... loading ...
ب نقاب /ایم آر ملک
ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اڈیالہ میں مقید عمران کی للکار ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کا خوف ہے، اسٹیٹس کو کے ساتھ کھڑی اُن قوتوں کیلئے خطرے کا نشان ہے جو دانشوری کے نام پر 25کروڑ عوام کے پر نوچتے رہے، ایک مخصوص ذہنیت مستقبل میں خود کو موت سے دوچار ہوتا دیکھ رہی ہے،وہ جگہ جہاں 1940میں ایک قرارداد ایسے علیحدہ وطن کے قیام کیلئے پاس ہوئی جہاں احتجاج بنیادی حق تصور کیا گیا وہاں مسلم لیگ کی وراثت کا دعویٰ کرنے والوں نے کنٹینر لگا کر عوامی احتجاج کا حق سلب کرنے کی ناکام کوشش کی ، کئی روز سے ایک سوال کا سامنا ہے کہ کیا سول آمریت اور خاندانی بادشاہت کا جھوٹا جاہ و جلال اور اندھی طاقت موت سے دوچار ہونے والی ہے ؟
پنجاب میںلامحدود اختیارات رکھنے والی ریاستی پولیس کے اہلکاروں میں بھاری رقوم بانٹی جارہی ہے کہ جو اہلکار جمہور کی کمر پر زیادہ ڈنڈے برسائے گا اسے فارم 47کی وزیر اعلیٰ ”حسن ِ کارکردگی” کے ایوارڈ سے نوازے گی ،ناجائز حکمرانی کے تخت پر بر اجمان اسپیکر قومی اسمبلی کے ذریعے عدالت عظمیٰ کے اختیارات کو سلب کرنے والے جانے کونسے خوابوں کی دنیا میں مگن ہیں مگر وہ دن گئے جب خلیل خان فاختائیںاُڑایا کرتے تھے ، مگر ان کو کون سمجھائے کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا جاتا ہے نہ کہ تسلسل کو برقرار رکھا جاتا ہے ،جنوبی پنجاب کے معروف دانشور ملک احمد خان جن کا تعلق بھکر سے ہے ،وفاقی کابینہ کی طرف سے سپریم کورٹ ترمیمی پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس پر کہتے ہیں کہ ”جس پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کیلئے قاضی فائز عیسیٰ نے اس وقت کے چیف جسٹس سے جھگڑا کیا اور پانچ ماہ تک کیسوں کی سماعت نہ کی اب اس قانون کو ایک بار پھر بدلا جارہا ہے تاکہ اس کمیٹی میں چیف جسٹس کی کمزور پوزیشن کو مضبوط کیا جاسکے اک عرصہ سے پاکستان میں قانون سازی افراد کی خواہشات کے تابع رہی اسی وجہ سے باختیار اور طاقتور ہر بار قانون کی گرفت سے بچ نکلتے ہیں ”۔
عمران خان کی حب الوطنی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہے کہ اس نے عوام کی طاقت کوروک رکھا ہے مگر کب تک آئے روز مہنگائی کا پھیلتا ہوا عفریت اور مائوں کی گود میں بلکتے دم توڑتے بچے ،درختوں کی شاخوں اور پنکھوں سے جھولتی لاشیں ،امپورٹڈ حکمرانی کے خلاف ایک ایسی ایف آئی آر ہے جس میں مجرموں کی سزا ہی ان کا خواب ہے ،اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ سیاسی اور سماجی خاموشی میں گہرا شور بہت کم کانوں کو سنائی دیتا ہے کسی بڑے طوفان کے پھوٹنے کے آثار اور علامات کو بہت کم لوگ پرکھتے ہیں۔ عمران خان نے موجودہ نظام کے خلاف جس طرح انقلابی بغاوت اور عوامی سر کشی کی بنیاد رکھی، اِ س کی اُمید بہت کم تھی مگر یہ بغاوت ،یہ عوامی سرکشی اس نہج پر آگئی کہ یہ دو نظریوں کی جنگ بن گئی وہ ساری قوتیں جو ”خاندانی سیاست بچائو ”کی حامی تھیں عوام کے بنیادی حقوق کے استحصال پر جن کی سیاست کی سانسیں چل رہی تھیں اُن کو اپنی ”سیاست ”کا دم گھٹتا ہوا محسوس ہوا تو ایک جعلی فورم پر اکٹھی ہو گئیں اور ”بادشاہ سلامت ”کو بچانے کیلئے اُن کا منافقانہ کردار اُبھر کر سامنے آیا۔
حیف کہ 25کروڑ عوام کے اذہان میں ایک مخصوص ذہنیت کی غلامی کا زہر بھرنے والے بکے ہوئے دانشور ،تجزیہ نگار عوامی انقلاب کے امکانات کو اپنی تحریروں ،تجزیوں میں مسترد کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ وہ عوام دشمن ،وطن فروش افراد ہیں جو اپنی سوچ کے اندھے آئینے میں جابر حکمرانو ں کو مسیحا دکھانے میں پیش پیش ہیں ،ان منطقی فلسفہ اور سطحی سوچ کے حامل ”وظیفہ خور ”مفکرین کو اپنی بساط لپٹنے کی فکر ہے۔ یہ خوف لاحق ہے کہ اگر خاندانی جمہوریت کا خاتمہ ہوا تو ہم ”زیرو پوائنٹ ”پر کھڑے ہوں گے امریکہ کی ننگی تہذیب میں ”پاکستان کے ماجھے لوہار ”کے مسائل سے نابلد کوئی لے پالک مکتوب کے ذریعے اپنے آقائوں کی نمک حلالی میں مگن ہے۔ خاندانی حکمرانی کے مفادات کے تابع یہ نام نہاد حادثاتی فنکار ،جھوٹے اختلافات اور نان ایشوز عوام پر مسلط کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ ضمیر بیچ کر حقائق مسخ کرنے والے ان میڈیائی اداکاروں کے چہرے سے شہر اقتدار میں ”سنگجانی ”میں لگی عوامی عدالت نے نقاب کھینچ لیا ہے۔ نام نہادآئینی ترامیم ”مفادات بچائو ”جمہوریت کی آڑ میں ان کا حقیقی عوام دشمن چہرہ ننگا ہو چکا ہے اور آج جب وطن عزیز کا شعور جاگا ہے تو زرد صحافت کا لباس زیب تن کئے ان کالی بھیڑوں نے ”شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ”بننے کیلئے عوام پر رکیک حملے شروع کر رکھے ہیں ،ان چند کالی بھیڑوں کے کردار کو دیکھ کر اکثر دوست بھولپن میں مجھ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر میڈیا کے یہ افراد اسی طرح جھوٹ بولتے رہے تو عوام کو سچائی کا ادراک کیسے ہوگا ؟عوامی انقلاب کی راہ کیسے متعین ہوگی ؟میں اُنہیں یہ کہہ کر مطمئن کرتا ہوں کہ 25کروڑ باسیوں کے درِ احساس پہ عمران کی دستک ایک کوڑا بن کر لپکی ہے ،عمران ،عدلیہ اور عوام ایک طرف کھڑے ہیں اور ا سٹیٹس کو کی ساری قوتیں دوسری جانب ناجائز حکمرانی کے حربوں میں انصاف اور عوام کو کچلنا چاہتی ہیں ،سجاد علی شاہ کے بعد متوقع چیف جسٹس منصور علی شاہ ان کا ہدف ہیں ،مگر اس بار ماضی ان کی نئی غلطیوں پر مسکرا رہا ہے ،یقین کی ہلاکت کے دھاگے بُن رہا ہے۔