وجود

... loading ...

وجود

گائے کے محافظ یا انسانیت کے دشمن؟

پیر 16 ستمبر 2024 گائے کے محافظ یا انسانیت کے دشمن؟

معصوم مرادآبادی

آج کل ہریانہ کے ایک ہندونوجوان آرین مشرا کے بہیمانہ قتل کا معاملہ سرخیوں میں ہے ۔ 19 سال کایہ نوجوان نویں کلاس کا طالب علم تھااور اپنے دوستوں کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر تفریح کرنے نکلا تھا۔ اس دوران نام نہاد گؤرکشکوں نے اس کا پیچھا کیا اور گائے کا اسمگلر سمجھ کر اس کے جسم میں کئی گولیاں پیوست کردیں۔بجرنگ دل سے تعلق رکھنے والے ان گؤرکشکوں کا سربراہ انل کوشک فی الحال سلاخوں کے پیچھے ہے ، جہاں مقتول آرین مشرا کے والد سیانند مشرانے اس سے ملاقات کرکے پوچھا ہے کہ آخر اس نے اس کے بیٹے کی جان کیوں لی؟ تو اس نے جواب دیا کہاس نے آرین مشرا کو مسلمان سمجھ کر گولی ماری تھی، لیکن اب وہ ایک برہمن کو مارنے پر پشیمان ہے ۔ فریدآباد کی مقامی جیل کا دورہ کرنے کے بعد سیانند مشرا نے دی پرنٹ کو بتایا کہ ان کے بیٹے کے قاتل انل کوشک نے ان کے پاؤں چھوئے اور معافی مانگی۔میں نے کوشک سے پوچھا کہ تم ایک مسلمان کو کیوں ماروگے ؟تم کارکے ٹائر پر گولی مارسکتے تھے یا پولیس کو بلاسکتے تھے ۔ قانون اپنے ہاتھ میں کیوں لیا۔ کوشک کے پاس ان سوالوں کا جواب نہیں تھا۔
ہمیں آرین مشرا کے والد سیانند مشرا سے ہمدردی ہے کیونکہ ان کا جواں سال بیٹاگؤرکشکوں کی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا ہے ، لیکن انھوں نے اپنے بیٹے کے قاتل سے جو سوال پوچھے ہیں، انھیں پوچھنے میں یقینا دیر کردی۔ اگر وہ یہی سوال اس سے پہلے گؤرکشکوں کے ہاتھوں وحشیانہ طورپر قتل کئے گئے ناصر اور جنید کے معاملے میں پوچھتے تو شاید ان کے بیٹے کی جان بچ سکتی تھی۔کیونکہ ہریانہ میں گؤرکشکوں کی دہشت گردی کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ وہاں گؤ رکشکوں کی مساوی حکومت قایم ہے اوروہ جب چاہتے ہیں گائے کا اسمگلر سمجھ کر کسی کی بھی جان لے لیتے ہیں۔اس معاملے میں انھیں حکومت اور پولیس کی سرپرستی حاصل ہے ۔اکثر پولیس ہی انھیں گؤرکشکوں کو سبق سکھانے کے لیے کہتی ہے ۔ ورنہ ان کے پاس ہتھیار اور قانون توڑنے کی ہمت کہاں سے آئی۔ ہریانہ میں اب تک گؤ رکشکوں نے جتنے بھی مسلم نوجوانوں کو گائے کا اسمگلر قرار دے کر موت کے گھاٹ اتاراہے ،ان میں پولیس نے محض رسمی کارروائی انجام دی ہے جس کی وجہ سے کسی بھی قاتل کو سزا نہیں مل سکی ہے ۔آرین مشرا کے قتل میں ملوث گؤرکشکوں کے بارے میں بھی یہی اطلاعات ہیں کہ ان کا پولیس سے رابطہ تھااور وہ اس طرح کی وارداتوں کو پولیس کی مدد سے انجام دیتے تھے ۔اس سلسلے میں انگریزی روزنامہ انڈین ایکسپریس نے چونکا نے والے انکشافات کئے ہیں۔
آرین مشرا کے قتل کے بعد دوسرا نمبر صابرملک کا تھا، جومغربی بنگال کا رہنے والا ایک غریب مزدور تھا۔ صابر ملک کوآرین مشرا کے قتل کے چارروز بعد اس شبہ کی بنیادپر بے دردی سے قتل کردیا گیا کہ اس نے گائے کا گوشت کھایا ہے ۔صابر ملک کے بہیمانہ قتل پر افسوس ظاہر کرنے کی بجائے ہریانہ کے وزیراعلیٰ نائب سنگھ سینی نے جو بیان دیا تھا، اس سے بھی نام نہاد گؤرکشکوں کو حکومت کی سرپرستی کا ثبوت ملتا ہے ۔ انھوں نے کہا تھا کہ ہم نے گائے کی حفاظت کے لیے سخت قانون بنائے ہیں۔ اس معاملے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔ لوگوں کو گائے سے بے پناہ عقیدت ہے اور اس سے ان کے جذبات جڑے ہوئے ہیں۔ جب ایسا واقعہ سامنے آتا ہے تو گاؤں کے لوگ ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔اس کے ساتھ وزیراعلیٰ نے یہ بھی کہا تھا کہ ‘میں اس بات پر بھی زور دیتا ہوں کہ لنچنگ کے واقعات افسوس ناک ہیں اور ایسا نہیں ہونا چاہئے ۔’ سچ پوچھئے تو وزیراعلیٰ سینی کے بیان کا پہلا حصہ ہی ان کے جذبات کا ترجمان ہے اور آخر میں انھوں نے جو کچھ کہا ہے وہ محض خانہ پری ہے ۔جب کسی صوبے کے وزیراعلیٰ کی سوچ ایسی ہو تو وہاں قانون کی حکمرانی کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے ۔
کون نہیں جانتا کہ بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں گؤ رکشکوں نے اپنی مساوی حکو مت قایم کررکھی ہے ۔ اگر کوئی واقعی شخص قانون شکنی کا ملزم ہے تو اسے سزا ضرورملنی چاہئے ۔ ہمارے قانون میں ہر جرم کی سزا متعین ہے اور اس کے لیے عدالتیں موجود ہیں۔ لیکن اگر کسی معاملے میں سزا دینے کا اختیار شرپسندوں کو دے دیا جائے تو ملک میں وہی سب کچھ ہوگا جو اس وقت بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں ہورہا ہے ۔ وہاں قانون نام کی کوئی چیز نہیں ہے ۔ سنگھ پریوار کے غنڈوں نے عوام کا جینا محال کررکھا ہے ۔ ہجومی تشدد روزمرہ کی چیز بن گئی ہے ۔ کسی بھی مسلمان کو گائے کاٹنے یا گائے کھانے کا قصوروار قرار دے کر اس کی جان لی جاسکتی ہے یا اسے بری طرح زدوکوب کیا جاسکتا ہے ۔ جس روز ہریانہ کے چرخی دادری میں صابرملک کو گائے کا گوشت کھانے کے الزام میں انتہائی بے دردی سے قتل کیا گیا، اسی روز مہاراشٹر کے ناسک ضلع سے یہ دلدوز خبر بھی آئی تھی کہ وہاں ٹرین میں سفر کررہے ایک باریش مسلمان کو گائے کا گوشت لے جانے کے شبہ میں زدوکوب کیاگیا۔ جلگاؤں ضلع کے باشندے حاجی اشرف منصوری اپنی بیٹی کے پاس کلیان جارہے تھے ۔ پولیس نے بزرگ مسافر پر حملے کے الزام میں جن تین نوجوانوں کو گرفتار کیا ان کی پہچان آکاش، نیلیش اور جیئش کے طورپر ہوئی، لیکن ان کو اگلے ہی روز ضمانت بھی مل گئی۔ کیونکہ ریلوے پولیس نے ان پر اتنی معمولی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا کہ انھیں شاید ہی کوئی سزا مل سکے ۔ایسے معاملات میں ہرصوبے کی پولیس کا رویہ ایک جیسا ہے ۔ خود ہریانہ میں صابر ملک سے پہلے جنید اور ناصر کو انتہائی وحشیانہ انداز میں قتل کیا جاچکا ہے مگر ان کے قاتل ابھی تک آزاد ہیں اور کسی کو کوئی سزا نہیں ملی ہے ۔ اس کے برعکس اگر بی جے پی کے اقتدار والی ریاست میں کوئی مسلمان کسی معمولی الزام میں بھی گرفتار ہوجائے توتمام قانونی ضابطوں کو پس پشت ڈال کر پہلے اس کا گھر مسمار کیا جاتا ہے اور پھر اس کا جینا حرام کردیا جاتا ہے ۔
ہریانہ کے چرخی دادری میں صابر ملک کے وحشیانہ قتل کے معاملے میں پولیس نے سات ملزمان کو گرفتار کیا ہے ۔ اطمینان بخش بات یہ ہے کہ مغربی بنگال حکومت نے صابر ملک کے پسماندگان کی مالی مدد کرنے کے علاوہ اس کی بیوہ کوسرکاری ملازمت دے دیہے ۔البتہ ہریانہ سرکار نے اس سلسلہ میں کوئی اعلان نہیں کیا ہے ۔ آرین مشرا کے والد نے یہ سوال بھی پوچھا ہے کہآخر کسی کو اس طرح گولی مارنے کا اختیار کس نے دیا ہے ؟ہمیں سیانند مشراسے پوری ہمدردی ہے کیونکہ ان کا جواں سال بیٹا نام نہاد گؤرکشکوں کی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا ہے ۔ مگر ہم انھیں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کسی نوجوان کو ان نام نہاد گؤرکشکوں نے اپنی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھایا ہے ۔ اس سے پہلے اس ملک میں درجنوں مسلم نوجوان نام نہاد گؤرکشکوں کی دہشت گردی اور بربریت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، لیکن وہ
چونکہ مسلمان تھے اس لیے کسی نے یہ سوال نہیں اٹھایا۔ آرین مشرا کیونکہ ایک ہندو نوجوان تھا اس لیے یہ سوال پیدا ہوا ہے ۔ ظاہر ہے جب ملک کے اندرقانون کی بجائیغنڈوں کی حکمرانی ہوگی اور قانون نافذ کرنے کاکام قانونی مشنری موالیوں کے حوالے کردے گی تو اس ملک میں اسی طرح صابر ملک اور آرین مشراموت کے منہ میں جاتے رہیں گے ۔ جب ہریانہ کا وزیراعلیٰ اور سرکاری مشنری ہی نام نہاد گؤ رکشکوں کے سیاہ کارناموں کا دفاع کرے تو وہاں نہ صابر ملک محفوظ ہے اور نہ آرین مشرا۔ نفرت کے ایجنڈے کا یہی انجام ہے ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر