وجود

... loading ...

وجود

بحران یا استحکام

جمعرات 19 ستمبر 2024 بحران یا استحکام

حمیداللہ بھٹی

مصر اور اردن دو ایسے ممالک ہیں جو اسرائیل کے دوست اور ہمسایہ ہیں دونوں میں جوایک اور قدرمشترک ہے وہ یہ کہ مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کی نگہبانی کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں دونوں نے اسرائیل کو تسلیم کررکھاہے اور سفارتی تعلقات بھی قائم کررکھے ہیں ۔یہ عرب لیگ کو ایسے کسی بھی فیصلے سے روکتے ہیں جس سے اسرائیل ناراض ہوسکتا ہو جس کا صلہ ہے کہ اسرائیلی حملوں سے محفوظ ہیں اسرائیل کیا سوچتا ہے اور کیا چاہتاہے ؟یہ سب کچھ مذکورہ دونوں ممالک کی قیادت اچھی طرح آگاہ ہے ،صدرالسیسی اور شاہ عبداللہ دوم کو اگر اسرائیل کے مخلص دوست کہا جائے تو یہ بے جا نہ ہوگا۔
رواں ماہ دس دسمبر منگل کو ملک میں ہونے والے انتخابات میں اخوان المسلمون کی حزبِ اختلاف اور فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے نظریاتی اتحادیوں نے نمایاں کامیابیاں حاصل کرلی ہیں جس کی وجہ سے موجودہ وزیر اعظم بشیر خصاونہ کے لیے اقتدار میں مزیدعرصہ رہنا ممکن نہ رہا اس لیے کابینہ سمیت مستعفی ہو چکے ہیں۔ نئی حکومت کی تشکیل میں کوئی رکاوٹ نہ ہونے کے باوجود انتخابی نتائج بحران کا موجب بنتے ہیں یا استحکام کا باعث ،ابھی وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔اردن کے پارلیمانی انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں نے ملک بھر میں جس طرح حیران کُن اور قابلِ ذکر کامیابیاں حاصل کی ہیں اُس کی وجہ سے بڑی آسانی سے حکومت بنانے کی پوزیشن میں آتوگئی ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ ملک میں اقتدار و اختیار کے اصل مالک شاہ عبداللہ دوم کیا اِس نئی صورتحال کو قبول کرلیں گے ؟بظاہر وہ عوامی فیصلے میں رکاوٹ بنتے نظر نہیں آتے کیونکہ وزیرِ اعظم بشیر خصاونہ اور اُن کی کابینہ کا استعفیٰ قبول کرلیاگیا ہے اورانھیںنئی حکومت کی تشکیل تک کام جاری رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے جس سے ایسے اِشارے ملتے ہیں کہ وہ نئی صورتحال سے پریشان نہیں اور نہ ہی انتخابی نتائج کو اپنی بادشاہت کے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں بلکہ عوامی فیصلے کے مطابق اقتدار کی منتقلی پر آمادہ ہیں ۔
اردن کو مذہبی حوالے سے دیکھاجائے تو پچانوے فیصد سنی مسلمان ، تین فیصد عیسائی جبکہ دوفیصد دیگرمذاہب ہیں۔ اِس ملک کو 25 مئی1946کوآزادی ملی۔ رقبہ 89,342مربع کلو میٹر اور 2023 کی مردم شماری کے مطابق آبادی ایک کروڑ چودہ لاکھ چوراسی ہزار آٹھ سو پانچ نفوس پر مشتمل ہے۔ پیٹرولیم ریفائنری،سمینٹ اور فاسفیٹ جیسے کیمیکل کی اہم صنعتیںہیں۔ برآمدات میں کپڑے ،مختلف کیمیکل اور پوٹاش وغیرہ کااہم حصہ ہے جبکہ زیادہ درآمدات تیل،مشینری،خوراک ، بڑی گاڑیاں وغیرہ ہیں۔مغرب میں اسرائیل ،شمال میں شام،مشرق میں عراق،جنوب میں سعودی عرب ہے۔ یہ ملک اسرائیل کا اطاعت گزار ہے۔ شام کے دارالحکومت دمشق میں ایرانی سفارتخانے کو جب اسرائیلی فضایہ نے نشانہ بنایاتو تہران نے ایک شب کئی ڈرونز اور دیگر ہتھیاروں سے بدلہ لینے کی کوشش کی تو جہاں ایک طرف اسرائیل نے ڈرونزاور دیگر ہتھیاروں کو ناکارہ بنایا تو اردن نے بھی حملے میں استعمال ہونے والے ڈرونزاور دیگر ہتھیاروں کو ناکارہ بنانے میں غیر ضروری دلچسپی اور سرعت کا مظاہرہ کیا۔ اِس ملک کو اسرائیل خطرہ تصور نہیں کرتا بلکہ اپنا بااعتماد ہمسایہ خیال کرتا ہے ۔اردن میں آئینی بادشاہت ہے جس کی بنیادآٹھ جنوری 1952میں نافذ ہونے والے آئین پر رکھی گئی۔ یہاں بادشاہ اپنے اختیارات کا استعمال اپنی مقرر کردہ حکومت کے ذریعے کرتا ہے جو پارلیمنٹ کے سامنے کسی حد تک جوابدہ ہوتی ہے کیونکہ حکومت مقرر کرنے کا اختیار بادشاہ کے پاس ہے اسی بناپر حکومت کا بادشاہ کے احکامات کے خلاف جانے کا تصور نہیں کیا جاتا کیونکہ ایسے کسی اقدام کا مرتکب ہو نے والے کو معزولی جیسا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔
منگل کے انتخابی نتائج کی روشنی میں بادشاہ عبداللہ دوم نے جعفرحسان کوملک کا نیا وزیرِ اعظم مقررکیا ہے جنھوں نے امریکہ سے تعلیم حاصل کی ۔وہ ماضی میں وزیرِ منصوبہ بندی کے طورپر کام کرتے رہے ہیں۔ علاوہ ازیں اردن کے شاہ عبداللہ دوم کے دفتر کے سربراہ کی حیثیت سے بھی کام کر چکے ہیں۔معتمد خاص رہنے والے کی نامزدگی کو بادشاہ کی طرف سے عوامی فیصلے کو بے اثر بنانے کا حربہ کہا جارہاہے۔ سات فروری 1999کو بادشاہ بننے والے شاہ عبداللہ دوم کی پالیسیوں کے لیے حالیہ انتخابی نتائج کو تجزیہ کار ایک دھچکا قرار دیتے ہیں اور ایسی قیاس آرائیاں زور پکڑتی جارہی ہیں کہ اپنے والدشاہ حسین کے بعد سے پچیس سالہ حکمرانی میں شاہ عبداللہ دوم کو ایک مشکل صورتحال کا سامناکرناپڑرہا ہے ۔کچھ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ عرب بہار کے اثرات ابھی مکمل طورپر زائل نہیں ہوئے بلکہ کچھ اثر موجود ہے، اسی کا نتیجہ اردن کے انتخابی نتائج ہیں لیکن اکثریت کا خیال ہے کہ غزہ پر اسرائیل کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم نے اردن کی عوام کو جھنجوڑ ا ہے۔ شب و روزغزہ میں جاری اسرائیلی دہشت گردی اورفلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کے باوجود اردن کے شاہ کی خاموشی کو لوگوں نے پسند نہیں کیا جس کے نتیجے میںفلسطینی عسکریت پسندگروپ حماس کے نظریاتی اتحادیوں کو نمایاں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ بظاہر اصل اقتدار و اختیارکا مالک بادشاہ ہے اور پیش بندی کے طورپر انھوں نے اپنے معتمدکو وزیرِ اعظم کے منصب پرآگے لا کر عوامی فیصلے کو مات دے دی ہے مگر عوامی فیصلے کو یکسرردی کی ٹوکری میں ڈالنا ممکن نہیں رہا۔ نئی حکومت کی ترجیحات کہ آیا وہ شاہ کی وفاداری داری تک محدود رہے گی یا عوامی فیصلے کی روشنی میں غزہ کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کرے گی کو مدِ نظر رکھ کرہی بحران یا استحکام کے بارے میںکچھ کہا جا سکتاہے۔
اِس میں شائبہ نہیں کہ متوقع وزیر اعظم جعفر حسان کے لیے حالات کچھ زیادہ سازگار نہیں۔ مملکت کو اِس وقت کئی مسائل کا سامنا ہے نئی حکومت کے لیے معیشت پر غزہ جنگ کے اثرات کم کرنا بڑا چیلنج ہوگا کیونکہ اِس سے سیاحت میں بڑی کمی آچکی ہے جس کے باعث ملکی ذریعہ آمدن کم ہونے کے ساتھ سیاحت سے وابستہ کاروباری لوگ مشکل صورتحال سے دوچارہیں۔ سرمایہ کاری میں آنے والی کمی ایک اور بڑا مسئلہ ہے جس کا حل تلاش کرنااور حائل رکاوٹوں کو دورکرنا نئی حکومت کے لیے ایک اور دردِسر ہوگا۔ یہ ایسے مسائل ہیں جو صرف بادشاہ کی خوشنودی سے حل ہونے والے نہیں بلکہ ٹھوس اور نتیجہ خیز اقدامات کے متقاضی ہیں ۔نئے نامزد ہونے والے وزیرِ اعظم دوران تعلیم امریکہ میں رہائش پذیر رہے ۔اسی بناپر اُنھیں امریکہ اور اسرائیل کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے والا خیال کیا جاتا ہے مگر انتخابی نتائج کی روشنی میں عوام نے جو فیصلہ سنایا ہے اُس کا تقاضا ہے کہ بیرونی تائیدوحمایت کے ساتھ اندرونی استحکام پر توجہ دی جائے اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو ملکی مسائل حل ہونے کی بجائے اضافہ ہوگانیز بادشاہت کے لیے بھی خطرات جنم لیں گے ۔بیرونی دنیا اور بادشاہ کی حمایت برقراررکھنے کے ساتھ ملکی آبادی کومطمئن رکھنا اگر ضروری ہے توملک کو درپیش مسائل حل کرنے کے لیے بھی نئی حکومت کو لائحہ عمل بنانا ہوگا۔

 


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر