... loading ...
جاوید محمود
امریکہ میں 11ستمبر 2001کو ہونے والے 9/11حملوں کو 23 برس مکمل ہو گئے ہیں۔ امریکہ کے شہر نیویارک میں دہشت گردی کی وہ کارروائی ہوئی تھی جس نے دنیا کا منظر نامہ بدل کر رکھ دیا۔ 11ستمبر 2001کو نیویارک کے ور لڈ ٹریڈ سینٹر، پینٹاگون اور پینسلوانیا میں تیاروں سے حملے کیے گئے جس میں تقریبا تین ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے ۔تباہ ہونے والے چاروں طیاروں میں سوار مسافروں اور جہاز کے عملے کی تعداد 246تھی جن میں سے کوئی بھی زندہ نہیں بچ سکا ۔ان حملوں میں مرنے والے افراد کا 77مختلف ممالک سے تعلق تھا ۔حملے کے چند گھنٹے بعد ہی اس وقت کے امریکی صدر جارج بش نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا عندیہ دے دیا تھا۔ امریکہ نے اسی سال القاعدہ کو ذمہ دار قرار دے کر افغانستان پر حملہ کر دیا تھا جس کا آغاز 17اکتوبر کو افغانستان میں آپریشن اینڈ یورنگ فریڈم کے نام سے کیا گیا ۔نوگیارہ کے بعد دنیا بھر میں پاکستان امریکہ کا سب سے اہم اور دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن اتحادی بن کر سامنے آیا۔ سابق صدر پرویز مشرف نے جہاں افغان طالبان کے خلاف امریکی و نیٹو سپلائی کے لیے پاکستانی سرحدیں کھول دیں وہیں قوم کو بتائے بغیر کئی پاکستانی ہوائی اڈے اور دیگر عسکری سہولیات بھی امریکہ کو دے دی۔
دہشت گردی کی اس کارروائی نے دنیا کا منظر نامہ بدل کر رکھ دیا۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ٹوئن ٹاورز کے ملبے کو وہاں سے اٹھانے میں آٹھ ماہ لگے۔ گراؤنڈ زیرو پر ایک میوزیم بن چکا ہے اور اس کے ارد گرد مختلف ڈیزائن کی عمارتیں کھڑی ہو چکی ہیں۔ اب ٹوئن ٹاور کی جگہ ون ورلڈ ٹریڈ سینٹر یا فریڈم ٹاور تعمیر ہو چکا ہے جس کی اونچائی ایک ہزار1,776فٹ اونچی ہے اور تباہ ہونے والے شمالی ٹاور کی اونچائی 1368 فٹ تھی جس سے 408فٹ بلند ہے۔ پینٹاگون کی تعمیر نو میں ایک سال سے بھی کم وقت لگا اور اگر 2002میں پینٹاگون کا عملہ واپس اسی جگہ واپس پہنچ چکا تھا ۔نو گیارہ کا واقعہ ایک ایسا معمہ ہے جس پر سینکڑوں کتابیں شائع ہو چکی ہیں، فلمیں بنی ہیں۔ لیکن اس کے حقائق تک اب تک کوئی نہیں پہنچ سکا ۔
امریکہ میں 11ستمبر 2001کے حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ خالدشیخ محمد نے سابق صدربارک اوبامہ کے نام ایک خط لکھا ہے جس میں ان حملوں کو امریکی خارجہ پالیسی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی اموات کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے۔ اوباما کے نام اپنے خط میں خالد شیخ محمد نے لکھا ہے کہ 11 ستمبر کو یہ ہم نہیں تھے جنہوں نے جنگ شروع کی بلکہ یہ تم اور ہمارے ملکوں میں تمہارے ڈکٹیٹرز تھے۔ خالد شیخ محمد کی جانب سے 18 صفحات پر مبنی اس خط میں صدر اوباما کو ایک ظالم اور جا بر ملک کا رہنما اور سانپ کا سر قرار دیا گیا۔ اس خط پر 8جنوری 2015 کی تاریخ درج ہے جبکہ یہ خط تقریبا دو سال کی تاخیر سے بارک اوباما کی مدت صدارت کی تکمیل سے کچھ روز قبل وائٹ ہاؤس پہنچا ۔اس خط میں لکھا گیا ہے یہ جنگ ہم نے شروع نہیں کی تھی بلکہ ہمارے علاقوں پر تم نے پہلے قبضہ کیا تھا ، بتایا گیا ہے کہ یہ خط تب اپنی منزل کی جانب روانہ کیا گیا جب ایک ملٹری جج نے گوانٹا نامو بے کے حراستی کیمپ کو اس خط کو بھیجنے کے احکامات جاری کیے۔ اس خط میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکہ کے ہاتھ غزہ میں مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ اس خط کی ایک نقل وکیل صفائی ڈیوڈ نوئن نے جاری کی ہے اور بتایا ہے کہ خالد شیخ محمد نے یہ خط 2014میں لکھنا شروع کیا تھا۔ ابھی یہ خط امریکی فوج کی گوانتانامو بے کی سماعتوں سے متعلق ویب سائٹ پر شائع نہیں کیا گیا ہے۔ خالد شیخ محمد نے لکھا ہے کہ 11ستمبر 2001کے روز خدا ان ہائی جیکرز کے ساتھ تھا جنہوں نے طیارے نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ ٹاؤرز کی جڑواں عمارتوں کے ساتھ ساتھ امریکی محکمہ دفاع اور پنسلوانیامیں ایک کھیت سے ٹکرائے۔ اللہ نے نائن الیون کرنے سرمایہ دارانہ معیشت کو تباہ کرنے اور تمہارے جمہوریت اور آزادی کی طویل عرصے سے چلے ا رہے دعوے کی منافقت کا پول کھولنے میں ہماری مدد کی۔ اس خط میں خالد شیخ محمد نے ویتنام سے لے کر ہیروشیما اور ناگا ساکی پر گرائے گئے ایٹم بموں تک امریکہ کی طرف سے کیے گئے بے رحمانہ اور وحشیانہ قتل عام کے واقعات کا ذکر کرنے کے بعد اپنے غم اور غصے کا نشانہ اسرائیل اور قابض یہودیوں کے لیے امریکی حمایت کو بنایا ہے اور فلسطینیوں کی حالت زار کا نقشہ کھینچا ہے۔
ابتدائی پیراگراف میں لکھا گیا ہے کہ تمہارے ہاتھ ہمارے ان بہن بھائیوں اور بچوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں جو غزہ میں ہلاک کیے گئے۔ اس خط کے ساتھ خالد شیخ محمد نے 91صفحات پر مشتمل ایک مسودہ بھی روانہ کیا ہے جس کا عنوان ہے جب صلیبی جنگجو سزائے موت پر عمل درآمد کریں تو کیا میں مر جاؤںگا۔ موت کے بارے میں حقیقت اس کے ساتھ ساتھ ہاتھ سے پھانسی کے پھندے کی ایک تصویر بنائی گئی ہے ۔واضح رہے کہ خالد شیخ محمد کو تقریبا تین ہزار انسانوں کی موت کا باعث بننے والے 11ستمبر 2001کے حملوں کی منصوبہ بندی کے الزام میں سزائے موت ہو سکتی ہے۔ تاہم اس کا کہنا ہے کہ وہ موت سے خائف نہیں ہے۔ اس نے اس خط میں لکھا ہے کہ میں موت کے بارے میں مسرت کے ساتھ بات کرتا ہوں۔ خالد شیخ محمد کو امریکہ سے باہر کسی جگہ واقع سی آئی اے کی ایک خفیہ جیل میں رکھا گیا ہے اور اسے مارچ 2003میں183مرتبہ واٹر بورڈنگ کے عمل سے گزارا گیا جس میں انسان کو ایسا لگتا ہے کہ وہ ڈوب رہا ہے اس خط میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ اگر آپ کی عدالت نے مجھے عمر قید کی سزا دی تو بھی مجھے خوشی ہوگی کہ میں باقی ساری زندگی خدا کی عبادت کرتے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے گزار دوں گا اور اگر مجھے موت کی سزا دی گئی تو میں خوش ہوں گا کہ اپنے اللہ سے اور پیغمبروں سے جا کر ملوں گا اور ان بھائیوں سے ملاقات کروں گا جنہیں آپ نے دنیا بھر میں ناانصافی سے کام لیتے ہوئے مار ڈالا اور جا کراسامہ بن لادن کو دیکھوں گا۔