... loading ...
رفیق پٹیل
پاکستان پیپلز پارٹی جو ملک کی سب سے بڑی اورمتحرک سیاسی جماعت تھی ،جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے جدوجہد میں وہ سب سے آگے تصور کی جاتی تھی۔ موجودہ وقت میں سکڑکر سندھ تک محدود ہے۔ دیگر صوبوں میں عوامی سطح پر وہ انتہائی کمزور ہوچکی ہے ۔وہ اپنی عوامی ساکھ برقرار رکھنے میں ناکامی کا سامنا کررہی ہے۔ جس وقت پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتوں کے ہمراہ مارچ 2022میں تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور کراکے حکومت کا خاتمہ کیا تھا ،اس وقت پی پی نے عام انتخابات کے انعقاد سے گریز کرنے میں مسلم لیگ کا ساتھ دے کر بہت بڑی غلطی کی تھی ۔اگر اس وقت انتخابات ہوجاتے توبلاول بھٹو وزیر اعظم یا کم ازکم اپوزیشن لیڈر ہوتے۔ پیپلز پارٹی نے گزشتہ حکومت میں شمولیت کرکے عوامی سطح پر خود کو مسلسل کمزور کیا۔ پیپلز پارٹی کا کارکن اور ووٹر مسلم لیگ ن اور ایم کیوایم کے ساتھ اتحاد کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے اور اپنی اصل پیپلز پارٹی کی تلاش میں ہے۔ اس وقت پیپلز پارٹی کی قیادت بلادل بھٹوکے پاس ہے۔ موجود ہ آئینی ترمیم اورعدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی سے بلاول بھٹو کی ساکھ مزید متاثر ہوئی اور اس پر منفی اثرات ہوئے ۔بلاول بھٹوکے پاس دو راستے ہیں یاتو موجودہ حکمران جماعت کی کمزور اور آئندہ کسی مرحلے پر ڈوب جانے والی کشتی پر اپنی سوار جاری رکھیںیا پھر عوامی سیاست کا راستہ اپنا کر پیپلز پارٹی کو ایک مرتبہ پھر چاروں صوبوں کے عوام میں مقبول بنانے کی کوشش کریں جو ایک مشکل اور طویل سفر ہوگا۔ اس کے لیے کیا وہ اس حکومت سے علیحدہ ہوکر اس کی مخالفت کرنے والا دلیرانہ قدم اٹھا سکتے ہیں ۔یہ ان کا اور پیپلز پارٹی کی قیادت کا امتحان ہے مسلم لیگ ن نے حکومت حاصل کرنے کے لیے اپنی عوامی حمایت کو تقریباً ختم کردیا ۔اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ مریم نواز مستقبل میں کوئی اہم کردار اداکرسکیں گی۔ پنجاب میں وہ بیساکھیوں پر کھڑی ہیں اور ان کی جماعت تیز رفتاری سے اپنا وجود کھو رہی ہے۔ آنے والا وقت ان کے لیے اور بھی خطرناک ہے۔ تحریک انصاف کے بانی کی جیل میں موت کا خدشہ ان کی بہن علیمہ خان ظاہر کرچکی ہیں۔ اگر عمران خان کی موت جیل میں ہوجاتی ہے، ایسی صورت میں اس کاتمام الزام موجودہ حکمراں جماعتوں اور ان کو بیساکھیاں فراہم کرنے والوں پر آئے گا۔ جب یہ ملبہ ان تمام لوگوں پر گرے گا تو شاید مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی مومنٹ اس کا بوجھ نہیں سہہ سکیں گی۔ مجموعی طور پر ملک کے حالات بھی بے یقینی کے شکار ہیں۔
ایک طرف پاکستان کے عوام مہنگائی بے روزگاری اور بنیادی سہولیات سے محرومی سے شدید پریشان ہیں۔ دوسری جانب پاکستان کی سیاست میں ایک ہیجان برپا ہے اور جو تصاویر بین الاقوامی سطح پر جارہی ہے، اس سے پاکستان کی اچھی ساکھ نہیں بن رہی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے موجودہ افراتفری اور انتشار کی کیفیت سے باہر نکالنے کے لیے کوئی حکمت عملی ملک کے منتظمین کے پاس نہیں ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کی توجہ اپنے عوام کی خوشحالی،فلاح اور انہیں بااختیار بنانے کی جانب رہتی ہے اور انہیں معیشت کاپہیہ تیز کرنے کے لیے متحرک رکھا جاتا ہے۔ ان مملک میں اعلیٰ تعلیم، ٹیکنالوجی ، صحت اور مواصلات کے نظام کو فروغ دینے کے لیے مسلسل کوشش جاری رہتی ہے پاکستان میں ایک جلسے یاسیاستدانوں کی تقریر پر ردّعمل کی کی خبروں اور تبصروں کا سلسلہ ہی ملک کے میڈیا پر حاوی ہے۔ جلسے کے موقع پر راستوں کی بندش اور گرفتاریاں پارلیمنٹ میں منتخب نمائندوں کی گرفتاریوں کی رپورٹ اور اس کی تردیدوغیرہ اور احتجاج کی اپیل جیسے تازہ واقعات نے مزید انتشار اور خلفشار کی نشاندہی کردی ہے۔ سارا ملبہ حکمران طبقہ پر گر رہا ہے۔ دنیا کی نظروں میں وہ کیا مقام پارہے ہیں۔ شاید انہیں اس کی پرواہ نہیں،نہ ہی ملکی ترقی اور خوشحالی کی کوئی راہ نظر آتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکمرانوں کا سارا زور اس بات پر ہے کہ کرسی پر زیادہ سے زیادہ کتنے عرصے تک چمٹے رہنا ہے۔ اس کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہاہے۔ ملکوں کی ترقی کا فارمولہ آسان ہے اور کئی ادارے اس بارے میں اپنی تحقیقات کو منظر عام پر لاچکے ہیں۔
ایک عام شخص جو اتنا خواندہ ہو کہ انگریزی پڑھ اور سمجھ سکتا ہو یا انگریزی کو انٹرنیٹ کے ذریعے اپنی زبان میں ترجمہ کرنے کی معمولی صلاحیت رکھتا ہو وہ بھی یہ معلوم کر سکتا ہے کہ قوموں کی ترقی میں کون سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ ترقی کیا ہے اور تباہی کیا ہے؟ اس سلسلے میں لیگاتم انسٹیٹیوٹ نے ایک تحقیق کی ہے جسے ہر شخص اس کی ویب سائٹ پر دیکھ سکتا ہے ۔لیگاتم انسٹیٹیوٹ برطانوی تھنک ٹینک ہے جس کا مقصد عوام کو عالمی، قومی سیا ست،سماجی مسائل،اور معاشی پالیسیوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنا ہے۔ اس کا
اعلیٰ مقصد(Mission) لوگوں،خاندانوں ،برادریوں اور قوموںکی ترقی اور خوشحالی کے حصول کے لیے معلومات کی فراہمی اور اپنے کام کے ذریعے مدد کرنا ہے ۔اس انسٹیٹیوٹ نے ایک انڈیکس تیار کیا ہے جو دنیا بھر کے رہنما ؤں کو ایسے رہنمااصول مرتّب کرنے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے ملک میں خوشحالی لا سکتے ہیں اور اسے ترقّی کی جانب گامزن کرسکتے ہیں ۔اس انسٹیٹیوٹ کو 2007 میں کرسٹوفرچاندلر،مارک اسٹولسن،الان میک کارمک اور فلپ وسیلیونے قائم کیا تھا۔اس انسٹیٹیوٹ کی حالیہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ محض دولت خوشحالی کی علامت نہیں ہے۔ خوشحالی ایک ایسے معاشرے کی تشکیل سے ممکن ہے جہاںبلا امتیاز نسل،مذہب ،علاقہ اور طبقہ تمام لوگوں کو آگے بڑھنے کے آزادانہ اور برابر مواقع فراہم ہوں۔معاشروں کی ترقی کے اہم بنیادی لوازمات میں جن اہم نکات کو شامل کیا گیا ہے 1 ۔لوگوں کو تشدّد، خطروں،جرائم اور دباو سے پاک پر امن ماحول میسّر ہو۔2 ۔ہر شخص کے وقار ،عزّت اور احترام کا خیال رکھا جائے آزادی اظہار ، عبادت اور اجتماع کی آزادی ہو۔3۔ آزاد عدلیہ جس پر حکومت کا اثر نہ ہو اور وہ آزادانہ منصفانہ فیصلے کرنے میں خودمختار ہو۔4 ۔عوامی مینڈیٹ حاصل کرنے والوں کو پرامن اقتدار کی منتقلی ہو۔ 5 ۔ باصلاحیت اور قانون کی پابند انتظامیہ میرٹ پر قائم کی گئی ہو۔ وغیرہ شامل ہے۔
یہ ایک تفصیلی دستاویز ہے اس کے علاوہ اقوام متحدہ سمیت دنیاکے تقریباً تمام سیاسی اور سماجی تحقیقاتی دستاویز میں جو بات قدر مشترک ہے وہ اچھی حکمرانی ہے جبکہ جمہوری ممالک میں اقتدار میں عوامی شر اکت کو یقینی بنا کر ملک کو ترقی کی سمت میں گامزن کیا جاتاہے کیا پیپلز پارٹی اپنے اند ر ایسی انقلابی تبدیل لا سکتی ہے جس سے حقیقی معنوں میں ملک تیز رفتار ترقی کی جانب بڑھ سکے۔ بلاول بھٹو اگر اس کام میں ناکام رہے تو کوئی اور قیادت اس کی جگہ لے سکتی ہے۔ وہ کسی نئی سیا سی جماعت کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے۔ فرض کریں آئندہ تحریک انصاف حکومت حاصل کر بھی لیتی ہے تو اپوزیشن میں ایک مثبت اور موثر قوت کی ضرورت ہوگی۔