وجود

... loading ...

وجود

بھارت میں سیاسی حقوق اور شہری آزادیاں سلب

منگل 17 ستمبر 2024 بھارت میں سیاسی حقوق اور شہری آزادیاں سلب

ریاض احمدچودھری

سال 2014ء میں نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد سے اب تک سیاسی حقوق اور شہری آزادیاں سلب کی جارہی ہیں اور 2019ء میں مودی حکومت کے بعد سے اس کے زوال میں بہت تیزی آئی ہے۔بھارت میں حزب اختلاف کی جماعت کانگریس پارٹی کے سرکردہ رہنما راہول گاندھی نے جمہوری اقدار کے نگراں سویڈن کے ایک ادارے کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ٹویٹ کیا، ”بھارت اب جمہوری ملک نہیں رہا”۔ سویڈن کے معروف ادارے ”وی ڈیم” نے بھارتی جمہوریت سے متعلق اپنی ایک تازہ رپورٹ میں بھارت کو”دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت” کے بجائے اس کا درجہ کم تر کرتے ہوئے اب اسے محض،”انتخابی جمہوریت” قرار دیا ہے۔ ادارے نے اپنی رپورٹ میں بھارتی حکومت کی جانب سے میڈیا پر پابندی، بغاوت اور ہتک عزت جیسے قوانین کے کثرت سے بے جا استعمال کا حوالہ دیا ہے۔بھارت اب آمریت پسند ہوچکا ہے اور اس کی صورت پڑوسی ملک بنگلہ دیش اور نیپال سے بھی بدتر ہے۔ مودی حکومت عموما اپنے ناقدین کو خاموش کرانے کے لئے بغاوت، ہتک عزت اور انسداد دہشت گردی جیسے قوانین کا استعمال کرتی ہے۔جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے اس وقت سے ساٹھ ہزار افراد کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا جا چکا ہے اور اس سلسلے میں بیشتر ایسے لوگوں کو ملزم قرار دیا گیا ہے جو حکمراں جماعت پر نکتہ چینی کرتے رہے ہیں۔
اس رپورٹ کو بھارت نے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد کے لئے متنازع قانون یو اے پی اے کے متعلق کہا گیا کہ اسے، صحافیوں اور سول سوسائٹی کو خاموش کرانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے جبکہ حکومت، آئین میں جن سیکولر اقدار کا عہد کیا گیا ہے اس کے خلاف کا م کر رہی ہے۔ رپورٹ میں شہریت سے متعلق بھارت کے نئے قانون سی اے اے کا بھی خاص طور پر ذکر ہے۔ اس بارے کہا گیا ہے کہ حکومت اس کے خلاف مظاہر ہ کرنے والے طلبا اور یونیورسٹی کے اساتذہ کو سزا دینے کے لئے بھی یو اے پی اے کا استعمال کر رہی ہے۔ جہاں ایک جانب حکومت نے سول سوسائٹی کو حتی الامکان دبانے کے لئے تمام طریقوں کا استعمال کیا ہے وہیں سخت گیر ہندو نظریاتی اداروں اور ان کی اتحادی تنظیموں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ بی جے پی نے سول سوسائٹی تنظیموں پر قد غن لگانے اور انہیں محدود کرنے کے لئے ”فارن کانٹری بیوشن ریگولیشن ایکٹ” (ایف سی آر اے) کا خوب استعمال کیا ہے۔بھارت میں ایمنسٹی انٹرنیشنل، گرین پیس اور آکسفیم جیسے متعدد بین الاقوامی ادارے اپنے آپریشنز کو محدود یا پھر مکمل بند کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل اور تنازعات کو سلجھانے سے متعلق غیر سرکاری تنظیم سینٹر فار ڈائیلاگ کا کہنا ہے حکومت کی طرف سے عطیات دینے والوں سے متعلق آئے دن کی پوچھ تاچھ اور اب ان کے ذریعے دی جانے والی مالی امداد کو بینک اکاونٹ میں جمع ہونے سے روکنے پر ان کا اسٹاف مالی اور ذہنی پریشانیوں کا شکار ہو گیا تھا۔ایمنسٹی کے مطابق اس کے اکاونٹ سیل کر دیے گئے تھے، جس کی وجہ سے وہ اپنے ملازمین کو مشاہرہ ہی نہیں دے پا رہے تھے۔ اس عالمی تنظیم سے حکومتیں خائف تو ہو سکتی ہیں، لیکن اس کی رپورٹیں، دستاویزات اور اعداد و شمار کی معتبریت پر آج تک کوئی انگلی نہیں اٹھا سکا ہے۔ بھارت میں اس کی موجودگی ملک کے لئے ہی باعث تفخر تھی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارت سے اپنی بساط لپیٹ کر اسٹاف کو خیر باد تو کر دیا ہے، مگر نہ جانے کیوں مجھے ایسا لگتا ہے کہ بھارت جیسا کثیر الجہتی ملک اور اس کا تکثیری معاشرہ زیادہ دیر تک ایمنسٹی جیسی تنظیم کے لئے اپنی سرحدیں بند نہیں رکھ سکتا۔
بھارتی لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف راہول گاندھی نے بھارت میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور مودی حکومت کی کرپشن سمیت دیگر اہم معاملات پر امریکی ایوان نمائندگان کے اراکین کے سامنے سوالات اْٹھا تے ہوئے کہا کہ بھارت میں جمہوریت کو ختم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ مودی حکومت کرپشن کے گراف میں سرفہرست ہے ۔اپوزیشن جماعتوں سمیت اقلیتوں پر ہونے والے مظالم نے وزیراعظم مودی کا بھیانک چہرہ سب کے سامنے بے نقاب کر دیا۔بھارت کو انتہا پسند ملک بنانے کی سازش ہو رہی ہے ، مودی حکومت انتہا پسند جماعت آر ایس ایس کے منشور کو ملک کا آئین بنانا چاہتی ہے ، اگر وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے تو سمجھ لیں بھارت میں جمہوریت کا خاتمہ ہو جائے گا اور انتہا پسند جماعتیں خطے کا امن چھین لیں گیں۔
برطانوی اخبار نے انکشاف کیا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بھارتی جمہوریت زوال کا شکارہے جہاں ووٹراپنی اقتصادی ترقی کے عوض سیاسی آزادی پر سودے بازی کے لیے تیزی سے آمادگی ظاہر کررہے ہیں۔ اخبار نے لکھاکہ بھارت بھی اسی راستے پر چل رہا ہے جو دوسری جنگ عظیم کے بعد جنوبی کوریا اور تائیوان سمیت مشرقی ایشیائی ممالک نے اختیار کیا تھا۔ ان ممالک نے آمروں کی قیادت میں تیز رفتار اقتصادی ترقی حاصل کی۔ مودی نے ساری طاقت وزیر اعظم دفتر میں مرکوز کررکھی ہے اور اختلاف رائے کو دبایا جارہاہے۔ بہت سے آزاد خیال بھارتی اب ملک کے بارے میں اس طرح باتیں کرتے ہیں جس طرح مشرقی ایشیا میں سنائی دیتی ہیں کہ بھارت میں اب بھی اظہاررائے کی آزادی ہے لیکن اظہاررائے کے بعد آزادی نہیں ہے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ترقی کامشرقی ایشیائی ماڈل طویل مدت میں پائیدار نہیں ہو سکتا کیونکہ رائے دہندگان بالآخر زیادہ سیاسی آزادی کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔
مودی کی ذات بی جے پی کی کامیابی کا ایک بڑا عنصر ہے اور جمہوریت کا زوال ا س وقت تک برقرار رہے گا۔جب تک وہ عہدے پر ہیں اور معاشی محاذ پر کام کرتے رہیں گے۔ جمہوریت زوال کا شکار ہے لیکن اس کا خاتمہ نہیں ہوا۔ رائے دہندگان ممکنہ ترقی کے لیے سیاسی آزادی پر سودے بازی پر آمادہ نظر آتے ہیں لیکن یہ سودا مودی کے ساتھ ہے۔ یہ صرف اس وقت تک قائم رہے گا جب تک وہ دفتر میں ہیں اور معاشی محاذ پر کام کرتے رہیں گے۔حال ہی میں عالمی سطح پر ایک اور رسوائی بھارت کے حصے میں آئی کہ امریکہ کے ایک آزاد ڈیموکریسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ فریڈم ہاؤس نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ بھارت میں سیاسی حقوق اور شہری آزادیاں بہت تیزی سے زوال کی جانب جارہی ہیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر