... loading ...
جاوید محمود
چند روز قبل میرے چھوٹے بھائی ڈاکٹر پرویز محمود شہید کی 12 ویں برسی پر جماعت اسلامی کے سرگرم کارکن رحمان نے جو میرے چھوٹے بھائیوں کی طرح ہیں، مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کہ اپ ایک ویڈیو پیغام ریکارڈ کر کے بھیج دیں۔ میری اس دن بہت زیادہ طبیعت خراب تھی ،مجھے ان سے معذرت کرنی پڑی اورانہیں اپنی مجبوری سے آگاہ کیا۔ میرے لیے یہ فخر کی بات ہے کہ پرویز محمود میرے چھوٹے بھائی تھے۔ واضح رہے کہ پرویز مجھ سے صرف دو سال چھوٹے تھے لیکن میں نے اپنے دو سال بڑے ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔یہ لڑکپن کا زمانہ تھا۔ والدہ ہم دونوں کو ناشتہ لانے کے لیے رات کو بھیجا کرتی تھیں۔ میری ہمیشہ یہ کوشش ہوتی تھی کہ ٹوکری پرویز پکڑے۔ تقریبا ًایک ماہ تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ پرویز ناشتے کی ٹوکری آتے جاتے دونوں راستے وہی اٹھاتے پھر شاید پرویز نے محسوس کیا کہ یہ ظلم ہے کہ وہ اکیلے ٹوکری اٹھائیں۔ وہ والدہ کے علم میں یہ بات لائے اور پھر یہ طے پایا کہ ایک دن ٹوکری وہ اٹھائیں گے اور ایک دن میری ذمہ داری ہوگی۔ یہ سلسلہ ایک ماہ جاری رہا پھر پرویز کو میں نے اس بات پر راضی کیا کہ یہ زیادہ بہتر ہوگا کہ آدھے راستے وہ ٹوکری اٹھائے اور آدھے راستے میں ۔مجھے آج یہ سوچ کر انتہائی افسوس ہوتا ہے کہ میں نے اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ اکثر وہ لمبے راستے تک ٹوکری اٹھاتے اور میرے حصے میں چھوٹا راستہ آتا۔ میں نے دو سال بڑا ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھایا جس کا مجھے آج افسوس ہے۔ اس دور میں ہم لوگ ایک ہی بستر پہ سویا کرتے تھے۔ میری ہمیشہ کوشش ہوتی تھی کہ دیوار والے سائیڈ پر پرویز سوئے یہ سلسلہ کافی عرصے تک جاری رہا پھر پرویز والدہ کے علم میں یہ بات لائے کہ وہ دیوار کی سائیڈ پر سونا پسند نہیں کرتے ۔والدہ نے ہمیں اس بات پر رضامند کیا کہ ایک دن میں دیوار کی سائیڈ پہ اور ایک دن پرویز دیوار کی سائیڈ پر سوئے۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس منصوبے کو بھی میں نے خاک میں ملا دیا۔ کیونکہ میں دو سال بڑا تھا اور میں نے اکثر پرویز کو مجبور کیا کہ وہ دیوار کے سائیڈ سوئے اور وہ مان جاتا ۔ اب جب یہ باتیں یاد آتی ہیں توبہت رنج اور دکھ ہوتا ہے کہ کاش ایسا نہ ہوتا ۔کاش میں اپنے بھائی کو اتنا تنگ نہ کرتا ۔اس وقت میں اکثر جیت جاتا تھا لیکن اب تو وہ شہادت کا رتبہ حاصل کرنے کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جیت چکا ہے۔ مجھے اس نے بہت پیچھے چھوڑ دیا۔
پرویز محمود کالج کے زمانے سے ہی اسلامی جمعیت طلبہ کی پلیٹ فارم سے سیاست میں سرگرم ہو گئے تھے اور ہمیشہ مظلوم کا ساتھ دیتے اور ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے ۔1981میں جب پرویز محمود سندھ میڈیکل کالج میں تعلیم حاصل کر رہے تھے تو ان دنوں میں انہوں نے مجھ سے ایک بات شیئر کی تھی کہ کالج میں پنجابی پختون اتحاد کے نام سے ایک تنظیم ہے جس کے چیئرمین نے کالج میں دہشت پھیلا رکھی ہے۔ بڑے بھائی ہونے کے ناطے پرویز کو ہمیشہ یہی کہا کہ اپنی پڑھائی پر توجہ دو اور کالج کی انتظامیہ کو صورتحال سے آگاہ رکھو ایک دن پرویز نے مجھے ایک انتہائی دل خراش خبر سنائی کہ شہاب کو پنجابی پختون اتحاد کے چیئرمین اشتیاق چوہدری نے گولی مار کر شہید کر دیا۔ اس واقعے نے پرویز کو بہت رنجیدہ کر دیا تھا کیونکہ شہاب پرویز کا بہت عزیز دوست تھا ۔چند ماہ بعد میں ڈنمارک چلا گیا مجھے ڈر تھا کہ اس کا کوئی رد عمل ہوگا شہاب کی پہلی برسی پر مجھے بتایا گیا کہ پرویز محمود اور ان کے دوستوں نے مل کرشہاب کی پہلی برسی پر اشتیاق چودھری کو قتل کر دیا اور اس کے نتیجے میں پرویز محمود اور ان کے دوستوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ یہ اطلاع ملتے ہیں مجھے ہنگامی بنیادوں پر پاکستان پہنچنا پڑا ۔جب پرویز سے میری جیل میں پہلی ملاقات ہوئی تو اس نے مجھے تفصیلات سے آگاہ کیا۔ اس کیس میں پرویز دو سال دو ماہ تک جیل میں رہا۔ اس دوران جیل میں ملاقاتوں کے دوران پرویز کو ذہنی طور پر تیار کر لیا کہ اس کیس سے رہائی کے بعد تم نے پاکستان نہیں رہنا ۔بڑے بھائی کے ناطے مجھے اس کی زندگی کی فکر تھی اور میرا خیال تھا کہ اشتیاق چوہدری کے قتل کا بدلہ لیا جائے گا ۔پرویز میرا کہنا مانتے تھے نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اس بات پر رضامند ہوگئے کہ ٹھیک ہے میں پاکستان چھوڑ دوں گا۔ جیسے ہی پرویز کی ضمانت ہوئی( یہاں یہ بات بتانا ضروری ہے کہ پرویز کی رہائی میں سیف الدین ایڈوکیٹ نے اہم کردار ادا کیا)وہ وعدے کے مطابق امریکہ روانہ ہوگئے ٹھیک ڈیڑھ ماہ بعد گھریلو حالات کی وجہ سے مجھے بھی امریکہ جانا پڑا ۔دو سال گزرنے کے بعد پرویز نے مجھ سے کہا کہ بھائی مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے وہ یہ کہ میرا امریکہ میں دل نہیں لگتا ۔اگر اپ اجازت دیں تو میں واپس پاکستان چلا جاؤں۔ مجھے پرویز کی اس بات نے پریشان کر دیا میں نے پرویز سے کہا 48 گھنٹے دیتا ہوں، سوچ لو پھر تم جو کہو گے ویسے ہی کریں گے۔ 48گھنٹے سے پہلے ہی پرویز نے مجھے کہا کہ بھائی مجھے پاکستان جانا ہے اورپھر وہ پاکستان چلا گیا۔ اب مجھے پرویز کے حوالے سے خبریں آنے لگیں کہ پرویز نے ایم کیو ایم کی پالیسی کے خلاف آواز اٹھانی شروع کر دی ہے یہ اس وقت کی بات ہے جب کوئی ایم کیو ایم کے سامنے اُف تک نہیں کر سکتا تھا کیونکہ مجھے بھی ایم کیو ایم کی پالیسیوں سے اختلاف تھا تو میری پوری کوشش تھی کہ پرویز حکمت کے ساتھ ان سے اختلافات جاری رکھے۔ پرویز کو وقفے وقفے سے سمجھاتا رہتا تھا کہ وہ اپنی حفاظت کا بندوبست رکھے ۔پھر ایک دن پرویز نے فون کر کے بتایا کہ جماعت نے انہیں ناظم کے لیے نامزد کیا ہے۔ پرویز نے مجھ سے کہا کہ بھائی اگر اپ اجازت دیں تو میں اس انتخاب میں حصہ لے لوں۔ اس موقع پر پھر میں نے دو سال بڑا ہونے کا فائدہ اٹھایا اور پرویز کے سامنے چند شرائط رکھیں۔ پرویز نے مجھ سے وعدہ کیا کہ میں آپ کی ان تمام باتوں کو مانوں گا اور اپ کو کبھی مایوس نہیں کروں گا اور حقیقت یہ ہے کہ پرویز نے واقعی اپنے وعدے پورے کر دکھائے اور مجھے مایوس نہیں کیا۔سٹی ناظم نعمت اللہ خان کے دورِ نظامت میں پرویز ناظم منتخب ہوئے اور بھرپور اپنی خدمات انجام دیں۔ پرویز نے کراچی میں بڑھتے جرائم بوری بند لاشیں اور ٹارگٹ کلنگ کا ذمہ دار ایم کیو ایم کے الطاف حسین کو ٹھہرایا اور ایم کے ایم کے ہر مظالم کا جواب پرویز نے بخوبی دیااور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کو دن میں تارے دکھائے ۔پرویز محمود اپنی زندگی کی آخری سانس تک ایم کی ایم کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنے کھڑے رہے۔ 17ستمبر 2012 کو پرویز محمود کو رات کے اندھیرے میں ایک بزدل ٹولے نے گولیوں کی بوچھاڑ کر کے شہید کر دیا۔ پرویز شہر کراچی میں ظالموں کے خلاف بھرپور آواز بلند کر کے دن کے اجالے میں اپنے دشمنوں کو للکارتے رہے اور ظالموں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو جاتے جس کے لیے وہ سیاسی سماجی حلقوں میں جانے جاتے تھے۔ پرویز نے ایک موقع پر کہا تھا کہ زمینی خداؤں اور ظالموں کے سامنے سر اٹھا کر آزادی اور وقار سے جینے کا نام زندگی ہے۔ اور زمینی خداؤں اور ظالموں کے سامنے سر جھکا کر بے بسی اور مظلومیت کے ساتھ قسمت میں لکھی سانسوں کو پورا کرنا عمر ہے۔ میرے پیارے عزیز چھوٹے بھائی پرویز نے بھرپور زندگی گزاری اور حق کے لیے ہر سانس ہر پل آواز اٹھائی۔ مجھے ان کا بڑا بھائی ہونے پر فخر ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالی ہر ایک کو ایسا بھائی نصیب کرے۔