... loading ...
میری بات/روہیل اکبر
گزشتہ روز تنظیم الاخوان کی دعوت پر دوسری باردارالعرفان منارہ جانے کا اتفاق ہوا جب اس تنظیم کے بانی مولانا امیر محمد اکرم اعوان صاحب زندہ تھے ایک بارتب گیا تھا اور دوسری بار اب تنظیم کے شعبہ اطلاعات سے منسلک اکرم صاحب اور منصوری صاحب دونوں کمال کی شخصیات ہیں جنکی سربراہی میں ہم 21صحافی حضرات منارہ پہنچے جہاں امیر عبدالقدیر اعوان نے سالانہ اجتماع سے خطاب کرنا تھا۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ پرسکون انداز میں موجود تھے سڑک کے ایک طرف پنڈال تھا تو دوسری طرف مسجد ،مدرسہ اور سکول تھا جس کے احاطہ میں ہی مولانا امیر محمد اکرم اعوان صاحب کا مزار بھی موجود ہے بلاشبہ انکا لگایا ہوا یہ پودا اب تناور درخت بن چکا ہے جس کی مثال اسٹیج پر بیٹھے ہوئے گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر،سابقہ وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی،چوہدری شیر علی خان ،ملک فلک شیر اعوان،عبداللہ حمید گل،کرنل سرخرو،ملک مظہر،ملک شاکر بشیر اعوان،رحیم الدین نعیم،چیف ایگزیکٹو رڈن انکلیو،سعد نزید چیئر مین بلیو ورلڈ سٹی،ندیم اعجاز بلیوورلڈ،سردار ٹمن عباس ایم این اے،ملک آصف بھا،ملک منصور حیات ٹمن ،طارق حسن اورملک مصطفے جیسے افراد کی شکل میں دکھائی دے رہے تھے ۔
امیر عبدالقدیر اعوان نے اپنی اس تقریر میں بڑی خوبصورت باتیں کی انکا کہنا تھا کہ ختم نبوت کا بل پاس ہوئے آج 50 سال مکمل ہوچکے ہیں۔ تمام مذہبی جماعتیں اورا ن کے ذمہ داران بشمول پاکستان کے باسیوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ وطن عزیز یا دنیا کی کسی جگہ بھی گستاخی کا پہلو سامنے آیا تو یہ قوم بغیر کسی چیز کو خاطر میں لائے اس کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہوئی ہے کیونکہ ختم نبوت ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور پچھلے دنوں ملک کی اعلی عدلیہ نے اپنے فیصلے کو دوبارہ تحریر فرمایا جو کہ بہت زیادہ قابل تحسین ہے اور اس نازک موقف پر اللہ کریم نے اتحاد اور اتفاق کے ساتھ کھڑاہونے کا ثمر عطا فرمایا جبکہ یہ ماہ مبارک ربیع الاول وہ مبارک مہینہ ہے جس میں نبی کریمۖ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ آپ کو عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا آپ تمام مخلوقات کی طرف مجسم رحمت ہیں تمام مخلوقات سے کٹ کر بندہ مومن کو جو رشتہ نصیب ہوتا ہے وہ اْمتی کا ہے اور اس رشتے کا تعلق آپ کی بعثت عالی سے ہے ۔ امیر محمد اکرم اعوان اس ماہ مبارک کو بعثت کے حوالے سے منانے پر زور دیتے ہیں ۔یہ محبت ماہ سال میں قید نہیں کی جا سکتی اسے ہر سانس میں بسایا جائے اور گزشتہ ماہِ ربیع الاول سے آج تک کے سفر میں اپنا محاسبہ کرو کہ کیا میں نے سال بھر میں جو کھایا کیا وہ حلال تھا نگاہ جو اْٹھی کیا وہ حیا والی تھی کیا جو میں نے سنا وہ شریعت مطہرہ کے اندر ہے اگر تو اپنی زندگی کے اس سال میں کوشش کی ہے تو پھر ہم نے اس ماہ ربیع الاول کو منانے کی تیاری کی ہے اور قرآن مجید اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ اللہ کافی ہے اس سے بڑی شہادت کون سی ہو سکتی ہے۔ آپ سے اظہار محبت کرتے ہوئے ان اصو ل وضوابط کو اختیار کرنا ہو گا جن کی تعلیم اللہ کریم نے دی ہے اور اس در کی شان میں غیر دانستہ بھی گستاخی ہو جائے تو اعمال ضائع ہونے کا خطرہ ہے یہ ان ہستیوں کو فرمایا جا رہا تھا جو خلیفہ الرسول اور امیر المومنین بنے جبکہ اسلام کے نام پر بننے والے وطن عزیز جسے ریاست پاکستان کہتے ہیں یہ اللہ کے نا م پر معرض وجود میں آیا ہم جانتے ہیں ہمارے اجداد جو کہ اس زمین پر عزت و احترام کی زندگیاں بسر کرتے تھے۔ ان کی عزتیں برسر بزم تار تار ہوئیں اور یہ سب قربانیاں انہوں نے قیام پاکستا ن کے لیے دیں۔ اللہ کریم ان کی قربانیوں کو قبول فرمائیں۔ آج اس امر کی ضرورت ہے کہ ہم دین اسلام پر اور اسوہ رسول پر زندگی گزاریں گے تو یہ پیغام غیر مسلم کو بھی جائے گا کہ یہ سلامتی اور امن کا دین ہے اور ماہ مبارک کو رواجات کی نذر نہ کیا جائے بلکہ یہ وہ موضوع ہے جو ہمیں اتفاق اور اتحاد عطا فرماتا ہے جہاں پر ہم سب کے اختلافات ختم ہو سکتے ہیں معیشت پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھاکہ نظام معیشت کو غیر سودی کرنے سے ہی خوشحالی ممکن ہے اور اس ملک کو وہ نظام عدل دینے کی ضرورت ہے جو امیر و غریب کے لیے یکساں ہو اگر ملک میں 1973 کا آئیں من وعن نافذ کر دیا جائے تو اس ملک میں بہت بہتری آسکتی ہے۔امیر عبدالقدیر اعوان نے اپنی تقریر میں آئین پاکستان کا حوالہ بھی دیا کہ اس پر سبھی جماعتیں متفق ہیں اس لیے اسی پر ہی عمل کرلیا جائے تو پاکستان ناقابل تسخیر بن سکتا ہے غربت ختم ہو سکتی ہے اور خوشحالی آسکتی ہے لیکن بدقسمتی سے ہم نے آج تک آئین پر عمل نہیں کیابلکہ قانون کو بھی موم کی ناک بنارکھا ہے۔ یہاں پر ہر آنے والا حکمران بادشاہی کے خواب دیکھنا شروع کردیتا ہے اپنے بعد اپنے بچوں کو تخت و تاج کا وارث دیکھنا چاہتا ہے کسی اور کی مداخلت برداشت نہیں ہوتی مخالفین کو دیوار کے ساتھ لگانا سب نے اپناوطیرہ بنا رکھا ہے جسکی وجہ سے آج ملک میں معاشی بدحالی کے ساتھ ساتھ لاقانونیت اور غنڈہ گردی بھی عروج پر ہے مہنگائی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ لوگ پریشانیوں میں خودکشیاں کررہے ہیں تعلیم عام لوگوں کے بچوں سے دور ہے دنیا کے 180ممالک کی شرع خواندگی کے حوالہ سے ہم ہمارا 152واں نمبر ہے اسی طرح لاقانونیت،چوری ،ڈکیتی اور نوسر بازی میں بھی ہم کسی سے پیچھے نہیں ہیں مجھے تو اکثر اوقات یہ محسوس ہوتا ہے ہم اچھائی کے تمام کاموں میں دنیا سے پیچھے جارہے ہیں اور برائی کے ہر کام میں دنیا سے آگے نکلنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ہمیں تو آج تک اپنے نمائندے منتخب کرنے کا ہنر نہیں آیا ہمارا سب سے بڑا مسئلہ تعلیم کی کمی اور جہالت میں اضافے کا ہے اسی لیے تو ہم اپنے بنیادی حقوق سے بھی غافل ہیں اور نہ ہی ہمیں انکی کوئی سمجھ بوجھ ہے اور نہ ہی ہم سیکھنا چاہتے ہیں شائد اسی لیے وزیراعظم نے ملک میں تعلیمی ایمرجنسی لگادی ہے ۔اسی لیے تو صدر مملکت آصف علی زرداری نے بھی کہا کہ قوموں کا مقدر بدلنے میں تعلیم اور خواندگی کا اہم کردار ہے تعلیم اور خواندگی ہماری قوم کے مستقبل کی بنیاد ہے اور آئین کے آرٹیکل 25 اے کے مطابق تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے آج ہم ہر شہری کو تعلیم فراہم کرنے کے عہد کی تجدید کرتے ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ اس عہد پر حکومت کس حد تک کامیاب ہوتی ہے ۔