وجود

... loading ...

وجود

بلوچ سرداروں کی پشت پر وطن دشمن قوتیں

پیر 23 ستمبر 2024 بلوچ سرداروں کی پشت پر وطن دشمن قوتیں

ریاض احمدچودھری

انگریزوں نے بلوچ قبائلی سرداروں کے بچوں کو تعلیم تو دی مگر بد قسمتی سے ان کے دماغ میں پاکستان مخالف جذبات بھی ڈال گیا۔ وہ پاکستان کے مستقبل سے نا امید ہیں۔ ایران اور انگلینڈ میں رہائش کو ترجیح دیتے ہیں۔ اسوقت نوجوان بلوچ سرداروں کی ایک بڑی تعداد بلوچستان کی آزادی چاہتی ہے تاکہ اپنی مرضی کی حکومت کر سکیں۔ اصل میں ان تمام سرداروں کی پشت پررا۔ موساد اور سی آئی اے جیسی طاقتور ایجنسیاں کام کر رہی ہیں۔ ان لوگوں نے بلوچستان کے اندر اپنے اپنے عسکری اور دہشت گرد گروپ تیار کر لئے ہیں جو پاکستان میں عدم استحکام پیدا کر رہے ہیں۔ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ میں شدت آچکی ہے۔ویسے تو دنیا کے تمام قبائل میں سرداری نظام موجود ہے لیکن بلوچستان کا سرداری نظام کافی پرانا اور جغرافیائی حالات کے مطابق ہے۔ یہاں ہر قبیلہ ایک خاص علاقے میں آباد ہے۔ علاقے میں پانی نہ ہونے کی وجہ سے چراگاہیں بہت کم ہیں اور زراعت بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ تمام لوگوں کا ذریعہ روزگار بھیڑ بکریوں کی افزائش ہے جس کے لئے چراگاہیں اور پانی ضروری ہیں۔ یہ دونوں چیزیں سردار کے قبضہ میں ہوتی ہیں۔
تمام قبیلے پر سردار کا حق ہے وہ جو چاہے کرے اسے کوئی نہیں روک سکتا۔ کوئی شخص سردار کی اجازت کے بغیر تعلیم حاصل نہیں کر سکتا۔ملازمت نہیں کر سکتا۔ حتیٰ کہ شادی تک نہیں کرسکتا۔ حکومت بھی ملازمتیں سرداروں کو ہی پیش کرتی ہے اور پھر سردار اپنے آدمی اس ملازمت پر لگاتے ہیں۔ان ملازمین کی تمام تنخواہ بھی سرداروں ہی کو ملتی ہے پھر وہ آگے اپنی مرضی سے ان لوگوں میں تقسیم کرتے ہیں حتیٰ کہ مزدور بھی حکومت سرداروں کی مرضی کے بغیر نہیں رکھ سکتی۔
موجودہ سرداری نظام کی بنیاد رابرٹ سنڈیمن نے1876 میں اس وقت رکھی جب وہ بلوچستان میں چیف کمشنر اور ایجنٹ ٹودی گورنر جنرل ہند مقرر ہوا۔ اس نے سرداروں کی معرفت تمام قبائل کو قابو کیا۔ سرداروں کو بہت سی مراعات دیں۔ انہیں ذاتی اور سرکاری لیوی بھرتی کرنے کی اجازت دی۔ وظیفہ بھی دیا اور قبیلے پر ان کے طرزِ حکمرانی میں کوئی دخل اندازی نہ کی لیکن سب سے اہم کام جو اس نے کیا وہ سب سرداروں کے بیٹوں کے لئے تعلیم مفت اور ضروری قرار دی۔ پورے ہندوستان میں نوابوں۔ راجوں اور سرداروں کے لئے خصوصی تعلیمی ادارے قائم کئے گئے۔ پنجاب اور بلوچستان کے لئے چیفس کالج جسے ایچیسن کالج بھی کہا جاتا ہے لاہور میں قائم کیاگیا۔ وہاں تمام سرداروں کی اولادیں مفت تعلیم حاصل کرتی رہیں۔ وہاں انہیں آدابِ غلامی اور آداب حکمرانی دونوں سکھائے جاتے اور بعد میں کچھ منتخب شدہ طلبا کو ڈیرہ دون ملٹری اکیڈمی بھیجا جاتا۔ ترجیحی بنیادوں پر انگلینڈ میں بھی تعلیم کا بندوبست کیا جاتا۔ اس لئے سارے سردار اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ اس وقت سے یہی رواج ہے کہ سردار اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو۔ قبیلے کا امیر ترین شخص ہو۔ تمام سہولتیں حاصل ہوں لیکن قبیلے کو ہر صورت میں تعلیم و تہذیب سے دور کھا جائے۔تعلیم کی کمی کی وجہ سے ہی تمام قبائلی سرداروں نے اب تک عوام کو بھیڑ بکریوں کی طرح رکھا ہوا تھا۔ لیکن اب تعلیم عام ہونے سے جہاں جہاں لوگوں کو روزی کے ذرائع میسر آئے ہیںوہاں سرداری نظام خود اپنی موت مر گیا ہے۔ اس کی بہترین مثال تربت اور مند کا علاقہ ہے۔اسی طرح مکران کے ساحلی لوگ مچھیرے ہیں۔روزی کے لئے سردار پر انحصار نہیں کرنا پڑتا لہٰذا وہاں بھی سرداری نظام ختم ہوگیا ہے۔وہاں نوجوان نسل تعلیم کی طرف راغب ہے ۔
بلوچستان کے پسماندہ ساحلی علاقے اوڑماڑہ کے لوگ جہاں ملک کے دوسرے شہروں کے برابر ترقی کے منتظر ہیں وہیں یہاں کے بچوں ،میں تعلیم سے لگن اور وطن سے محبت کسی سے کم نہیں۔یہ بچے بلوچستان کے ان اضلاع سے تعلق رکھتے ہیں جن کے بارے میں سیاسی راہداریوں اور ذرائع ابلاغ میں عمومی طور پر یہ غلط تاثر پایا جاتا ہے کہ یہاں کے عوام پاکستان سے لاتعلق یا علیحدگی پسند ہیں۔ تربت ، خضدار اور آواران کے یہ بچے، پاکستانی ہونے پر فخر کرتے ہیں۔ پھول جیسے ان بچوں کی ہر نئی صبح کا آغاز سرزمین پاکستان سے اندھیروں کے خاتمہ کی دعا سے ہوتا ہے۔ ان بچوں کے علاقوں میں اسلحہ کو مرد کا زیور سمجھا جاتا ہے اور اسلحہ کے زور پر ہی ہر کام کیا جاتا ہے، مگر یہ بچے قلم کو اپنی طاقت بنانا چاہتے ہیں اور علم کو اپنا زیور پاکستان کے ساحلی علاقوں کے ان بچوں کے دلوں میں وطن کی محبت زندہ و تابندہ ہے۔ یہ کمسن بچے سبز ہلالی پرچم کے سائے میں کھڑے ہوکر ہر صبح اس پرچم کی سربلندی اور وطن کی ترقی کا عزم کرتے ہیں۔بلوچستان میں تعلیم عام ہونے کی وجہ سے محب وطن بلوچ غیر ملکی اسپانسرڈ دہشت گردی کو مسترد کر کے قومی دھارے میں شامل ہو رہے ہیں۔ بھٹکے ہوئے بلوچوں کی جانب سے خود احساسی سول ملٹری لیڈر شپ کی انتھک کوششوں کی کامیابی کی عکاس ہے۔
دہشت گرد پاکستان کی سا لمیت کو نقصان پہنچانے کے لیے گھناؤنی حرکتیں کررہے ہیں اور ان کے تانے بانے انڈین خفیہ ایجنسی را ،اسرائیلی موساد اور امریکن سی آئی اے سے ملتے ہیں۔دشمن قوتیں پاکستان میں انتشار،دہشت اور خوف کی فضاقائم کرنا چاہتی ہیں۔غیر ملکی طاقتیں پاکستان کے وجود کو تسلیم کرنے کوتیار نہیں۔ وہ جنوبی ایشیا میں بھارت کو چودھراہٹ دینا چاہتی ہیں تاکہ چین اور پاکستان کو ترقی کرنے سے روکا جاسکے۔پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے خلاف سازشیں اس کی واضح مثال ہے۔ مودی کی خصوسی ہدایات پر بھارتی خفیہ ادارے ”را” کی نگرانی میں پاک چین اقتصادی راہداری کو ناکام بنانے کیلئے خصوصی ڈیسک بناکر اس بڑے ٹاسک کیلئے بہت بڑی رقم بھی فراہم کی گئی۔ ہمارے حساس اداروں کے پاس تمام ثبوت اور شواہد موجود ہیں کہ را نے پاک چین راہداری منصوبے کو سبوتاژ کرنے کیلئے کا م شروع کر رکھا ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر