... loading ...
ریاض احمدچودھری
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں خاتم النبیین وسید المرسلین جناب محمد رسول اللہ ۖ کو یوں مخاطب ہوتے ہیں :”اور ہم نے آپ ۖکو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کیلئے رحمت۔”اللہ تعالیٰ نے مخلوقات عالم میں اپنا جذبہ رحمت سب سے زیادہ اپنے حبیب حضرت محمد مصطفی ۖ کو عطا فرمایا۔ جس طرح اللہ کی ذات بلا شریک تمام عالمین کا رب ہے اسی انداز میں رسول اللہۖ کی رحمت بھی تمام عالمین کے لیے ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی رشد و ہدایت کے لیے ہر دور میں پیغمبر و رسل بھیجے اور پھر اس سلسلہ کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم پر مکمل کردیا۔ کریم آقا سے پہلے تمام انبیاء نے آپ کے دنیا میں تشریف لانے کی خوشخبری سْنائی۔ بعینہ حضور خد اکی رحمتوںکا مظہر بن کر تشریف لائے۔ گو اللہ نے اپنے تمام انبیاء کو معجزات عطا فرمائے، کسی کو ایک، کسی کو دو کسی کو سات۔ لیکن حضور کی ذات پْرانوار خود ایک معجزہ تھا۔ آپ کا سونا، آپ کا جاگنا، آپ کا اْٹھنا، آپ کا بیٹھنا۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک شب حضور سو کر اْٹھے اور آپ نے بنا وضو نماز ادا کی، میرے استفسار پر حضور نے فرمایا ”میری آنکھیں سوتی ہیں مگر میرا دل جاگتا ہے”۔
پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اعجاز یہ تھا کہ آپ انسانوں، حیوانوں غرض جمیع مخلوقات کے لیے رحمت تھے۔ اسلام سے پہلے خواتین مردوں کے استبداد کا تختہ مشق بنی ہوئی تھیں، عرب میں ازدواج کی کوئی حد نہ تھی، جب کوئی شخص مر جاتا تو اْس کا بیٹا اپنی سوتیلی ماں کو وراثت میں پاتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے خواتین کی وہ حق رسی ہوئی کہ دنیا کے کسی مذہب میں نہیں پائی جاتی۔یتیموں اور غریبوں پر آپ بے حد شفقت فرماتے تھے، چنانچہ اپنی دو انگلیوں کو جوڑتے ہوئے فرمایا ”میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا بہشت میں یوں ہوں گے” بچوں پر آپ کی شفقت کی بیش بہا مثالیں موجود ہیں۔ ایک روز اْم قیس بنت محصن اپنے شیر خوار بچہ کو خدمتِ اقدس میں لائیں۔ آپ نے اْس بچہ کو اپنی گود میں بٹھا لیا۔ اْس نے آپ کے کپڑے پر پیشاب کردیا۔ آپ نے اس پر پانی بہادیا اور کچھ نہ کہا۔ آپ بچوں کو چومتے اور پیار فرماتے تھے۔ ایک روز آپ حضرت حسن بن علی کو چوم رہے تھے، حضرت اقرع بن حابس آپ کے پاس بیٹھے تھے ، دیکھ کر عرض کرنے لگے کہ میرے دس لڑکے ہیں میں نے اْن میں سے کسی کو نہیں چوما۔ آپ نے فرمایا ”جو رحم نہیں کرتا، اْس پر رحم نہیں کیا جاتا”۔ ایک بدو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کرنے لگا کہ آپ بچوں کو چومتے ہیں ہم نہیں چومتے۔ آپ نے فرمایا ”جب اللہ عزوجل تمہارے دل سے رحمت نکال دے تو میں کیا کرسکتا ہوں۔
رسول خداۖ کی رحمت کے لامحدود دائرے میں نہ صرف مومنین بلکہ کفار بھی شامل ہیں۔ یعنی آپۖ پر اس بات کا اثر ہوتا تھا کہ یہ کفار اپنے کفر پر باقی رہیں اور آخر کار جہنم کے حقدار ہوں۔ ان کے لئے ہمدردی کرتے تھے۔ آپۖ کی دعوت ان کافروں کو نجات دینے کے لئے تھی، کافروں کے ایمان نہ لانے پر خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے: اے ہمارے رسول!تم خود کو ہلاک کرنا چاہتے ہو ان لوگوں کے لئے جو ایمان نہیں لاتے ہیں۔ اسی طرح آپ ۖمتاثر ہوتے تھے کہ یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے، یہ لوگ نجات حاصل کیوں نہیں کرتے۔
رحمت اللعالمین کا کافروں کے لیے بھی رحمت ہونا اس اعتبار سے بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے کفر کے باوجود رسول خدا کے وجود کی برکت سے ان پر دنیوی عذاب نازل نہیں کرتا، جس طرح سابقہ قومیں جب انبیاء کے قہر و غضب کا شکار ہوتیں مختلف انداز سے ان پر عذاب الہی نازل ہوتا تھا۔ لیکن امت رسول کے کفار کو اللہ نے عذاب کو موخر کردیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: اور اللہ ان پر عذاب نازل نہیں کرے گا جب تک آپۖ ان کے درمیان میں موجود ہیں۔ مفسرین نے عالمین کی وسعتوں کو یوں بیان کیا ہے: اس کائنات ہستی میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ جملہ موجودات اور اس کی تمام مخلوقات سبھی عالمین کہلاتے ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے رحمت اللعالمین کی رحمت کو زمان و مکان، دوست و دشمن، انسان و حیوان کی تمام تر قیودات سے الگ کر کے بیان فرمایا آپۖ کی رحمت تمام عالمین تک پہنچنے کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ آپۖکی رسالت اور آپ ۖکا دین پورے عالم انسانیت کے لیے دنیا و آخرت کی خوش بختی اور سعادت کا باعث بنا اور دنیا کے تمام انسانی معاشروں میں آپ ۖکی دعوت توحید کے وہ درخشاں آثار نمایاں ہوئے جن کی بدولت انسانیت نے حق و حقیقت کے قریب آگئی۔
حضرت محمدۖ محسن انسانیت ہیں، انسان کامل ہیں اور ہر لحاظ سے قابلِ تقلید ہیں۔ آپۖ کی زندگی قیامت تک کے انسانوں کے لئے بہترین نمونہ ہے۔ بطور مسلمان ہمیں ہر وقت اللہ کریم کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے کہ اْس نے ہمیں آپۖ کا اْمتی بنایا۔ جو شخص دنیا میں آپۖ پر ایمان لائے گا اور آپۖ کی اطاعت و پیروی کرے گا اْسے دونوں جہانوں میں آپۖ کی رحمت سے حصہ ملے گا۔ ہمارے ایمان کا تقاضا ہے کہ ہم سیرتِ نبوی ۖکا مطالعہ کریں اور اپنی زندگی کے ہر پہلو میں نبی کریم ۖ کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہوں۔ آپ ۖکی سیرتِ طیبہ کو اپنے لئے مشعلِ راہ بنائیں تا کہ ہماری دنیا و آخرت دونوں سنور جائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات بابرکات ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ کیا ہم نے اس نمونہ میں سے اپنے لیے بھی کسی چیز کا انتخاب کیا ہے؟ آج جب اْمہ مسائل کا شکار ہے، اور نہ صرف بین الاقوامی سطح پر خاندانی سطح پر بھی باہمی پیار و محبت و یگانگت نفاق میں تبدیل ہوچکی ہے، ہمیں ضرورت ہے کہ اپنے نبی رحمت کے اسوہ حسنہ کی طرف دیکھیں، سب نہ سہی جو باتیں اْن کے طریق سے اختیار کرسکیں اْسے ہی قبول کرلیں۔ آج انقلاب کی باتیں تو ہوتی ہیں مگر کردار پیش نہیں کیا جاتا۔ آج ہمیں چاہئے کہ ہر فرد اپنی اپنی جگہ تبدیلی کا آغاز لائے اور یہی ربیع الاول میں ولادت رسول صلی اللہ علیہ وسلم منانے کا مقصد بھی ہے۔