... loading ...
جاوید محمود
پاکستان کے سابق نگراں وزیراعظم نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران جب بیان دیا تھا کہ ایسی مہنگائی نہیں کہ احتیاط کی جائے، نے مجھے اور بہت سے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ یہ بیان فرانس کی ملکہ میری انٹونیٹ سے منسوب مشہور فقرے سے واضح مشابہت رکھتا تھا۔
1789 کے دوران فرانس کے عوام جب مہنگائی کے خلاف احتجاج کرنے پہ مجبور ہوئے تو ملکہ نے کہا کہ ان سے کہو روٹی نہیں ہے تو کیک کھا لیں۔ ملکہ کا یہ بیان جلتی پرتیل ڈالنے کے کام آیا، جب فرانس سب سے زیادہ مہنگائی ،بے روزگاری، طبقاتی تقسیم اور معاشی عدم استحکام کے مسائل کا سامنا کر رہا تھا۔ یہ مسائل کنگ لوئیس کی حکومت اور حکمران اشرافیہ کے خلاف عام لوگوں کی بغاوت کا سبب بنتے ہیں۔ انقلاب کو دہشت کے دور کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جس کے دوران عام لوگ فرانس کے بادشاہوں کے خلاف بغاوت کرنے پر کھڑے ہو گئے تھے انہوں نے اس کے خاندان کو پھانسی دے دی اور 1793سے 1794تک سینکڑوں افراد کو جیل میں ڈال دیا گیا ۔اس انقلاب کو اس دنیا کی تاریخ میں سب سے خونی سیاسی انقلاب کے طور پر یاد کیا جاتا ہے تاہم جب ہم فرانسیسی انقلاب کے پیچھے بنیادی وجوہات کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ فرانس میں سیاسی ہلچل پیدا کرنے میں کچھ مشترکہ عوامل اہم کردار ادا کرتے ہیں جن میںسیاسی جبر اور سماجی عدم مساوات ،معاشی مشکلات ،سیاسی نمائندگی کا فقدان، بدعنوانی اور بند انتظامی نظریاتی اور ثقافتی تبدیلیاں قیادت متحرک اور بیرونی عوامل شامل ہیں۔تا ہم یہ کہنا درست ہے کہ پاکستان ، فرانسیسی انقلاب کے دہانے پر ہے کیونکہ یہ ملک ان تمام مسائل سے دوچار ہے جس کا سامنا فرانس کر رہا تھا۔
پاکستان کی حالت انقلاب کے لیے تیار ہے ۔سیاسی جبر اور سماجی عدم مساوات پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جو انقلاب ِ فرانس کے حالات کا آئینہ دار ہے۔ پاکستان کے اعلیٰ طبقے کو قانون سے بالاتر سمجھ کر تمام سماجی وقار اور مراعات حاصل ہیں ۔انہوں نے ملک کی حکمرانی اور نظام عدل کو ہائی جیک کر لیا ہے ۔پاکستان کے نچلے اور متوسط طبقے کے شہری بنیادی ضروریات قانون کی حکمرانی سماجی مساوات اور انصاف کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال اور مالیاتی بحران ملک کو انقلاب کی طرف لے جا رہا ہے۔ معاشی پالیسیوں نے ملک کو مالی بحران اور معاشی بدحالی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ سیاست دانوں ،وزیروں، تاجروں، مذہبی علماء ،سول اور ملٹری بیوروکریٹس کا بے دریغ خرچ اور کرپشن اور غریبوں سے رجعتی بالواسطہ ٹیکس بھی انتشار کا بیج بونے والا ہے۔ بے روزگاری، مہنگائی اور دیگر اہم اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے نے ایندھن چینی آٹا اور بجلی کے بلوں میں اضافے سے لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور انہیں مزید غیر محفوظ بنا دیا ہے۔ اس سے انقلاب پسندی کے ساتھ طبقاتی تقسیم بھی بڑھنے والی ہے۔ عوام کی اکثریت اب دو فیصد اشرفیہ کو پاکستان کا مافیا سمجھ رہی ہے۔ اشرافیہ میں سول اور ملٹری بیوروکریٹس جاگیردار اور تاجر سیاستدان اور مذہبی علماء شامل ہیں۔ کرپشن اور بد انتظامی بھی پاکستان کا بڑا مسئلہ ہے۔ اس نے اس ملک کو بدعنوانی اور بد انتظامی کے انڈیکس کے حوالے سے دنیا میں بدترین بنا دیا ہے۔ پاکستان کے اہم ادارے کرپشن کی لپیٹ میں آ چکے ہیں۔ یہ ادارے اکثر پاکستان کے طاقتور لوگوں اور ان کے کرپشن کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ یہ حقیقت کہ ان اداروں نے کبھی بھی طاقتور لوگوں کے خلاف کسی قسم کی کرپشن کی تحقیقات کا نتیجہ نہیں نکالا بلکہ ان اداروں کو پاکستان کی کمزور غریب اور پسماندہ لوگوں کو نشانہ بنانے اور محکوم بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام آئینی بحران، ناانصافی اور اسٹیبلشمنٹ کا ڈی فیکٹو بادشاہ کے طور پرعروج کہاں موجودہ ماحول قوم کو انقلاب کی طرف دھکیل رہا ہے۔
عمران خان کا پاکستان کے ایک مثالی سیاسی رہنما کے طور پر ابھرنا ،ان کا سیاسی بیانیہ حقیقی آزادی اور ان کی حکومت کو ہٹانے کے لیے منفی طریقوں کا استعمال کرنا، یہ وہ محرکات ہیں جس کے باعث پاکستانیوں کی ایک اچھی خاصی اکثریت موجودہ حکومت کے خلاف شدید نفرت کا اظہار کر رہی ہے ۔ موجودہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان جاری کشمکش بھی ممکنہ انقلاب کا منظر نامہ تشکیل دے رہی ہے۔ نو مئی 2023 کے ہولناک واقعے نے انقلاب کی ایک اور جھلک پیش کی پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار عوام اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھڑی ہوئی۔ نو مئی کے بعد کے واقعات اور پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور عمران کی غیر قانونی قید اور جبری گمشدگی بھی ملک میں نفرت کو بڑھا رہی ہے۔ تحریک انصاف کے صف اول کے سیاسی رہنماؤں کا لاپتہ ہونا پاکستان کے لیے تشویش ناک صورتحال ہے ۔مستقبل میں کوئی بھی ہلچل پاکستان کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے ۔ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام آئینی بحران، ناانصافی اور عوام میں بڑھتی ہوئی بے چینی سے اہم اداروں کا نظریں چرانا انقلاب کو دعوت دے رہا ہے۔ پاکستان کے سیاسی طور پر باشعور نوجوان اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز میں ان کے مایوس کن خیالات میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ ان تمام اداروں کے خلاف پرتشدد اور جارحانہ خیالات کا مظاہرہ کر رہے ہیں جو پاکستان میں ان کے تاریک مستقبل کے ذمہ دار ہیں۔ آخر میں یہ بات ناقابل تردید ہے کہ پاکستان اب ان تمام مسائل کا سامنا کر رہا ہے، جب فرانس نے 1789 کے انقلابی دور میں ایسے مشکلات کا سامنا کیا ۔فیس بک ،یوٹیوب ،ٹیوٹر اور ٹک ٹاک جیسے بے قابو سوشل ایپ خیالات کی تشہیر اور ذہنوں کی ہیرا پھیری کے لیے سب سے آسان پلیٹ فارم ہیں۔ پاکستان میں 71ملین سوشل میڈیا اور 191ملین فعال سیلولر موبائل کنیکشنز کے ساتھ 21ویں صدی میں رابطے کا آسان ترین طریقہ اس ملک میں سیاسی انقلاب کے لیے ایک حقیقی خطرہ ہے۔ المیہ یہ ہے کہ موجودہ بحران میں علیحدگی پسند طاقتیں غیر ملکی حمایت کے ساتھ ملک میں انارکی پیدا کرنے میں مصروف ہیں۔ کچے کے ڈاکو بھی ان حالات کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس انتہائی کشیدگی کے دوران پوری قوم کی نظریں حقیقی قیادت کا انتظار کر رہی ہے۔