... loading ...
حمیداللہ بھٹی
مصر اور اردن دو ایسے ممالک ہیں جو اسرائیل کے دوست اور ہمسایہ ہیں دونوں میں جوایک اور قدرمشترک ہے وہ یہ کہ مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کی نگہبانی کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں دونوں نے اسرائیل کو تسلیم کررکھاہے اور سفارتی تعلقات بھی قائم کررکھے ہیں ۔یہ عرب لیگ کو ایسے کسی بھی فیصلے سے روکتے ہیں جس سے اسرائیل ناراض ہوسکتا ہو جس کا صلہ ہے کہ اسرائیلی حملوں سے محفوظ ہیں اسرائیل کیا سوچتا ہے اور کیا چاہتاہے ؟یہ سب کچھ مذکورہ دونوں ممالک کی قیادت اچھی طرح آگاہ ہے ،صدرالسیسی اور شاہ عبداللہ دوم کو اگر اسرائیل کے مخلص دوست کہا جائے تو یہ بے جا نہ ہوگا۔
رواں ماہ دس دسمبر منگل کو ملک میں ہونے والے انتخابات میں اخوان المسلمون کی حزبِ اختلاف اور فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے نظریاتی اتحادیوں نے نمایاں کامیابیاں حاصل کرلی ہیں جس کی وجہ سے موجودہ وزیر اعظم بشیر خصاونہ کے لیے اقتدار میں مزیدعرصہ رہنا ممکن نہ رہا اس لیے کابینہ سمیت مستعفی ہو چکے ہیں۔ نئی حکومت کی تشکیل میں کوئی رکاوٹ نہ ہونے کے باوجود انتخابی نتائج بحران کا موجب بنتے ہیں یا استحکام کا باعث ،ابھی وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔اردن کے پارلیمانی انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں نے ملک بھر میں جس طرح حیران کُن اور قابلِ ذکر کامیابیاں حاصل کی ہیں اُس کی وجہ سے بڑی آسانی سے حکومت بنانے کی پوزیشن میں آتوگئی ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ ملک میں اقتدار و اختیار کے اصل مالک شاہ عبداللہ دوم کیا اِس نئی صورتحال کو قبول کرلیں گے ؟بظاہر وہ عوامی فیصلے میں رکاوٹ بنتے نظر نہیں آتے کیونکہ وزیرِ اعظم بشیر خصاونہ اور اُن کی کابینہ کا استعفیٰ قبول کرلیاگیا ہے اورانھیںنئی حکومت کی تشکیل تک کام جاری رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے جس سے ایسے اِشارے ملتے ہیں کہ وہ نئی صورتحال سے پریشان نہیں اور نہ ہی انتخابی نتائج کو اپنی بادشاہت کے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں بلکہ عوامی فیصلے کے مطابق اقتدار کی منتقلی پر آمادہ ہیں ۔
اردن کو مذہبی حوالے سے دیکھاجائے تو پچانوے فیصد سنی مسلمان ، تین فیصد عیسائی جبکہ دوفیصد دیگرمذاہب ہیں۔ اِس ملک کو 25 مئی1946کوآزادی ملی۔ رقبہ 89,342مربع کلو میٹر اور 2023 کی مردم شماری کے مطابق آبادی ایک کروڑ چودہ لاکھ چوراسی ہزار آٹھ سو پانچ نفوس پر مشتمل ہے۔ پیٹرولیم ریفائنری،سمینٹ اور فاسفیٹ جیسے کیمیکل کی اہم صنعتیںہیں۔ برآمدات میں کپڑے ،مختلف کیمیکل اور پوٹاش وغیرہ کااہم حصہ ہے جبکہ زیادہ درآمدات تیل،مشینری،خوراک ، بڑی گاڑیاں وغیرہ ہیں۔مغرب میں اسرائیل ،شمال میں شام،مشرق میں عراق،جنوب میں سعودی عرب ہے۔ یہ ملک اسرائیل کا اطاعت گزار ہے۔ شام کے دارالحکومت دمشق میں ایرانی سفارتخانے کو جب اسرائیلی فضایہ نے نشانہ بنایاتو تہران نے ایک شب کئی ڈرونز اور دیگر ہتھیاروں سے بدلہ لینے کی کوشش کی تو جہاں ایک طرف اسرائیل نے ڈرونزاور دیگر ہتھیاروں کو ناکارہ بنایا تو اردن نے بھی حملے میں استعمال ہونے والے ڈرونزاور دیگر ہتھیاروں کو ناکارہ بنانے میں غیر ضروری دلچسپی اور سرعت کا مظاہرہ کیا۔ اِس ملک کو اسرائیل خطرہ تصور نہیں کرتا بلکہ اپنا بااعتماد ہمسایہ خیال کرتا ہے ۔اردن میں آئینی بادشاہت ہے جس کی بنیادآٹھ جنوری 1952میں نافذ ہونے والے آئین پر رکھی گئی۔ یہاں بادشاہ اپنے اختیارات کا استعمال اپنی مقرر کردہ حکومت کے ذریعے کرتا ہے جو پارلیمنٹ کے سامنے کسی حد تک جوابدہ ہوتی ہے کیونکہ حکومت مقرر کرنے کا اختیار بادشاہ کے پاس ہے اسی بناپر حکومت کا بادشاہ کے احکامات کے خلاف جانے کا تصور نہیں کیا جاتا کیونکہ ایسے کسی اقدام کا مرتکب ہو نے والے کو معزولی جیسا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔
منگل کے انتخابی نتائج کی روشنی میں بادشاہ عبداللہ دوم نے جعفرحسان کوملک کا نیا وزیرِ اعظم مقررکیا ہے جنھوں نے امریکہ سے تعلیم حاصل کی ۔وہ ماضی میں وزیرِ منصوبہ بندی کے طورپر کام کرتے رہے ہیں۔ علاوہ ازیں اردن کے شاہ عبداللہ دوم کے دفتر کے سربراہ کی حیثیت سے بھی کام کر چکے ہیں۔معتمد خاص رہنے والے کی نامزدگی کو بادشاہ کی طرف سے عوامی فیصلے کو بے اثر بنانے کا حربہ کہا جارہاہے۔ سات فروری 1999کو بادشاہ بننے والے شاہ عبداللہ دوم کی پالیسیوں کے لیے حالیہ انتخابی نتائج کو تجزیہ کار ایک دھچکا قرار دیتے ہیں اور ایسی قیاس آرائیاں زور پکڑتی جارہی ہیں کہ اپنے والدشاہ حسین کے بعد سے پچیس سالہ حکمرانی میں شاہ عبداللہ دوم کو ایک مشکل صورتحال کا سامناکرناپڑرہا ہے ۔کچھ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ عرب بہار کے اثرات ابھی مکمل طورپر زائل نہیں ہوئے بلکہ کچھ اثر موجود ہے، اسی کا نتیجہ اردن کے انتخابی نتائج ہیں لیکن اکثریت کا خیال ہے کہ غزہ پر اسرائیل کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم نے اردن کی عوام کو جھنجوڑ ا ہے۔ شب و روزغزہ میں جاری اسرائیلی دہشت گردی اورفلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کے باوجود اردن کے شاہ کی خاموشی کو لوگوں نے پسند نہیں کیا جس کے نتیجے میںفلسطینی عسکریت پسندگروپ حماس کے نظریاتی اتحادیوں کو نمایاں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ بظاہر اصل اقتدار و اختیارکا مالک بادشاہ ہے اور پیش بندی کے طورپر انھوں نے اپنے معتمدکو وزیرِ اعظم کے منصب پرآگے لا کر عوامی فیصلے کو مات دے دی ہے مگر عوامی فیصلے کو یکسرردی کی ٹوکری میں ڈالنا ممکن نہیں رہا۔ نئی حکومت کی ترجیحات کہ آیا وہ شاہ کی وفاداری داری تک محدود رہے گی یا عوامی فیصلے کی روشنی میں غزہ کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کرے گی کو مدِ نظر رکھ کرہی بحران یا استحکام کے بارے میںکچھ کہا جا سکتاہے۔
اِس میں شائبہ نہیں کہ متوقع وزیر اعظم جعفر حسان کے لیے حالات کچھ زیادہ سازگار نہیں۔ مملکت کو اِس وقت کئی مسائل کا سامنا ہے نئی حکومت کے لیے معیشت پر غزہ جنگ کے اثرات کم کرنا بڑا چیلنج ہوگا کیونکہ اِس سے سیاحت میں بڑی کمی آچکی ہے جس کے باعث ملکی ذریعہ آمدن کم ہونے کے ساتھ سیاحت سے وابستہ کاروباری لوگ مشکل صورتحال سے دوچارہیں۔ سرمایہ کاری میں آنے والی کمی ایک اور بڑا مسئلہ ہے جس کا حل تلاش کرنااور حائل رکاوٹوں کو دورکرنا نئی حکومت کے لیے ایک اور دردِسر ہوگا۔ یہ ایسے مسائل ہیں جو صرف بادشاہ کی خوشنودی سے حل ہونے والے نہیں بلکہ ٹھوس اور نتیجہ خیز اقدامات کے متقاضی ہیں ۔نئے نامزد ہونے والے وزیرِ اعظم دوران تعلیم امریکہ میں رہائش پذیر رہے ۔اسی بناپر اُنھیں امریکہ اور اسرائیل کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے والا خیال کیا جاتا ہے مگر انتخابی نتائج کی روشنی میں عوام نے جو فیصلہ سنایا ہے اُس کا تقاضا ہے کہ بیرونی تائیدوحمایت کے ساتھ اندرونی استحکام پر توجہ دی جائے اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو ملکی مسائل حل ہونے کی بجائے اضافہ ہوگانیز بادشاہت کے لیے بھی خطرات جنم لیں گے ۔بیرونی دنیا اور بادشاہ کی حمایت برقراررکھنے کے ساتھ ملکی آبادی کومطمئن رکھنا اگر ضروری ہے توملک کو درپیش مسائل حل کرنے کے لیے بھی نئی حکومت کو لائحہ عمل بنانا ہوگا۔