... loading ...
سمیع اللہ ملک
وطن کی محبت ایمان کا تقاضا ہے۔ انسان کا اپنی جائے ولادت اور مسکن کے ساتھ محبت و یگانگت کا تعلق ایک فطری عمل ہے۔ نبی اکرم ۖ کی احادیثِ مبارکہ میں مکہ المکرمہ سے والہانہ محبت کا اظہار اسی حب الوطنی کا ثبوت ہے۔”اے مکہ!توکتناپیاراپیاراشہرہے،تومجھے کس قدرمحبوب ہے،اگرمیری قوم مجھے تجھ سے نہ نکالتی تومیں تیرے سواکسی دوسرے مقام پرسکونت اختیار نہ کرتا”۔کسی چیزکے ساتھ خالص محبت ترجیحات کے عملی تعین کی متقاضی ہوتی ہے۔اگرکسی مرغوب جگہ یاچیزکے ساتھ محبت والہانہ ہوتوفوقیات وترجیحات اورہوجاتی ہیں۔
اقبال کے اشعارسے ہی اس کاآغازکرتاہوں جہاں وہ فرماتے ہیں:
اس دورمیں مے اورہے،جام اورہے اورجم اور
ساقی نے بِناکی روشِ لطف وستم اور
مسلم نے بھی تعمیرکیااپناحرم اور
تہذیب کے آزرنے ترشوائے صنم اور
ان تازہ خداوں میں بڑاسب سے وطن ہے
جوپیرہن اس کاہے،وہ مذہب کاکفن ہے
موجودہ نظریہ قوم پرستی کومغربی طاقتیں ایک ہتھیارکے طورپراستعمال کرتی ہیں۔یایوں کہاجائے کہ وہ دیرینہ خواب جس کی تعبیرصلیبی جنگوں سے ان کوحاصل نہیں ہوسکی،وہ قوم پرستی سے حاصل کرناچاہتی ہیں۔ملتِ اسلامیہ کوتوڑنے میں استعماری قوتیں کافی حدتک کامیاب ہوگئی ہیں۔تاریخ شاہد ہے کہ دنیامیں بہت سی ایسی قومیں گزری ہیں جن کی مادی شان وشوکت سے دوسری قومیں لرزتی تھیں،مگربایں ہمہ گردشِ ایام انہیں حرفِ غلط کی طرح مٹادیا۔اس کی وجہ دین سے بیزاری اورنسلی و جغرافیائی طریقہ زندگی کوفوقیت دیناہے۔اس لیے کہ وطنیت،چاہے رنگ ونسل کی بنیادپرہو یا علاقائی حدبندی کی بنیادپر،انسانوں کو ایک دوسرے سے الگ تھلگ کرکے ہوس پرست بنادیتی ہے۔علامہ اقبال مسلمانوں کے ملی تصورکواجاگرکرنے فرماتے ہیں:
فردقائم ربطِ مِلت سے ہے،تنہاکچھ نہیں
موج ہے دریامیں اوربیرونِ دریاکچھ نہیں
اپنی اصلیت سے ہوآگاہ اے غافل کہ تو
قطرہ ہے لیکن مثالِ بحربے پایاں بھی ہے
یقین افرادکاسرمایہ تعمیرِملت ہے
یہی قوت ہے جوصورت گرِتقدیرملت ہے
قوم پرستی کا آغازمغرب میں انقلابِ فرانس یعنی1789کے بعدہوا۔مشہورقوم پرست جان جیک روسواس بات پرمصرتھا کہ انسان کوسب سے زیادہ تعلق اپنے گھراورملک سے ہوناچاہیے۔اس کاعقیدہ تھاکہ فردیاگروہ کی محبت اوروفاداری کامرکزومحوراس کا وطن ہوناچاہیے۔اس نے نوعِ انسانی کی اجتماعی،دینی اورسماجی نظام سے وابستگی کی شدید مخالفت کی۔مغربی مصنفین کی تحریروں سے عیاں ہے کہ وہ قوم پرستی،زبان،ملک اورنسل کووحدت کی بنیادقراردیتے تھے۔ان کااصرارہے کہ غیرکے مقابلے میں وطن کادفاع کرنازیادہ ضروری ہے،چاہے اس کاموقف صحیح ہویاغلط۔ چنانچہ قوم پرستی عوام کے جذبات سے کھیلنے، فوجوں کوحرکت میں لانے،ہمسایہ ملکوں کواپنی جارحیت کانشانہ بنانے،توسیع پسندی،قتل وغارت گری،بدعنوانی اورظلم وجبرکا ایک ذریعہ بن گئی ہے۔لیکن اس کے مقابلے میں اسلام اپناایک مستقل نظامِ فکررکھتاہے۔وہ انسان کی عملی،سیاسی،اجتماعی اورروحانی زندگی پرمحیط ہے۔اسی وجہ سے قوم پرستی کاملتِ اسلامیہ کے ساتھ ٹکراناناگزیرہے۔دونوں نظریات ایک دوسرے کے بالکل برعکس ہیں۔ملتِ اسلامی کی وحدت کی بنیادایک بین الاقوامی تصور پر مبنی ہے اوراس کی تشکیل عقیدے کی بنیادپرہوئی ہے۔اسی وجہ سے علامہ اقبال نے مذہب کوریڑھ کی ہڈی قراردیاہے۔
قوم مذہب سے ہے،مذہب جونہیں تم بھی نہیں
جذبِ باہم جونہیں،محفلِ انجم بھی نہیں
پھرایک اورجگہ فرماتے ہیں:
مذہب سے ہم آہنگیِ افرادہے باقی
دِین زخمہ ہے،جمعیت مِلت ہے اگرساز
پانی نہ مِلازمزمِ مِلت سے جواس کو
پیداہیں نئی پودمیں الحادکے انداز
جب مختلف قومیں کسی خاص مقام یاکسی ایک مرکزمیں اپنی قدرتی اورمناسب ترکیب وترتیب کے ساتھ مل جاتی ہیں توایک اجتماعیت وجودمیں آتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے جابہ جااجتماعیت کوقومی زندگی کی سب سے بڑی بنیاداورانسانوں کیلئیاللہ تعالی کی جانب سے بڑی رحمت و نعمت قراردیا ہے۔ ارشاد فرمایا: سب مل کراللہ کی رسی کومضبوطی سے پکڑلواورتفرقہ میں نہ پڑو،اوراللہ کی اس نعمت کویادکروکہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے،اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیداکردی اوراس کی نعمت سے تم بھائی بھائی بن گئے۔(آل عمران:103)
دورِجدیدمیں لوگوں نے قوم پرستی(یاوطن پرستی)سے متاثرہوکراخوت کے رشتے کوبری طرح پامال کیاہے۔اس کے نتیجے میں بنی نوع انسان قبیلوں میں تقسیم ہوگئے ہیں۔علامہ اقبال نے جب اس تصورکو مسلمانوں میں پنپتادیکھاتوانہوں نے وطنیت پرزبردست تنقید کی:
گفتارِسیاست میں وطن اورہی کچھ ہے
ارشادِنبوت میں وطن اورہی کچھ ہے
اقوامِ جہاں میں ہے رقابت تواسی سے
تسخیرہے مقصودِتجارت تواسی سے
اقوام میں مخلوقِ خدابٹتی ہے اس سے
قومیتِ اسلام کی جڑکٹتی ہے اس سے
خالی ہے صداقت سے سیاست تواسی سے
کمزورکاگھرہوتاہے غارت تواسی سے
یہ بت کہ تراشیدہ تہذیبِ نوی ہے
غارت گرِکاشانہ دینِ نبوی ہے
میں یہاں یہ بھی وضاحت کردوں کہ جدید مغربی افکار میں وطنیت اورقومیت قریب قریب ہم معنی ہیں۔ اقبال نے وطنیت کے سیاسی تصورکوجس بناپرردکیاتھاوہی وجہ مغربی نظریہ قومیت سے ان کی بدظنی کی بنیادبنی۔ان کاخیال تھاکہ قومیت کی ایک سیاسی نظا م کی حیثیت قطعاغیرانسانی اقدارپرمشتمل ہے۔اوراس کی بنیادپرایک انسانی گروہ دوسرے انسانی گروہ سے کٹ کررہ جاتاہے۔ اوربلاوجہ تنازعات کی بنیادپڑجاتی ہے جوبعض اوقات قیمتی انسانی جانوں کے اتلاف اوربلاخیزتباہی پرمنتج ہوتی ہے۔اسی نظام کو انہوں نے دنیائے اسلام کیلئیخاص طورپرایک نہایت مہلک مغربی حربے کی حیثیت سے دیکھااورجب ترکوں کے خلاف عرب ممالک نے انگریزوں کی مددکی توانہیں یقین ہوگیاکہ وطنیت اور قومیت کے مغربی تصورات مسلمانوں کیلئیزہرقاتل سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہورہے ہیں چنانچہ انہوں نے قومیت کے مغربی تصورکے مقابلہ میں ملت اسلامیہ کاتصورپیش کیااوریہ ثابت کیاکہ مسلمانانِ عالم کیلئے بنیادی نظریات اوراعتقادات کی روسے ایک وسیع ترملت کاتصورہی درست ہے اورقومیت کے مغربی نظریہ میں بحیثیت ملت ان کی تباہی کے بے شمار امکانات پوشیدہ ہیں۔اقبال قوم اورملت کومترادف الفاظ کے طورپراستعمال کرتے ہیں اور مسلمان قوم سے ان کی مرادہمیشہ ملت اسلامیہ ہوتی ہے۔اس بارے میں وہ اپنے مضمون میں تحریرفرماتے ہیں۔میں نے لفظ ملتقوم کے معنوں میں استعمال کیاہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عربی میں یہ لفظ اوربالخصوص قرآن مجید میں شرع اوردین کے معنوں میں استعمال ہواہے لیکن حال کی عربی،فارسی اورترکی زبان میں بکثرت سندات موجودہیں جن سے معلوم ہوتاہے کہ ملت قوم کے معنوں میں بھی مستعمل ہے۔آگے چل کرلکھتے ہیں: ان گزارشات سے میرا مقصدیہ ہے کہ جہاں تک میں دیکھ سکاہوں،قران کریم میں مسلمانوں کیلئیامت کے سواکوئی لفظ نہیں آیا۔ قوم ”رجال” کی جماعت کانام ہے۔یہ جماعت بااعتبارقبیلہ،نسل،رنگ، زبان،وطن اوراخلاق ہزارجگہ اورہزاررنگ میں پیداہوسکتی ہے۔لیکن ملتسب جماعتوں کوتراش کرایک نیااورمشترک گروہ بنائے گی۔گویا ملت یاامتجاذب ہے اقوام کی۔خودان میں جذب نہیں ہوتی۔
اقبال قومیت کے اس تصورکے خلاف ہیں جس کی بنیادرنگ،نسل،زبان یاوطن پرہو کیونکہ یہ حدبندیاں ایک وسیع انسانی برادری قائم کرنے میں رکاوٹ بنتی ہے۔ان کی قومیت کے اجزائے ترکیبی وحدت مذہب،وحدت تمدن وتاریخ ماضی اورپرامید مستقبل ہیں۔ جہاں تک مذہب کاتعلق ہے اسلام اسی ملت کی اساس ہے اوراسلام کاسب سے بڑااوربنیادی اصول توحید خداملی وحدت کا ضامن ہے۔اس کادوسرارکن رسالت ہے اوریہی دونوں اساس ملت ہیں۔نہ کہ وطن جوجنگ اورملک گیری کی ہوس پیداکرتاہے۔اسلام نے عالمِ انسانیت میں ایک انقلابِ عظیم کوبپاکرکے انسان کورنگ ونسل،نام ونسب اورملک وقوم کے ظاہری اور مصنوعی امتیازات کے محدوددائروں سے نکال کرایک وسیع ترہیئت اجتماعیہ میں متشکل کیا۔اقبال کے نزدیک یہہیئت اجتماعیہ قائم کرنا اسلام ہی کانصب العین تھامگربدقسمتی سے یہ وحدت قائم نہ رہ سکی اورمسلمان مختلف فرقوں،گروہوں اور جماعتوں میں بٹتے چلے گئے۔اقبال مسلمانوں کوپھراسی اخوت اسلامی کی طرف لوٹنے کی تلقین کرتے ہیں اورایک ملت میں گم ہو جانے کاسبق سکھاتے ہیں۔وہ ایک عالمگیرملت کے قیام کے خواہشمندہیں جس کاخدا،رسول،کتاب،کعبہ،دین اورایمان ایک ہو:
منفعت ایک ہے اسی قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کانبی دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی،اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جومسلمان بھی ایک
یہاں یہ بتادینابھی ضروری ہے کہ علامہ اقبال امت اسلامیہ کے اتحادمیں مغربی تصورِقومیت کونہایت تباہ کن خیال کرتے ہیں۔ان کے ہاں کارواں سے مرادمسلمانوں کی عظمت گزشتہ ہے وہ کہتے ہیں کہ رنگ،نسل،وطن،ذات اوربرادری اسلامی اتحاد قائم کرنے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔انہوں نے امت کوعالمگیریت کادرس دیا۔امت اسلامیہ کااتحادوحدت مذہب وتمدن پرقائم ہے۔علامہ اقبال جس قومیت کے قائل ہیں،اس کادائرہ اسلام کے اندرہے اوراس کی بنیادوہ دینی معتقدات پررکھتے ہیں۔لہذا وہ کہتے ہیں
قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذب باہم جو نہیں، محفل ِ انجم بھی نہیں
تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے
نشہ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم ِ رسولِ ہاشمی
دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی
ارادی طورپران پرعمل پیراہوناتاریکی کی جانب راغب ہونے کے مترادف ہے۔ دراصل کاروان سے مرادملت اسلامیہ ہے جوہرطرح کے جغرافیائی تصورسے بالاترہے۔ متاع کارواں دراصل تہذیب اسلامی ہے اوریہ تہذیب خدامرکزتہذیب ہے اوراسی وجہ سے یہ انسان مرکزتہذب بھی ہے۔دنیاکواسلام بطورمذہب قبول ہے لیکن بطورنظام زندگی قبول نہیں ہے۔اقبال کافلسفہ خودی اوراسلام کاتزکیہ نفس کاتصور ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔
سفریورپ کے بعدعلامہ کی شاعری نے قوم کوبیدارکردیا۔علامہ اقبال مسلمانوں کورنگ وخون کے بتوں کوتوڑکر ایک ملت کی شکل میں متحد ہونے کا مشورہ دیتے ہیں کیونکہ یہی ایک صورت ہے جس کے ذریعے مسلمان ایک زندہ قوم کی حیثیت سے اپناوجودبرقراررکھ سکتے ہیں ۔ ملک،قوم،نسل اور وطن کی مصنوعی حدبندیوں نے نوعِ انسانی کاشیرازہ منتشرکرکے رکھ دیاہیاوراس کاعلاج سوائے اس کے اورکچھ نہیں کہ اسلامی معاشرے کے تصور کورائج کیاجائے اورکم ازکم مسلمان خودکواسی معاشرے کاحصہ بنالیں،یہی مقصودِفطرت ہے،یہی رمزمسلمانی اخوت کی جہانگیری ، محبت کی فراوانی ہے اقبال کاتصورِملت ایک انقلابی نعرہ یاجذباتی فیصلہ نہیں جسے اقبال کے کلام میں دوامی حیثیت حاصل نہ ہو۔اورنہ ہی اقبال ملت کے اس تصورکاخالق ہے۔
جب اقبال کے ذہن میں ملت کاتصورابھرا،اس وقت دنیائے اسلام کی حالت ایک بیمارجسم کی سی تھی۔پہلی عالمی جنگ کے بعد مسلم ریاستیں حقیقی معنوں میں آزاداورخودمختارریاستیں نہ تھیں۔ترکی کی حالت ایک مڑے تڑے تاش کے پتے کی سی تھی۔ایران کے شمالی حصوں پرروس اورجنوبی حصوں پربرطانیہ کی حکمرانی تھی۔افریقااورمصرپریورپی اقوام قابض تھیں ۔افغانستان کے والی یوں توامیر کہلاتے تھے،مگران کی حیثیت وظیفہ خوار اور نوابینِ اودھ سے زیادہ نہ تھی۔انڈونیشیاولندیزیوں کے زیرسایہ سیاسی بیداری سے بے خبرتجارتی کاموں سے زیادہ مصروف تھا۔اورہندمیں مسلمان اقلیتوں کی زندگی بسرکررہے تھے۔اس حالت میں اقبال کاتصورِ ملت محض انقلابی نعرہ نہیں بلکہ ایک تہذیبی تاریخ کاحامل ہے۔
وطن دوستی کے شیدائی اقبال نے دیکھاکہ اقوام عالم وطن پرستی کے بھیس میں دوسری اقوام پرظلم کررہی ہیں۔علامہ اقبال کے عمرانی اورسیاسی افکار کے مطالعہ سے ہم جس نتیجہ پرپہنچتے ہیں وہ یہ ہے کہ علامہ اقبال مغربی جمہوریت کواس کے سیکولراورمادرپدرآزادہونے کی وجہ سے ناپسندکرتے تھے مگر جمہوری روح جس میں حریت فکراورآزادی رائے عام ہے کوقبول کرتے تھے۔وہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں میں نہ توسیکولر جمہوریہ آئے نہ لبرل ازم کے نام پربے راہ روی پیداہومگرعصرِحاضرمیں مسلمان جمہوری روح سے استفادہ کرکے خوداپنے نظام خلافت اجتہادکے ذریعہ ایک ایسے منتخب نظام میں بدل دیں جس میں فردسے زیادہ جماعت مقتدرہو۔ریاستِ اسلامی کی سیاسی،عمرانی اورمعاشی معاملات چلانے کیلئیایک منتخب ایوان تشکیل پائے جو ہماری عظیم فقہی روایات سے اصولی رہنمائی لے کرجدید عصری تقاضوں کے مطابق خودایک جدیدفقہی نظامِ مدنیت یانظامِ حیات متشکل کرے۔یہ ایک ایسا اصول ہوجس سے فردکاروحانی استخلاص ہوسکے اوراس بنیادی اصول کی عالمگیریت سے انسانی معاشرے کاارتقابھی روحانی اساس پرہوتا رہے ۔فردکے روحانی استخلاص اور انسانی معاشرے کے ارتقاکے اس بنیادی اصول کااستخراج اقبال کے ہاں کائنات کی روحانی تعبیر پرہے جومادے کے بارے میں جدیدطبیعات کے اس انکشاف کے بعدکہ مادہ قابل تحویل بھی ہے اورقابلِ فنابھی۔اقبال نے قرآن کے تصورِتوحیدپرایک نئی مابعدالطبیعات کو ایقان دیتے ہوئے اپنائی۔
ان باتوں سے ظاہرہوتاہے کہ اقبال اخوت کے قائل ہیں لیکن اس کی بنیاداسلام پررکھتے ہیں کیونکہ اسلام ضابطہ حیات ہے جس کے پاس وسیع انسانی مسائل کا حل موجود ہے وہ قومیت کو اسلام کے دائرہ میں اس لیے رکھتے ہیں کہ ان کے نزدیک صحیح انسانی معاشرہ صرف اسلامی اصولوں پرعمل پیراہونے سے وجودمیں آسکتاہے چنانچہ ان کے تصورقومیت کی بنیاد اسلامی معتقدات پرہے۔اس لئے جب انہوں نے تمام عرب کوخلافتِ عثمانیہ کے خلاف انگریزوں کی مددکی توانہیں یقین ہوگیاکہ وطنیت اورقومیت کے مغربی تصورات مسلمانوں کیلئے زہر قاتل ہیں۔ چنانچہ انہوں نے قومیت کے مغربی تصورکے مقابلہ میں ملت اسلامیہ کاتصورپیش کیااوریہ ثابت کیاکہ مسلمانانِ عالم کیلئے بنیادی نظریات اور اعتقادات کی روسے ایک وسیع ترملت کاتصورہی درست ہے۔آج ہم جن مشکلات کاشکارہیں،ان سے نکلنے کایہی طریقہ ہے کہ ہم بحیثیت مسلم امہ اقبال کے وسیع ترملت کواپناایمان اورایقان بنا لیں۔پھرہمیں امریکاجیسی سپرپاورسے خطرہ ہو گانہ معاشی مسائل کاسامناہوگابلکہ مسلم امہ خودایک سپر پاؤربن کرابھرے گی۔