا گیا تھا، جس میں تقریباً پچاس دکانیں اور ایک بینک تھا۔یہ دونوں کارروائیاں بغیر کسی قانونی عمل کے انجام دی گئی تھیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جونہی کوئی مسلمان کسی معاملے میں قانون کی گرفت میں آتا ہے تو سب سے پہلے اس کے مکان یا کاروباری ادارے کو ناجائز تعمیر قرار دے کر اس پر بلڈوزر چلادیا جاتا ہے ۔ جو عمارت برسوں سے قانونی تھی وہ اچانک ناجائز تعمیرات کے زمرے میں کیسے آجاتی ہے ، یہ بات کسی کی سمجھ میں نہیں آتی۔ اس سے یہ اندازہ ہوا کہ بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں مسلمانوں کے ساتھ جان بوجھ کر سوتیلا سلوک کیا جارہا ہے ۔اس سے قبل اسی مدھیہ پردیش میں غریب مسلمانوں کی ایک پوری بستی کو یہ کہہ کر منہدم کردیا گیا تھا کہ وہاں گاؤ کشی ہورہی تھی۔ قانون کی نگاہ میں اگر کوئی ملزم ہے تو اس کی مذہبی شناخت کی بناء پر اسے بخشا نہیں جاناچاہئے ۔ کیونکہ قانون کی نگاہ میں سب برابر ہیں اور اس اعتبار سے ہرایک کے ساتھ سلوک کیا جاناچاہئے ۔اس کے لیے قانون میں طریقہ کار موجود ہے ۔سرکاری مشنری کا بنیادی کام اس طریقہ کار کی پیروی کرتے ہوئے کسی بھی ملزم کو وافر ثبوتوں اور شہادتوں کے ساتھ عدالت کے روبرو پیش کرنا ہوتا ہے ۔ یہ عدالت کاکام ہے کہ وہ دستیاب شواہد کی روشنی میں کسی بھی ملزم کی قسمت کا فیصلہ صادر کرے ۔ لیکن یہ کام اگر حکومت کی مشنری اپنے ہاتھ میں لے کر لوگوں کو سزائیں دینے لگے تو پھر ملک کے اندر عدالتوں اور قانون کی ضرورت ہی کہاں باقی رہتی ہے ۔
بلڈوزر کارروائی کے دوران سب سے المناک واقعہ گزشتہ دنوں آسام کے کامروپ ضلع میں پیش آیا جہاں اپنے گھروں کو توڑنے کے خلاف احتجاج کرنے والے مسلمانوں پر پولیس نے بے خطر گولیاں چلا دیں، جس کے نتیجے میں دومسلم نوجوان موقع پر ہی ہلاک ہوگئے ۔ بعدازاں جب یوڈی ایف کے ممبراسمبلی مقامی مسلمانوں کا حال جاننے علاقہ میں گئے تو پولیس نے ان کے ساتھ دھکا مکی اور بدتمیزی کی۔ مزید افسوس اس بات کا ہے کہ صوبائی وزیراعلیٰ نے خاطی پولیس والوں کی سرزنش کرنے اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے الٹے غریب متاثرتن کو ہی سنگین نتائج کی دھمکی دی۔یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ آسام کے وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا سرما آئے دن مسلمانوں کے خلاف اپنی متعصبانہ ذہنیت کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔ انھیں آسام میں مسلمانوں کی آبادی سے خدا واسطے کا بیر ہے اور وہ ان کی تعداد کم کرنے کے فارمولوں پر غور کرتے رہتے ہیں۔ان کی ریاست میں بھی انصاف قایم کرنے کاکام بلڈوزر کے حوالے کردیا گیا ہے ۔
بلڈوزر کے ذریعہ انصاف قائم کرنے کا سلسلہ سب سے پہلے اترپردیش میں شروع ہوا تھا اور وہاں کے وزیراعلیٰ کو ‘بلڈوزربا با’ کہا جانے لگا تھا۔ اس کے بعد مدھیہ پردیش کے سابق وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے کمان سنبھالی اور انھیں ‘بلڈوزر ماما’کہا جانے لگا۔ اس کے بعد بی جے پی کے اقتدار والی دیگر ریاستوں میں بلڈوزر کو ایک پالیسی کے طورپر اپنا لیا گیااور اب بلڈوزر کارروائیاں روز کا معمول بن گئی ہیں، جن کی وجہ سے مسلمانوں میں دہشت پیدا ہوگئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم تنظیموں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے اس معاملے میں سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور انصاف کی پکار لگائی۔سپریم کورٹ نے اس معاملے میں واضح موقف اختیار کیا اوراس پر عبوری پابندی عائد کرتے ہوئے کہا کہ بلڈوزر جسٹس کی تعریف وتوصیف نہیں ہونی چاہئے ۔ اگر ناجائز انہدام کا ایک بھی معاملہ ہے تو یہ دستور ی اقدار کی خلاف ورزی ہے ۔ اس معاملے میں عدالت نے فی الحال دوہفتہ تک پابندی عائد کی ہے ۔ وہ اگلی سماعت کے دوران حتمی فیصلہ صادر کرے گی۔ جب اٹارنی جنرل تشار مہتہ نے اس معاملے میں آناکانی کی تو عدالت نے حکومت کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہدوہفتہ تک بلڈوزر پرروک سے کوئی آسمان نہیں گرپڑے گا۔ حکومت نے جب ملک گیر سطح پر امتناع پر اعتراض کیا تو عدالت نے اسے یہ کہہ کرمسترد کردیا کہ ‘عدالت دستور کی دفعہ142کے تحت اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے یہ احکامات جاری کررہی ہے ۔عدالت نے عندیہ دیا کہ وہ رہنما خطوط کی بجائے غیرقانونی بلڈوزر کارروائیوں کے خلاف احکامات جاری کرسکتی ہے ۔عدالت کے اس واضح موقف سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ملک میں ‘بلڈوزر جسٹس’ کے نام پر جاری آخری درجہ کے ظلم کو روکنے میں کامیاب ہوجائے گی اور ملک میں انصاف کا نظام قائم ہوگا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر