... loading ...
ریاض احمدچودھری
وراثت کے سلسلے میں بھی مسلمانوں کے پاس ایک مکمل قانون ہے اور وہ بھی وفاقی قانون کے تحت محفوظ ہے، تو اس میں ترمیم کا حق ریاست کو کیسے حاصل ہے۔جنسوں کے درمیان وراثت کے حقوق کی برابری، جو کہ اسلامی قانون کے ان اصولوں سے متصادم ہے، جو قرآن میں موجود ہیں۔
ہندو غیر منقسم خاندان (ان ڈیوائڈیڈ ہندو فیلمی ایکٹ) کو اس میں شامل نہیں کیا گیا۔ کیوں؟ اگر آپ جانشینی اور وراثت کے لیے یکساں قانون چاہتے ہیں تو ہندوؤں کو اس سے باہر کیوں رکھا گیا ہے؟ کیا کوئی قانون اس صورت میں بھی یکساں ہو سکتا ہے، جب ریاست کی اکثریت پر وہ لاگو نہ ہوتا ہو؟ اور بھی کئی آئینی اور قانونی مسائل ہیں اور قبائلیوں کو اس سے کیوں الگ رکھا گیا؟ اگر ایک کمیونٹی کو مستثنیٰ حاصل ہے، تو کیا یہ یکساں ہو سکتا ہے؟
بھارتی آئین کے معمار ڈاکٹر امبیڈکر کے پوتے پرکاش امبیڈکر نے بھی اس پر تنقید کی اور کہا کہ “پارلیمنٹ یونیفارم سول کوڈ کو شہریوں پر “مسلط” نہیں کر سکتی کیونکہ آئین ہر شخص کو مذہبی آزادی کا حق دیتا ہے۔ کامن سول کوڈ پر جاری بحث سے یہ واضح ہے کہ ایک بار پھر یہ مسئلہ وسیع تر سماجی تناؤ اور سیاسی ایجنڈوں کے لیے ایک فلیش پوائنٹ بن سکتا ہے۔ مسلم تنظیموں کا کہنا ہے کہ ملک کی فرقہ پرست طاقتیں نت نئے جذباتی اور مذہبی مسائل کھڑے کر کے ملک کی اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں کو، مسلسل خوف اور انتشار میں مبتلا رکھنا چاہتی ہیں۔بھارت کی ریاست آسام میںاقلیتی برادری کے رہنماؤں کی مخالفت کے باوجود 89 سال پرانے نوآبادیاتی دور کے مسلمانوں کے شادی کے قانون کو ختم کر دیا گیا۔ اس قانون کے تحت مسلمانوں کو کم عمر اور نابالغ لڑکیوں سے شادی کا بھی حق حاصل تھا لیکن ناقدین نے انتخابات سے قبل اس اقدام کو بھارتیا جنتا پارٹی کی مذہبی بنیادوں پر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔
بھارت میں سب سے زیادہ 34فیصد مسلمان ریاست آسام میں بستے ہیں اور ریاست کے رہنماؤں کی جانب سے کہا گیا تھا کہ وہ ریاست اتراکھنڈ کی طرح شادی، طلاق، گود لینے اور وراثت کے حوالے سے یکساں شہری قوانین نافذ کرنا چاہتے ہیں۔آسام کے اکثر مسلمان بنگالی بولنے والے ہیں اور ان میں سے بڑی تعداد بنگلہ دیش سے تعلق رکھتی ہے اور اکثر مسلمان اور نسلی آسامیوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہو جاتی ہے جہاں ان مقامی افراد میں سے اکثر ہندو ہیں۔ملک بھر میں، ہندو، مسلمان، عیسائی اور دیگر مذاہب و روایات کے لوگ ایسے امور کے لیے اپنے اپنے قوانین اور رسم و رواج یا سیکولر ضوابط کی پیروی کرتے ہیں لیکن ایک عرصے سے چل رہے ان قوانین اور رسوم و رواج کے باوجود وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیا جنتا پارٹی نے ملک بھر میں یکساں شہری قوانین کے نفاذ کا وعدہ کیا ہے جس کی مسلمان برادری نے شدید مخالفت کی ہے۔مسلمان اپوزیشن رہنماؤں نے نوآبادیاتی دور کے قانون کی منسوخی کو امتیازی سلوک قرار دیا ہے۔ ہر مذہب کے اپنے اپنے رسوم و رواج ہیں اور ہزاروں سالوں سے ان پر عمل کیا جا رہا ہے، ان پرعمل جاری رہیگا، مسلمان شریعت اور قرآن پر عمل کریں گے، حکومت جتنے چاہے قوانین بنالے۔ عین انتخابات سے قبل وہ کچھ علاقوں میں مسلمانوں سے امتیازی سلوک کرکے ہندو ووٹروں کو بی جے پی کی طرف مائل کر رہے ہیں۔
بھارت کے بیشتر مسلم رہنماؤں نے یکساں سول کوڈ سے متعلق بل کی منظوری کی شدید مخالفت کی ہے۔ مسلم تنظیموں کا کہنا ہے کہ کوئی بھی قانون، جو شریعت کے خلاف ہو، مسلمانوں کو منظور نہیں ہے۔یہ قانون شادی، طلاق، جانشینی، وراثت اور لیو ان ریلشنز جیسے سویلین معاملات کے لیے ہے، جو پہلے مذہب کی بنیاد پر مسلم پرسنل لاء یا خصوصی ہندو قوانین کے تحت حل کیے جاتے تھے۔ مثلاً مسلم پرسنل لاء کے تحت مسلمانوں پر ایسے امور میں شرعیہ قوانین کا نفاذ ہوتا تھا۔ تاہم حکومت نے ان کی جگہ اب سب کے لیے یکساں قانون وضع کر دیا ہے، البتہ ریاست کی قبائلی برادری کو اس سے مستثنی رکھا گیا ہے کہا جا رہا ہے کہ اس قانون سے سب سے زیادہ مسلمان متاثر ہوں گے۔
کامن سول کوڈ کے اس قانون کے تحت دو شادیاں کرنا غیر قانونی ہو گا۔ طلاق اور شادی سے متعلق مذہبی نہیں بلکہ ریاستی قانون پر عمل ہو گا۔ مثلاً طلاق کے بعد ایک مسلم خاتون کو عدت گزارنے کی کوئی ضرورت نہیں اور وہ طلاق کے فوری بعد جب چاہے نکاح کر سکتی ہے۔ تین طلاق پر بھارتی حکومت پہلے ہی پابندی عائد کر چکی ہے اور اب ریاستی قانون کے تحت حلالہ کرنے پر بھی پابندی عائد ہو گی۔ کزن، یعنی چچا زاد، پھوپی زاد، خالہ زاد اور ماما زاد بہنوں، سے بھی شادی ممنوع ہو گی۔ وراثت میں اب بیٹے اور بیٹیوں کو برابر کا حق ہو گا، یعنی جنسی تفریق کو ہٹانے کی بات کہی گئی ہے، جبکہ مسلمان اس حوالے سے شریعت اور قرآن کے احکام پر عمل کرتے ہیں۔
بل پر سب سے پہلے بھارت کی معروف مسلم تنظیم جمعیت علماء ہند نے اس کی مخالفت میں صدا بلند کرتے ہوئے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی تھی۔ تنظیم کے صدر مولانا ارشد مدنی کا کہنا تھا کہ اس قانون سے “شریعت کے اصولوں کو براہ راست خطرہ لاحق ہے اور مذہبی تعلیمات سے متصادم کوئی بھی قانون مسلم کمیونٹی کے لیے قابل قبول نہیں ہو گا۔” انہوں نے بھارت میں سیکولرازم کی ممکنہ خلاف ورزیوں کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ یو سی سی کے نفاذ سے “بھارتی آئین کے بنیادی اصولوں کو نقصان پہنچے گا۔” کوئی بھی ایسا قانون جو شریعت کے خلاف ہو، ہمیں منظور نہیں ہے، کیونکہ مسلمان ہر چیز سے تو سمجھوتہ کر سکتا ہے، اپنی شریعت اور مذہب سے ہرگز کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتا ہے۔” یکساں سول کوڈ کا جو بل منظور ہوا ہے، اس میں درج فہرست قبائل کو بھارتی آئین کی دفعہ 366 کے تحت نئے قانون سے مستثنیٰ کر دیا گیا ہے اور یہ دلیل دی گئی ہے کہ آئین کی دفعہ21کے تحت ان کے حقوق کو تحفظ حاصل ہے۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ قانون مسلم برادری کو ٹارگیٹ کرنے کے لیے لایا گیا ہے، کیونکہ دوسروں کو تو اس کے تحت کافی امور میں استثنی حاصل ہے۔ وفاقی سطح پر کئی ایسے قوانین پہلے سے موجود ہیں، جن کے تحت شرعیہ ایکٹ کو تحفظ حاصل ہے، تو سوال یہ ہے کہ مسلم پرسنل لاء کے جو قوانین ہیں ان کو ریاست کیسے ختم کر سکتی ہے۔ریاست مرکزی قوانین کی مخالفت کرنے یا اسے میں ترمیم کرنے کی مجاز نہیں ہے۔