... loading ...
سمیع اللہ ملک
اکثرنوجوان پوچھتے ہیں کہ پاکستان کیوں بنا؟ہندوستان کے سابقہ وزیرخارجہ اوربی جے پی کے لیڈرجسونت سنگھ کی متنازع کتاب جناح پارٹیشن انڈی پینڈینٹ جس میں قائداعظم کے بارے میں یہ تاثرکہ قائداعظم متحدہ ہندوستان کے حق میں تھے اوریہ پنڈت جواہر لال نہرواورپٹیل کی ضدکی بناپرمعرضِ وجودمیں آیا۔آج کوشش کروں گا کہ مختصراً ان دونوں سوالوں کا جواب تحریرکرسکوں۔
وہ جواس کے افکاراورنوعیت سے ناواقف ہوتے ہیں،وہ جواس وقت ایک مخصوص نوجوانوں کے گروہ کے دلوں میں اسلامی روح کی تڑپ کی بجائے ہندوستانی گانے،ہیجان انگیز فلمیں اوردلکش مناظربسے ہوئے ہیں،انہیں معلوم نہیں کہ پاکستان کی قیادت نے ظہورِپاکستان کیلئے اوردنیاکے نقشے پرایک نئے ملک لانے میں کتنی مشکلات کوسرکیاہوگا۔ ہندوستان کے مسلمان غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے،وہ ذہنی،جسمانی،معاشی اوراقتصادی افکارسے بے بہرہ تھے۔ان کے اوپرہندواورانگریزکی قوت کااثرتھا،لہندا مسلمان اپنی تخلیقی اہلیت اورہیئت اجتماعیہ اورانسانیہ کے فروغ وفراغ کیلئے وہ مقام حاصل نہ کرسکے۔تمام زندگی کاکاروبار،تعمیری قوت کا سرچشمہ ہندوکی تجارت تھی اورمسلمان ہندو کے مرہونِ منت تھے۔
انگریزوں خاص کرلارڈکیمبل کے زمانے میں کوئی آسامی نکلتی تواشتہارمیں یہ بھی تحریرکردیاجاتاکہ مسلمانوں کودرخواست دینے کی ضرورت نہیں۔ہندوتہذیب ذات پات پرمبنی ہے،وہ مسلمانوں کوبھی شودرسمجھتے تھے۔مسلمان مفلسی کی زندگی بسرکر رہے تھے اورکوئی کرن نظر نہیں آتی تھی کہ مسلمانوں کی کشتی کارخ یاسمندرکے پانی کے اس دھارے کوکس طرح بدلا جائے ؟مفکرپاکستان حکیم الامت علامہ اقبال نے کئی حیرت انگیزکارناموں کی بدولت ایک نئی سوچ سے روشناس کرایا۔انہوں نے اپنے تعمیری فلسفے کی قوت سے خطبہ الہ آباد میں مسلمانوں کوبیداری کی ایک نئی راہ دکھائی اورللکاراکہ مایوسی کی دلدل میں رہنے کی بجائے متحرک ہوکرغلامی کی زنجیروں کو توڑا جا سکتا ہے۔ قائداعظم جواس وقت ہندوستان کے مقتدرکانگریسی لیڈروں کی صفوں میں ایک نمایاں مقام پیداکرچکے تھے اورمسلم لیگ کے بھی شیدائی تھے، ان کوعصرِحاضرکے تقاضوں سے کماحقہ واقفیت تھی اورمستقبل پران کی نظر تھی۔انہوں نے بھی ٹھان لی کہ مسلمانوں کواندھیری راتوں سے روشن صبح کی طرف لایا جائے۔قائداعظم اوران کے رفقا نے بڑی محنت کی کیونکہ قرآن کی تعلیم ان کی مشعلِ راہ تھی ۔ایک مرتبہ قائداعظم نے فرمایا” اگرہم قرآن کریم سے ہدائت حاصل کرتے رہے توآخرفتح ہماری ہوگی”۔مزیدفرمایاکہ ہماری نجات اس اسوہ حسنہ پرچلنے میں ہے جوہمیں قانون عطا کرنے والے ربِ کریم نے ہمارے محبوب پیغمبراسلامۖکے ذریعے ہم تک پہنچایا۔
لہٰذایہ دونظریات تھے جس کی وجہ سے قائداعظم نے مسلمانوں میں مسلم لیگ کی تحریک کوایک نئے ولولے کے ساتھ پیش کیا اور مسلمانوںمیںجوش وخروش پیداکیااور1937سے لیکر1945تک ہندوستان میں ایک انقلاب آفرین تبدیلی آئی اوراسی لئے 1944 کے الیکشن میں مسلمانوں نے تمام ہندوستان کی سیٹوں پربھاری اکثریت حاصل کی۔ قائد اعظم ایک عظیم ہستی تھے،وہ آل انڈیامسلم لیگ کے صدرتھے اورلوگ ان کی بات نہ صرف سنتے تھے بلکہ اس پردل وجان سے عمل بھی کرتے تھے۔انہوں نے مسلم قومیت کوابھاراکہ تمام مسلمان ایک قوم ہیں اوراس قوم کیلئے اب ایک الگ ملک ہوناچاہئے۔انہوں نے ایک فقرہ میں کہا: قومیت کی تعریف جس طرح بھی کی جائے، مسلمان ہرتعریف کی روسے الگ قوم ہیں اورساتھ انہوں نے واضح کردیاکہ مسلمانوں کومتحدہ ہندوستان کاتخیل ہرگزقبول نہیں کیونکہ اس طرح وہ اپنی مسلمان قوم کوایک زبردست تباہی کی طرف نہیں دھکیل سکتے لہنداقائداعظم نے اپنی بصیرت سے وقت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اورمسلمانوں کومعاشی اعتبارسے فروغ دینے کیلئے تقسیمِ ہندکومسلمانوں کی بہتری کاذریعہ قراردیاکہ مسلمانوں کواپناالگ وطن چاہئے جہاں ہندوں کی طرح ذات پات کی کوئی تمیز نہ ہو۔مسلمانوں کیلئے خودمختارمعاشی فلاح وبہبود کے منصوبے ہوں جہاں مسلمان اپنی تہذیب وتمدن کی پرورش اورحفاظت کر سکیں،جہاں اخو ت ومساوات اورخوشحال معاشرہ ہو۔
قائداعظم نے فرمایا:ہم ایک خدا اورایک رسول اورایک امت پریقین رکھتے ہیں۔لہٰذاانہوں نے قراردیاکہ مسلمانوں کوایک ایسا معاشرہ چاہئے جوحریت وعدل،مساوات، اخوت، محبت اورباہمی احترام کے اصول پرقائم ہو،آقااوربندے کے درمیان تمیزہو،رنگ و نسل سے ہٹ کربنی آدم یکساں ہوں اوروہ اللہ کی زمین پرمسلمانوں کیلئے ایک نئی راہ نکال سکیں۔وہ اپنے ذہن میں ہندوستانی مسلمانوں کیلئے الگ وطن کاتصورپختہ کرچکے تھے،جہاں مسلمان عدل وانصاف اورآزادی سے رہیں اوراپنے جان ومال کی خودحفاظت کر سکیں۔
انہوں نے کہامیں پاکستان کیلئے لڑرہاہوں کیونکہ ہمارے مسائل کاعملی حل ہی پاکستان ہے۔میں نے اورمیرے رفقانے کانگریس میں رہ کردیکھاکہ کانگریسی قیادت مسلمانوں کے مسائل حل کرنے میں بالکل سنجیدہ نہیں،ان کارخ ہندواورہندوکلچرکوفروغ دینا ہے،لہنداان کے ساتھ زیادہ دیررہنانہ توسودمندہے اورنہ ہی ہماری نجات کاباعث ہے۔آپ نے علی الاعلان کہاکہ ہندواورانگریز دونوں متحدہیں اور مسلمانوں کوسخت ناپسند کرتے ہیں،ان کونقصان پہنچانے کے منصوبے بنارہے ہیں اس لئے مسلمان مزید محکومی کے دن نہیں گزار سکتے۔بنگال کے مسلمانوں کی حالت اتنی ناگفتہ بہ ہے کہ جب سے ایسٹ انڈیاکمپنی نے1753میں بنگال پرقبضہ کیاتومسلمانوں کا مستقبل مکمل طورپرخطرے میں پڑگیا،ان کی حالت خستہ وخوارہوگئی۔ایک وقت تھاکہ بنگال کے مسلمان اس خطہ پرقابض تھیاوراس وقت یہ مہذب ہندوستان کاخطہ تھا۔جب سے ایسٹ اندیا کمپنی نے قبضہ کیا،مسلمانوں کوان غیروں نے ذلیل زندگی گزارنے پر مجبور کردیا۔ قائداعظم نے وارننگ دی:ہندواورانگریز دونوں متحدہوکربھی ہماری روح کوفنا کرنے میں کبھی کامیاب نہ ہوسکیں گے،دو قومی نظریہ ایک صداقت ہے اورہم آزادی کواپنادستورسمجھتے ہیں۔
آپ نے کہاکہ:آل انڈیا مسلم لیگ کاسب سے بڑااصول یہ بھی ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی علیحدہ قومیت کی شناخت برقرار رکھی جائے۔ہندوستان کے مسلمانوں کومخاطب کرتے ہوئے مزیدکہاکہ وہی قومیں آزادی کے قابل تصورکی جاتی ہیں جنہوں نے کامیابی کے ساتھ آزادی کی جدوجہد کواپنی منزلِ مقصودتک پہنچایا۔قائداعظم نے 14/اگست 1948 کواپنے تاریخی خطاب میں فرمایا:یادرکھئے پاکستان کا قیام ایک ایسا واقعہ ہے جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں مل سکتی،یہ دنیاکی سب سے بڑی اسلامی سلطنت ہے،اگرہم نے دیانتداری، تندہی اوربے غرضی کے ساتھ کام کیاتویہ سال بہ سال ترقی کرتی رہے گی۔مجھے اپنے عوام پر کامل بھروسہ اوریقین ہے کہ ہرموقع
پروہ اسلام کی نشاطِ ثانیہ اورروایات کے مطابق عمل پیراہوں گے۔بلکہ قائداعظم کاخطاب علامہ اقبال کے اس شعرکی ترجمانی معلوم ہوتاہے:
عقابی روح جب بیدارہوتی ہے جوانوں میں
نظرآتی ہے ان کواپنی منزل آسمانوں میں
قائد اعظم نے کہاتھاکہ:ہماری تمناہے کہ ہماری قوم روحانی،اخلاقی،تمدنی،اقتصادی،معاشرتی،معاشی اورسماجی زندگی کوکامل نشوونما ملے،لہٰذاہم نے قوم کی حیثیت سے ملک حاصل کیا،ہمیں ایک قوم ہی رہناچاہئے،اگرہندوستان تقسیم نہ ہوتاتوآج ہم اقلیت میں ہوتے، محکوم ہوتے اورہندوکے مظالم کے سامنے بے بس ہوتے۔قائداعظم نے مزید ایک موقع پرفرمایا:ہندوستان کے انتہائی پیچیدہ مسئلے کا حل قیامِ پاکستان ہے اوراب پاکستان ایک اٹل حقیقت ہے،کیونکہ متحدہ ہندوستان کاتخیل ہرگزقابل عمل نہیں تھا اورہم کومتحدہ ہندوستان یقینا ایک تباہی کی طرف لیجاتا،اب آپ کودشمن کی ریشہ دوانیوں کوموزوں ترین جواب یہ دیناچاہئے کہ ہم اپنی مملکت کومضبوط اورمستحکم بنیادوں پرتعمیرکریں۔اب ہم اپنے ملک کے مالک ہیں،ہم نظم وضبظ خودچلارہے ہیں اورتمام کامیابیاں ذاتی کوشش اورمحنت سے حاصل کی جاتی ہیں۔
قارئین!اب آپ خوداندازہ لگالیں کہ قائد اعظم اورعلامہ اقبال متحدہ ہندوستان میں رہناچاہتے تھے یامسلمانوں کیلئے ایک الگ مملکت ان کی منزل تھی۔ہندوابھی تک قائد اعظم کی فراست کوماننے کیلے تیارنہیں کہ کس طرح انہوں نے پاکستان کاکامیاب مقدمہ لڑااوربالآخرایک علیحدہ مملکت مسلمانوں کیلئے معرض وجودمیں آئی۔