وجود

... loading ...

وجود

ڈاکٹر پرویز محمود شہید کی یاد میں

پیر 23 ستمبر 2024 ڈاکٹر پرویز محمود شہید کی یاد میں

جاوید محمود
چند روز قبل میرے چھوٹے بھائی ڈاکٹر پرویز محمود شہید کی 12 ویں برسی پر جماعت اسلامی کے سرگرم کارکن رحمان نے جو میرے چھوٹے بھائیوں کی طرح ہیں، مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کہ اپ ایک ویڈیو پیغام ریکارڈ کر کے بھیج دیں۔ میری اس دن بہت زیادہ طبیعت خراب تھی ،مجھے ان سے معذرت کرنی پڑی اورانہیں اپنی مجبوری سے آگاہ کیا۔ میرے لیے یہ فخر کی بات ہے کہ پرویز محمود میرے چھوٹے بھائی تھے۔ واضح رہے کہ پرویز مجھ سے صرف دو سال چھوٹے تھے لیکن میں نے اپنے دو سال بڑے ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔یہ لڑکپن کا زمانہ تھا۔ والدہ ہم دونوں کو ناشتہ لانے کے لیے رات کو بھیجا کرتی تھیں۔ میری ہمیشہ یہ کوشش ہوتی تھی کہ ٹوکری پرویز پکڑے۔ تقریبا ًایک ماہ تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ پرویز ناشتے کی ٹوکری آتے جاتے دونوں راستے وہی اٹھاتے پھر شاید پرویز نے محسوس کیا کہ یہ ظلم ہے کہ وہ اکیلے ٹوکری اٹھائیں۔ وہ والدہ کے علم میں یہ بات لائے اور پھر یہ طے پایا کہ ایک دن ٹوکری وہ اٹھائیں گے اور ایک دن میری ذمہ داری ہوگی۔ یہ سلسلہ ایک ماہ جاری رہا پھر پرویز کو میں نے اس بات پر راضی کیا کہ یہ زیادہ بہتر ہوگا کہ آدھے راستے وہ ٹوکری اٹھائے اور آدھے راستے میں ۔مجھے آج یہ سوچ کر انتہائی افسوس ہوتا ہے کہ میں نے اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ اکثر وہ لمبے راستے تک ٹوکری اٹھاتے اور میرے حصے میں چھوٹا راستہ آتا۔ میں نے دو سال بڑا ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھایا جس کا مجھے آج افسوس ہے۔ اس دور میں ہم لوگ ایک ہی بستر پہ سویا کرتے تھے۔ میری ہمیشہ کوشش ہوتی تھی کہ دیوار والے سائیڈ پر پرویز سوئے یہ سلسلہ کافی عرصے تک جاری رہا پھر پرویز والدہ کے علم میں یہ بات لائے کہ وہ دیوار کی سائیڈ پر سونا پسند نہیں کرتے ۔والدہ نے ہمیں اس بات پر رضامند کیا کہ ایک دن میں دیوار کی سائیڈ پہ اور ایک دن پرویز دیوار کی سائیڈ پر سوئے۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس منصوبے کو بھی میں نے خاک میں ملا دیا۔ کیونکہ میں دو سال بڑا تھا اور میں نے اکثر پرویز کو مجبور کیا کہ وہ دیوار کے سائیڈ سوئے اور وہ مان جاتا ۔ اب جب یہ باتیں یاد آتی ہیں توبہت رنج اور دکھ ہوتا ہے کہ کاش ایسا نہ ہوتا ۔کاش میں اپنے بھائی کو اتنا تنگ نہ کرتا ۔اس وقت میں اکثر جیت جاتا تھا لیکن اب تو وہ شہادت کا رتبہ حاصل کرنے کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جیت چکا ہے۔ مجھے اس نے بہت پیچھے چھوڑ دیا۔
پرویز محمود کالج کے زمانے سے ہی اسلامی جمعیت طلبہ کی پلیٹ فارم سے سیاست میں سرگرم ہو گئے تھے اور ہمیشہ مظلوم کا ساتھ دیتے اور ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے ۔1981میں جب پرویز محمود سندھ میڈیکل کالج میں تعلیم حاصل کر رہے تھے تو ان دنوں میں انہوں نے مجھ سے ایک بات شیئر کی تھی کہ کالج میں پنجابی پختون اتحاد کے نام سے ایک تنظیم ہے جس کے چیئرمین نے کالج میں دہشت پھیلا رکھی ہے۔ بڑے بھائی ہونے کے ناطے پرویز کو ہمیشہ یہی کہا کہ اپنی پڑھائی پر توجہ دو اور کالج کی انتظامیہ کو صورتحال سے آگاہ رکھو ایک دن پرویز نے مجھے ایک انتہائی دل خراش خبر سنائی کہ شہاب کو پنجابی پختون اتحاد کے چیئرمین اشتیاق چوہدری نے گولی مار کر شہید کر دیا۔ اس واقعے نے پرویز کو بہت رنجیدہ کر دیا تھا کیونکہ شہاب پرویز کا بہت عزیز دوست تھا ۔چند ماہ بعد میں ڈنمارک چلا گیا مجھے ڈر تھا کہ اس کا کوئی رد عمل ہوگا شہاب کی پہلی برسی پر مجھے بتایا گیا کہ پرویز محمود اور ان کے دوستوں نے مل کرشہاب کی پہلی برسی پر اشتیاق چودھری کو قتل کر دیا اور اس کے نتیجے میں پرویز محمود اور ان کے دوستوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ یہ اطلاع ملتے ہیں مجھے ہنگامی بنیادوں پر پاکستان پہنچنا پڑا ۔جب پرویز سے میری جیل میں پہلی ملاقات ہوئی تو اس نے مجھے تفصیلات سے آگاہ کیا۔ اس کیس میں پرویز دو سال دو ماہ تک جیل میں رہا۔ اس دوران جیل میں ملاقاتوں کے دوران پرویز کو ذہنی طور پر تیار کر لیا کہ اس کیس سے رہائی کے بعد تم نے پاکستان نہیں رہنا ۔بڑے بھائی کے ناطے مجھے اس کی زندگی کی فکر تھی اور میرا خیال تھا کہ اشتیاق چوہدری کے قتل کا بدلہ لیا جائے گا ۔پرویز میرا کہنا مانتے تھے نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اس بات پر رضامند ہوگئے کہ ٹھیک ہے میں پاکستان چھوڑ دوں گا۔ جیسے ہی پرویز کی ضمانت ہوئی( یہاں یہ بات بتانا ضروری ہے کہ پرویز کی رہائی میں سیف الدین ایڈوکیٹ نے اہم کردار ادا کیا)وہ وعدے کے مطابق امریکہ روانہ ہوگئے ٹھیک ڈیڑھ ماہ بعد گھریلو حالات کی وجہ سے مجھے بھی امریکہ جانا پڑا ۔دو سال گزرنے کے بعد پرویز نے مجھ سے کہا کہ بھائی مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے وہ یہ کہ میرا امریکہ میں دل نہیں لگتا ۔اگر اپ اجازت دیں تو میں واپس پاکستان چلا جاؤں۔ مجھے پرویز کی اس بات نے پریشان کر دیا میں نے پرویز سے کہا 48 گھنٹے دیتا ہوں، سوچ لو پھر تم جو کہو گے ویسے ہی کریں گے۔ 48گھنٹے سے پہلے ہی پرویز نے مجھے کہا کہ بھائی مجھے پاکستان جانا ہے اورپھر وہ پاکستان چلا گیا۔ اب مجھے پرویز کے حوالے سے خبریں آنے لگیں کہ پرویز نے ایم کیو ایم کی پالیسی کے خلاف آواز اٹھانی شروع کر دی ہے یہ اس وقت کی بات ہے جب کوئی ایم کیو ایم کے سامنے اُف تک نہیں کر سکتا تھا کیونکہ مجھے بھی ایم کیو ایم کی پالیسیوں سے اختلاف تھا تو میری پوری کوشش تھی کہ پرویز حکمت کے ساتھ ان سے اختلافات جاری رکھے۔ پرویز کو وقفے وقفے سے سمجھاتا رہتا تھا کہ وہ اپنی حفاظت کا بندوبست رکھے ۔پھر ایک دن پرویز نے فون کر کے بتایا کہ جماعت نے انہیں ناظم کے لیے نامزد کیا ہے۔ پرویز نے مجھ سے کہا کہ بھائی اگر اپ اجازت دیں تو میں اس انتخاب میں حصہ لے لوں۔ اس موقع پر پھر میں نے دو سال بڑا ہونے کا فائدہ اٹھایا اور پرویز کے سامنے چند شرائط رکھیں۔ پرویز نے مجھ سے وعدہ کیا کہ میں آپ کی ان تمام باتوں کو مانوں گا اور اپ کو کبھی مایوس نہیں کروں گا اور حقیقت یہ ہے کہ پرویز نے واقعی اپنے وعدے پورے کر دکھائے اور مجھے مایوس نہیں کیا۔سٹی ناظم نعمت اللہ خان کے دورِ نظامت میں پرویز ناظم منتخب ہوئے اور بھرپور اپنی خدمات انجام دیں۔ پرویز نے کراچی میں بڑھتے جرائم بوری بند لاشیں اور ٹارگٹ کلنگ کا ذمہ دار ایم کیو ایم کے الطاف حسین کو ٹھہرایا اور ایم کے ایم کے ہر مظالم کا جواب پرویز نے بخوبی دیااور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کو دن میں تارے دکھائے ۔پرویز محمود اپنی زندگی کی آخری سانس تک ایم کی ایم کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنے کھڑے رہے۔ 17ستمبر 2012 کو پرویز محمود کو رات کے اندھیرے میں ایک بزدل ٹولے نے گولیوں کی بوچھاڑ کر کے شہید کر دیا۔ پرویز شہر کراچی میں ظالموں کے خلاف بھرپور آواز بلند کر کے دن کے اجالے میں اپنے دشمنوں کو للکارتے رہے اور ظالموں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو جاتے جس کے لیے وہ سیاسی سماجی حلقوں میں جانے جاتے تھے۔ پرویز نے ایک موقع پر کہا تھا کہ زمینی خداؤں اور ظالموں کے سامنے سر اٹھا کر آزادی اور وقار سے جینے کا نام زندگی ہے۔ اور زمینی خداؤں اور ظالموں کے سامنے سر جھکا کر بے بسی اور مظلومیت کے ساتھ قسمت میں لکھی سانسوں کو پورا کرنا عمر ہے۔ میرے پیارے عزیز چھوٹے بھائی پرویز نے بھرپور زندگی گزاری اور حق کے لیے ہر سانس ہر پل آواز اٹھائی۔ مجھے ان کا بڑا بھائی ہونے پر فخر ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالی ہر ایک کو ایسا بھائی نصیب کرے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر