وجود

... loading ...

وجود

خالد شیخ محمد کا نائن الیون پر کھلا خط

جمعه 13 ستمبر 2024 خالد شیخ محمد کا نائن الیون پر کھلا خط

جاوید محمود

امریکہ میں 11ستمبر 2001کو ہونے والے 9/11حملوں کو 23 برس مکمل ہو گئے ہیں۔ امریکہ کے شہر نیویارک میں دہشت گردی کی وہ کارروائی ہوئی تھی جس نے دنیا کا منظر نامہ بدل کر رکھ دیا۔ 11ستمبر 2001کو نیویارک کے ور لڈ ٹریڈ سینٹر، پینٹاگون اور پینسلوانیا میں تیاروں سے حملے کیے گئے جس میں تقریبا تین ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے ۔تباہ ہونے والے چاروں طیاروں میں سوار مسافروں اور جہاز کے عملے کی تعداد 246تھی جن میں سے کوئی بھی زندہ نہیں بچ سکا ۔ان حملوں میں مرنے والے افراد کا 77مختلف ممالک سے تعلق تھا ۔حملے کے چند گھنٹے بعد ہی اس وقت کے امریکی صدر جارج بش نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا عندیہ دے دیا تھا۔ امریکہ نے اسی سال القاعدہ کو ذمہ دار قرار دے کر افغانستان پر حملہ کر دیا تھا جس کا آغاز 17اکتوبر کو افغانستان میں آپریشن اینڈ یورنگ فریڈم کے نام سے کیا گیا ۔نوگیارہ کے بعد دنیا بھر میں پاکستان امریکہ کا سب سے اہم اور دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن اتحادی بن کر سامنے آیا۔ سابق صدر پرویز مشرف نے جہاں افغان طالبان کے خلاف امریکی و نیٹو سپلائی کے لیے پاکستانی سرحدیں کھول دیں وہیں قوم کو بتائے بغیر کئی پاکستانی ہوائی اڈے اور دیگر عسکری سہولیات بھی امریکہ کو دے دی۔
دہشت گردی کی اس کارروائی نے دنیا کا منظر نامہ بدل کر رکھ دیا۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ٹوئن ٹاورز کے ملبے کو وہاں سے اٹھانے میں آٹھ ماہ لگے۔ گراؤنڈ زیرو پر ایک میوزیم بن چکا ہے اور اس کے ارد گرد مختلف ڈیزائن کی عمارتیں کھڑی ہو چکی ہیں۔ اب ٹوئن ٹاور کی جگہ ون ورلڈ ٹریڈ سینٹر یا فریڈم ٹاور تعمیر ہو چکا ہے جس کی اونچائی ایک ہزار1,776فٹ اونچی ہے اور تباہ ہونے والے شمالی ٹاور کی اونچائی 1368 فٹ تھی جس سے 408فٹ بلند ہے۔ پینٹاگون کی تعمیر نو میں ایک سال سے بھی کم وقت لگا اور اگر 2002میں پینٹاگون کا عملہ واپس اسی جگہ واپس پہنچ چکا تھا ۔نو گیارہ کا واقعہ ایک ایسا معمہ ہے جس پر سینکڑوں کتابیں شائع ہو چکی ہیں، فلمیں بنی ہیں۔ لیکن اس کے حقائق تک اب تک کوئی نہیں پہنچ سکا ۔
امریکہ میں 11ستمبر 2001کے حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ خالدشیخ محمد نے سابق صدربارک اوبامہ کے نام ایک خط لکھا ہے جس میں ان حملوں کو امریکی خارجہ پالیسی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی اموات کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے۔ اوباما کے نام اپنے خط میں خالد شیخ محمد نے لکھا ہے کہ 11 ستمبر کو یہ ہم نہیں تھے جنہوں نے جنگ شروع کی بلکہ یہ تم اور ہمارے ملکوں میں تمہارے ڈکٹیٹرز تھے۔ خالد شیخ محمد کی جانب سے 18 صفحات پر مبنی اس خط میں صدر اوباما کو ایک ظالم اور جا بر ملک کا رہنما اور سانپ کا سر قرار دیا گیا۔ اس خط پر 8جنوری 2015 کی تاریخ درج ہے جبکہ یہ خط تقریبا دو سال کی تاخیر سے بارک اوباما کی مدت صدارت کی تکمیل سے کچھ روز قبل وائٹ ہاؤس پہنچا ۔اس خط میں لکھا گیا ہے یہ جنگ ہم نے شروع نہیں کی تھی بلکہ ہمارے علاقوں پر تم نے پہلے قبضہ کیا تھا ، بتایا گیا ہے کہ یہ خط تب اپنی منزل کی جانب روانہ کیا گیا جب ایک ملٹری جج نے گوانٹا نامو بے کے حراستی کیمپ کو اس خط کو بھیجنے کے احکامات جاری کیے۔ اس خط میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکہ کے ہاتھ غزہ میں مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ اس خط کی ایک نقل وکیل صفائی ڈیوڈ نوئن نے جاری کی ہے اور بتایا ہے کہ خالد شیخ محمد نے یہ خط 2014میں لکھنا شروع کیا تھا۔ ابھی یہ خط امریکی فوج کی گوانتانامو بے کی سماعتوں سے متعلق ویب سائٹ پر شائع نہیں کیا گیا ہے۔ خالد شیخ محمد نے لکھا ہے کہ 11ستمبر 2001کے روز خدا ان ہائی جیکرز کے ساتھ تھا جنہوں نے طیارے نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ ٹاؤرز کی جڑواں عمارتوں کے ساتھ ساتھ امریکی محکمہ دفاع اور پنسلوانیامیں ایک کھیت سے ٹکرائے۔ اللہ نے نائن الیون کرنے سرمایہ دارانہ معیشت کو تباہ کرنے اور تمہارے جمہوریت اور آزادی کی طویل عرصے سے چلے ا رہے دعوے کی منافقت کا پول کھولنے میں ہماری مدد کی۔ اس خط میں خالد شیخ محمد نے ویتنام سے لے کر ہیروشیما اور ناگا ساکی پر گرائے گئے ایٹم بموں تک امریکہ کی طرف سے کیے گئے بے رحمانہ اور وحشیانہ قتل عام کے واقعات کا ذکر کرنے کے بعد اپنے غم اور غصے کا نشانہ اسرائیل اور قابض یہودیوں کے لیے امریکی حمایت کو بنایا ہے اور فلسطینیوں کی حالت زار کا نقشہ کھینچا ہے۔
ابتدائی پیراگراف میں لکھا گیا ہے کہ تمہارے ہاتھ ہمارے ان بہن بھائیوں اور بچوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں جو غزہ میں ہلاک کیے گئے۔ اس خط کے ساتھ خالد شیخ محمد نے 91صفحات پر مشتمل ایک مسودہ بھی روانہ کیا ہے جس کا عنوان ہے جب صلیبی جنگجو سزائے موت پر عمل درآمد کریں تو کیا میں مر جاؤںگا۔ موت کے بارے میں حقیقت اس کے ساتھ ساتھ ہاتھ سے پھانسی کے پھندے کی ایک تصویر بنائی گئی ہے ۔واضح رہے کہ خالد شیخ محمد کو تقریبا تین ہزار انسانوں کی موت کا باعث بننے والے 11ستمبر 2001کے حملوں کی منصوبہ بندی کے الزام میں سزائے موت ہو سکتی ہے۔ تاہم اس کا کہنا ہے کہ وہ موت سے خائف نہیں ہے۔ اس نے اس خط میں لکھا ہے کہ میں موت کے بارے میں مسرت کے ساتھ بات کرتا ہوں۔ خالد شیخ محمد کو امریکہ سے باہر کسی جگہ واقع سی آئی اے کی ایک خفیہ جیل میں رکھا گیا ہے اور اسے مارچ 2003میں183مرتبہ واٹر بورڈنگ کے عمل سے گزارا گیا جس میں انسان کو ایسا لگتا ہے کہ وہ ڈوب رہا ہے اس خط میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ اگر آپ کی عدالت نے مجھے عمر قید کی سزا دی تو بھی مجھے خوشی ہوگی کہ میں باقی ساری زندگی خدا کی عبادت کرتے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے گزار دوں گا اور اگر مجھے موت کی سزا دی گئی تو میں خوش ہوں گا کہ اپنے اللہ سے اور پیغمبروں سے جا کر ملوں گا اور ان بھائیوں سے ملاقات کروں گا جنہیں آپ نے دنیا بھر میں ناانصافی سے کام لیتے ہوئے مار ڈالا اور جا کراسامہ بن لادن کو دیکھوں گا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر