... loading ...
جب سے پاکستان نے سی پیک منصوبے کا اعلان کیا تھا اس وقت سے بھارت اس کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کے لیے طرح طرح کے مکروہ منصوبے بناتا رہا ہے۔ دہلی میں ستمبر 2023میں منعقدہ دنیا کی بڑی معیشتوں والے 20ممالک کی تنظیم جی 20کے سربراہی اجلاس کے دوران انڈیا، امریکہ، سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات، یورپی یونین، اٹلی، فرانس اور جرمنی نے انڈیا مڈل ایسٹ یورپ کوریڈور کی تعمیر کا معاہدہ کیا تھا۔ اس سلسلے میں ایک ایم او یو پر دستخط بھی کیے گئے ۔انڈیا کو یورپ سے جوڑنے والی اس اقتصادی راہداری کے راستے میں ترکی بھی آتا ہے لیکن اسے اس میں شامل نہیں کیا گیا۔ معاہدے کے دو دن بعد ترک صدر رجب طیب اردگان نے اس منصوبے میں اپنے ملک کی عدم شمولیت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ راہداری ان کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتی۔ دنیا کے نقشے پر ترکی ایک ایسی کڑی ہے جو مغرب کو مشرق سے ملاتی ہے کیونکہ اس کا کچھ حصہ یورپ اور کچھ حصہ ایشیا میں ہے۔ ترکی نہ صرف تجارتی نقطہ نظر سے مضبوط پوزیشن میں ہے بلکہ مشرقی وسطیٰ میں بھی اس کا اچھا خاصا اثرو رسوخ ہے۔ وہ نیٹو کا رکن ملک بھی ہے مگر پھر ایسی کیا وجہ ہے کہ اسے اس اقتصادی راہداری سے دور رکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ سوالات بھی پوچھے جا رہے ہیں کہ اس منصوبے میں امریکہ کا کیا کردار ہے ؟کیا یہ چین کی روڈ اینڈ بیلٹ انیشٹیو کا مقابلہ کرنے پر مبنی منصوبہ ہے ۔
انڈیا مڈل ایسٹ یورپ کوریڈور نامی اس منصوبے پر کام کب شروع ہوگا، اس بارے میں فی الحال زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں ۔ انڈین حکومت کے مطابق اس منصوبے میں دو کوریڈور ہوں گے، ایک مشرقی راہداری جو انڈیا کو خلیجی ممالک سے جوڑے گی اور دوسری جانب شمالی راہداری ہوگی جو خلیجی ممالک کو یورپ سے جوڑے گی اور اس منصوبے کے تحت زمینی سمندری اور ریل کا ٹریک بچھا یا جائے گا۔ اس منصوبے کا مقصد طویل سمندری راستے طے کرنے میں لگنے والے وقت اور ایندھن کی لاگت کو کم کرنا اور انڈیا سے یورپ تک تجارتی رابطے کو مضبوط بنانا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس اقتصادی راہداری کی مدد سے سامان سب سے پہلے ممبئی بندرگاہ سے دبئی کی جبل علی بندرگاہ پہنچے گا اور وہاں سے بذریعہ سڑک یا ریل گاڑی سعودی عرب پہنچایا جائے گا۔ سعودی عرب میں سڑک یا ریل گاڑی کے ذریعے ہزاروں کلومیٹر کا سفر کرنے کے بعد سامان کو اسرائیل کی حیفہ بندرگاہ تک پہنچایا جائے گا جو پھر یونان کی پریوس بندرگاہ کے راستے یورپ میں داخل ہوگا ۔اس منصوبے میں نظر انداز کیے جانے پر اقتصادی اور معاشی نقصان کے علاوہ ترکی کو کچھ اور دیگر خدشات بھی ہیں۔ بحیرہ روم میں ترکی کا غلبہ ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ اس علاقے میں کوئی دو سرا تجارتی محاذ اس کے لیے چیلنج پیدا کرے اور دنیا میں اس کی اسٹریٹیجک پوزیشن کمزور ہو۔ اسے خدشہ ہے کہ اب محض اقتصادی راہداری نہیں رہے گی بلکہ جیو پولیٹیکل راہداری میں تبدیل ہو جائے گی۔ اس کا مطلب ہے کہ امریکہ مشرقی وسطیٰ سے خود کو پیچھے نہیں ہٹا رہا ہے اور وہ اس خطے میں رہنا چاہتا ہے۔ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات نہیں ہیں لیکن اس منصوبے کی مدد سے امریکہ دونوں ممالک کے تعلقات کو مضبوط بنانے میں اہم ثابت ہو سکتا ہے اور اس بہانے اسرائیل کو بھی جی 20 میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ ترکی کے اس اہم منصوبے سے باہر رہنے سے سعودی عرب کو اس خطے میں ایک اسٹریٹیجک برتری بھی ملے گی اور ترکی کے ٹرانس شپنگ زون میں بھی کمی واقع ہوگی ۔اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل سے سامان ترکی کی مدد کے بغیر بھی یونان بھیجا جا سکتا ہے کیونکہ یہ ان دونوں ممالک کے درمیان نہیں آتا۔ صرف اسٹریٹیجک نقطہ نظر سے ہی نہیں ترکی کو ساتھ نہ لانے کے پیچھے کچھ اور وجوہات بھی ہو سکتی ہیں ۔اسرائیل سے ترکی اور پھر وہاں سے یونان پہنچنے میں سب سے بڑی رکاوٹ قبرص ہے جو کہ ایک دیرینہ تنازع ہے ۔اس کی ہی وجہ سے اسرائیل اور ترکی آپس میں پائپ لائن نہیں بچھا سکتے۔ ترکی کے نہ صرف قبرص بلکہ یونان کے ساتھ بھی تعلقات تناؤ کے شکار ہیں۔ کئی بار یونان اور ترکی کے درمیان جنگی حالات بھی پیدا ہو چکے ہیں۔ مشرقی بحیرہ ٔروم میں دونوں ممالک کے درمیان توانائی کے وسائل اور سمندری حدود پر قبضے کو لے کر کئی بار کشیدہ حالات پیدا ہو چکے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ارد گرد کے ممالک کے ساتھ بڑھتی کشیدگی کے باعث ترکی کو اس منصوبے سے باہر رکھا گیا ہے تاکہ مستقبل میں ان مشکلات اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے تنازعات سے بھی بچا جا سکے۔
سب سے پہلے تو یہاں یہ بات کرنا ضروری ہے کہ چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ، اس منصوبے کی تکمیل میں مشکلات پیدا کر سکتا ہے ۔ چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ دنیا کے 100 سے زائد ممالک میں پھیلا ہوا ہے جس میں صحارا افریقہ کے 38 ممالک یورپ اور وسطی ایشیا کے 34 ممالک مشرقی ایشیا اور بحرالکاہل کے 25ممالک مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے 17ممالک شامل ہیں۔ لاطینی امریکہ اور کیریبین خطے کے 18ممالک اور جنوب مشرقی ایشیا کے 6ممالک شامل ہیں۔ مجوزہ اقتصادی راہداری منصوبہ کھوکھلا دکھائی دیتا ہے کیونکہ چین پہلے ہی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان مجوزہ راہداری کے تحت ریلوے لائن بچھا رہا ہے۔ اس لیے نئی راہداری کے لیے دوبارہ ریلوے کی ضرورت ہوگی۔یہ بہت مشکل اور ایک طرح سے ایک ہی کام کی نقل کرنے جیسا ہوگا ۔ماہرین کی مطابق چین کو ساتھ لے کر یہ پراجیکٹ بنانا آسان ہوتا لیکن امریکہ کی وجہ سے ایسا نہیں ہو سکا۔ سعودی عرب اور انڈیا بھی امریکہ کو عالمی نظام میں دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ دونوں ممالک کی مفادات چین سے زیادہ امریکہ سے ملتے جلتے ہیں ۔اس منصوبے کو چین کے بی آر آئی سے زیادہ جمہوری اور مثبت قرار دیتے ہیں۔ بی آر آئی مکمل طور پر چین سے تعلق رکھتا ہے ۔بہت سے ممالک چین کے قرضوں میں پھنسے ہوئے ہیں جو اس منصوبے میں شامل ہیں جبکہ انڈیا مڈل ایسٹ یورپ کوریڈور میں بہت سے ممالک سے پیسہ شامل ہوگا اور یہ زیادہ جمہوری ہوگا ۔دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ نئے کوریڈور کی تعمیر کے بعد انڈیا سے یورپ تک سامان کی ترسیل میں تقریبا 40فیصد وقت بچ جائے گا اور ٹرانسپورٹ پر ہونے والے اخراجات میں بھی کمی آئے گی۔ نئے کوریڈور میں یورپ پہنچنے کے لیے سامان کی لوڈنگ اور ان لوڈنگ کی ضرورت ہوگی اور اس میں ٹرانسپورٹ کے متحدہ طریقے شامل ہیں۔ پہلے سامان ممبئی کے بندرگاہ سے جہاز میں چڑھایا جائے گا پھر دبئی میں جہاز سے اتارا جائے گا، ٹرک یا ٹرین میں سوار ہوگا پھراسرائیل پہنچ کر جہاز میں لاد دیا جائے گا اور اس طویل سفر کے بعد یہ سامان یورپ پہنچے گا۔ ایسے میں جب 10 روپے کا سامان ممبئی سے یورپ پہنچتا ہے۔ تب تک اس کی قیمت میں 10 گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ موجودہ دور میں ایک بار جب سامان ایران کی چاہ بہار یا بندر عباس بندرگاہ پر پہنچ جاتا ہے تو وہ زمینی راستے سے براہ راست یورپ پہنچ جاتا ہے ۔اسے بار بار لوڈ اور ان لوڈ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔اس راہداری سے کیا معاشی فوائد حاصل ہوں گے؟ اس کے بارے میں کہنا قبل از وقت ہے۔ اس نئی راہداری سے یقینی طور پر گلوبل ساؤتھ میں ہندوستان کا غلبہ بڑھے گا اور یہ چین کو بہتر انداز میں چیلنج کر سکے گا۔ بھارت ایک سازشی منصوبے کے تحت خطے میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ اپنی اجارہ داری کے ذریعے خطے میں اپنی من مانی کرے ۔یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کا سی پیک منصوبہ بھارت اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔