وجود

... loading ...

وجود

سی پیک منصوبہ بھارت کے لیے خطرہ

منگل 24 ستمبر 2024 سی پیک منصوبہ بھارت کے لیے خطرہ

جب سے پاکستان نے سی پیک منصوبے کا اعلان کیا تھا اس وقت سے بھارت اس کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کے لیے طرح طرح کے مکروہ منصوبے بناتا رہا ہے۔ دہلی میں ستمبر 2023میں منعقدہ دنیا کی بڑی معیشتوں والے 20ممالک کی تنظیم جی 20کے سربراہی اجلاس کے دوران انڈیا، امریکہ، سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات، یورپی یونین، اٹلی، فرانس اور جرمنی نے انڈیا مڈل ایسٹ یورپ کوریڈور کی تعمیر کا معاہدہ کیا تھا۔ اس سلسلے میں ایک ایم او یو پر دستخط بھی کیے گئے ۔انڈیا کو یورپ سے جوڑنے والی اس اقتصادی راہداری کے راستے میں ترکی بھی آتا ہے لیکن اسے اس میں شامل نہیں کیا گیا۔ معاہدے کے دو دن بعد ترک صدر رجب طیب اردگان نے اس منصوبے میں اپنے ملک کی عدم شمولیت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ راہداری ان کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتی۔ دنیا کے نقشے پر ترکی ایک ایسی کڑی ہے جو مغرب کو مشرق سے ملاتی ہے کیونکہ اس کا کچھ حصہ یورپ اور کچھ حصہ ایشیا میں ہے۔ ترکی نہ صرف تجارتی نقطہ نظر سے مضبوط پوزیشن میں ہے بلکہ مشرقی وسطیٰ میں بھی اس کا اچھا خاصا اثرو رسوخ ہے۔ وہ نیٹو کا رکن ملک بھی ہے مگر پھر ایسی کیا وجہ ہے کہ اسے اس اقتصادی راہداری سے دور رکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ سوالات بھی پوچھے جا رہے ہیں کہ اس منصوبے میں امریکہ کا کیا کردار ہے ؟کیا یہ چین کی روڈ اینڈ بیلٹ انیشٹیو کا مقابلہ کرنے پر مبنی منصوبہ ہے ۔
انڈیا مڈل ایسٹ یورپ کوریڈور نامی اس منصوبے پر کام کب شروع ہوگا، اس بارے میں فی الحال زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں ۔ انڈین حکومت کے مطابق اس منصوبے میں دو کوریڈور ہوں گے، ایک مشرقی راہداری جو انڈیا کو خلیجی ممالک سے جوڑے گی اور دوسری جانب شمالی راہداری ہوگی جو خلیجی ممالک کو یورپ سے جوڑے گی اور اس منصوبے کے تحت زمینی سمندری اور ریل کا ٹریک بچھا یا جائے گا۔ اس منصوبے کا مقصد طویل سمندری راستے طے کرنے میں لگنے والے وقت اور ایندھن کی لاگت کو کم کرنا اور انڈیا سے یورپ تک تجارتی رابطے کو مضبوط بنانا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس اقتصادی راہداری کی مدد سے سامان سب سے پہلے ممبئی بندرگاہ سے دبئی کی جبل علی بندرگاہ پہنچے گا اور وہاں سے بذریعہ سڑک یا ریل گاڑی سعودی عرب پہنچایا جائے گا۔ سعودی عرب میں سڑک یا ریل گاڑی کے ذریعے ہزاروں کلومیٹر کا سفر کرنے کے بعد سامان کو اسرائیل کی حیفہ بندرگاہ تک پہنچایا جائے گا جو پھر یونان کی پریوس بندرگاہ کے راستے یورپ میں داخل ہوگا ۔اس منصوبے میں نظر انداز کیے جانے پر اقتصادی اور معاشی نقصان کے علاوہ ترکی کو کچھ اور دیگر خدشات بھی ہیں۔ بحیرہ روم میں ترکی کا غلبہ ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ اس علاقے میں کوئی دو سرا تجارتی محاذ اس کے لیے چیلنج پیدا کرے اور دنیا میں اس کی اسٹریٹیجک پوزیشن کمزور ہو۔ اسے خدشہ ہے کہ اب محض اقتصادی راہداری نہیں رہے گی بلکہ جیو پولیٹیکل راہداری میں تبدیل ہو جائے گی۔ اس کا مطلب ہے کہ امریکہ مشرقی وسطیٰ سے خود کو پیچھے نہیں ہٹا رہا ہے اور وہ اس خطے میں رہنا چاہتا ہے۔ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات نہیں ہیں لیکن اس منصوبے کی مدد سے امریکہ دونوں ممالک کے تعلقات کو مضبوط بنانے میں اہم ثابت ہو سکتا ہے اور اس بہانے اسرائیل کو بھی جی 20 میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ ترکی کے اس اہم منصوبے سے باہر رہنے سے سعودی عرب کو اس خطے میں ایک اسٹریٹیجک برتری بھی ملے گی اور ترکی کے ٹرانس شپنگ زون میں بھی کمی واقع ہوگی ۔اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل سے سامان ترکی کی مدد کے بغیر بھی یونان بھیجا جا سکتا ہے کیونکہ یہ ان دونوں ممالک کے درمیان نہیں آتا۔ صرف اسٹریٹیجک نقطہ نظر سے ہی نہیں ترکی کو ساتھ نہ لانے کے پیچھے کچھ اور وجوہات بھی ہو سکتی ہیں ۔اسرائیل سے ترکی اور پھر وہاں سے یونان پہنچنے میں سب سے بڑی رکاوٹ قبرص ہے جو کہ ایک دیرینہ تنازع ہے ۔اس کی ہی وجہ سے اسرائیل اور ترکی آپس میں پائپ لائن نہیں بچھا سکتے۔ ترکی کے نہ صرف قبرص بلکہ یونان کے ساتھ بھی تعلقات تناؤ کے شکار ہیں۔ کئی بار یونان اور ترکی کے درمیان جنگی حالات بھی پیدا ہو چکے ہیں۔ مشرقی بحیرہ ٔروم میں دونوں ممالک کے درمیان توانائی کے وسائل اور سمندری حدود پر قبضے کو لے کر کئی بار کشیدہ حالات پیدا ہو چکے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ارد گرد کے ممالک کے ساتھ بڑھتی کشیدگی کے باعث ترکی کو اس منصوبے سے باہر رکھا گیا ہے تاکہ مستقبل میں ان مشکلات اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے تنازعات سے بھی بچا جا سکے۔
سب سے پہلے تو یہاں یہ بات کرنا ضروری ہے کہ چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ، اس منصوبے کی تکمیل میں مشکلات پیدا کر سکتا ہے ۔ چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ دنیا کے 100 سے زائد ممالک میں پھیلا ہوا ہے جس میں صحارا افریقہ کے 38 ممالک یورپ اور وسطی ایشیا کے 34 ممالک مشرقی ایشیا اور بحرالکاہل کے 25ممالک مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے 17ممالک شامل ہیں۔ لاطینی امریکہ اور کیریبین خطے کے 18ممالک اور جنوب مشرقی ایشیا کے 6ممالک شامل ہیں۔ مجوزہ اقتصادی راہداری منصوبہ کھوکھلا دکھائی دیتا ہے کیونکہ چین پہلے ہی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان مجوزہ راہداری کے تحت ریلوے لائن بچھا رہا ہے۔ اس لیے نئی راہداری کے لیے دوبارہ ریلوے کی ضرورت ہوگی۔یہ بہت مشکل اور ایک طرح سے ایک ہی کام کی نقل کرنے جیسا ہوگا ۔ماہرین کی مطابق چین کو ساتھ لے کر یہ پراجیکٹ بنانا آسان ہوتا لیکن امریکہ کی وجہ سے ایسا نہیں ہو سکا۔ سعودی عرب اور انڈیا بھی امریکہ کو عالمی نظام میں دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ دونوں ممالک کی مفادات چین سے زیادہ امریکہ سے ملتے جلتے ہیں ۔اس منصوبے کو چین کے بی آر آئی سے زیادہ جمہوری اور مثبت قرار دیتے ہیں۔ بی آر آئی مکمل طور پر چین سے تعلق رکھتا ہے ۔بہت سے ممالک چین کے قرضوں میں پھنسے ہوئے ہیں جو اس منصوبے میں شامل ہیں جبکہ انڈیا مڈل ایسٹ یورپ کوریڈور میں بہت سے ممالک سے پیسہ شامل ہوگا اور یہ زیادہ جمہوری ہوگا ۔دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ نئے کوریڈور کی تعمیر کے بعد انڈیا سے یورپ تک سامان کی ترسیل میں تقریبا 40فیصد وقت بچ جائے گا اور ٹرانسپورٹ پر ہونے والے اخراجات میں بھی کمی آئے گی۔ نئے کوریڈور میں یورپ پہنچنے کے لیے سامان کی لوڈنگ اور ان لوڈنگ کی ضرورت ہوگی اور اس میں ٹرانسپورٹ کے متحدہ طریقے شامل ہیں۔ پہلے سامان ممبئی کے بندرگاہ سے جہاز میں چڑھایا جائے گا پھر دبئی میں جہاز سے اتارا جائے گا، ٹرک یا ٹرین میں سوار ہوگا پھراسرائیل پہنچ کر جہاز میں لاد دیا جائے گا اور اس طویل سفر کے بعد یہ سامان یورپ پہنچے گا۔ ایسے میں جب 10 روپے کا سامان ممبئی سے یورپ پہنچتا ہے۔ تب تک اس کی قیمت میں 10 گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ موجودہ دور میں ایک بار جب سامان ایران کی چاہ بہار یا بندر عباس بندرگاہ پر پہنچ جاتا ہے تو وہ زمینی راستے سے براہ راست یورپ پہنچ جاتا ہے ۔اسے بار بار لوڈ اور ان لوڈ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔اس راہداری سے کیا معاشی فوائد حاصل ہوں گے؟ اس کے بارے میں کہنا قبل از وقت ہے۔ اس نئی راہداری سے یقینی طور پر گلوبل ساؤتھ میں ہندوستان کا غلبہ بڑھے گا اور یہ چین کو بہتر انداز میں چیلنج کر سکے گا۔ بھارت ایک سازشی منصوبے کے تحت خطے میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ اپنی اجارہ داری کے ذریعے خطے میں اپنی من مانی کرے ۔یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کا سی پیک منصوبہ بھارت اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر