وجود

... loading ...

وجود

حکومتی سرپرستی میں بھارتی اقلیتوں کے خلاف انتہا پسندی

منگل 10 ستمبر 2024 حکومتی سرپرستی میں بھارتی اقلیتوں کے خلاف انتہا پسندی

ریاض احمدچودھری

بھارت میں اقلیتوں کے خلاف پائی جانے والی انتہا پسندی برسوں سے حکومت کی سرپرستی میں پروان چڑھ رہی ہے۔ پورے ملک میں بدامنی اور بے چینی بڑھتی جارہی ہے۔ چند فرقہ پرست عناصر کو اس کا سیکولر نظام بالکل پسند نہیں ہے اور وہ ساری اقلیتوں کو اپنے اندر جذب کرنے یا ان کا صفایا کرنے کے لئے نہایت بے تاب نظر آتے ہیں۔بھارت میں ہندو انتہا پسندی نے بربادی پھیلا رکھی ہے۔ نہ مسلمان محفوظ نہ عیسائی محفوظ نہ سکھ محفوظ اور نہ نچلی ذات کا ہندو محفوظ۔ ہر عام شہری اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کرتا ہے۔ دنیا بھر کے آزاد ماہرین اور میڈیا کی رپوٹیں اس بات کی تصدیق کررہی ہیں کہ بھارت میں ہندو انتہا پسندی دنیا کے امن کیلئے خطرہ بنتی جا رہی ہے۔اپنے آپ کو دنیا بھر میں سیکولر ریاست کے طور پرپیش کرنے والے بھارت میں مذہبی جنونیت اور انتہا پسندی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی میں بھارت دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ جہاں گائے کے گوشت کو لے کر اب تک کئی افراد کو بیدردی اور درندگی سے موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے۔1925 سے بھارت میں انتہا پسندی ابتدا ہوئی اسی سال آر ایس ایس (راشٹریہ سیوک سنگھ) کی بنیاد رکھی گئی اس تحریک کا مقصد یہ تھا کہ ہندوستان میں صرف ہندوؤں کا حق ہے۔ ہندوستان میں تہذیب، ثقافت، لباس،رسم ورواج سب کچھ ہندو دھرم کے تناظر میں ہونا چاہئے۔ جو بھی ہندو اپنا دھرم چھوڑ کو مسیحت یا اسلام قبول کر چکا ہے اْس کو گھر واپس لایا جائے گا۔اس تحریک کو شہرت اس وقت ملی جب 30 جنوری 1948 کو اسی تنظیم کے کچھ ارکان نے مہاتما گاندھی کے سیکولر بھارت کو مسترد کر کے گاندھی کو قتل کر دیا۔ گاندھی کے قتل کے جرم میں نتھو رام گوڈسے کو سزائے موت ہوئی۔ گوڈسے کا تعلق آر ایس ایس سے تھا۔ اس واقعے کے بعدآر ایس ایس پر پاپندی لگ گئی لیکن آر ایس ایس کے نظریات نے بہت سی انتہا پسند تنظیموں کو جنم دیا جن میں وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل، راشٹریہ سیوک سنگھ، ہندو سویام سیوک سنگھ اور بھارتیہ جنتا پارٹی قابل ذکر ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی 1951 میں بھارتیہ جانا سنگھ کے نام سے وجود میں آئی۔ جو 1977 میں جنتا پارٹی بن گئی۔ اسی طرح وشوا ہندو پریشد کا آغاز 1964 میں ہوا انتہا پسند بجرنگ دل دراصل اسی جماعت کا طلبہ ونگ ہے۔ یہ تمام انتہا پسند اور شدت پسند تنظیمیں سنگھ پریوار (ایک خاندان) کہلاتی ہیں جو آر ایس ایس کا حصہ ہیں اور آج کل حکومت میں شامل ہیں۔
نومبر 1984 میں تقریبا 3000 کے قریب سکھوں کو قتل کر دیا گیا۔ ان واقعات کے بعد ایک ملین کے قریب سکھ ہندوستان چھوڑ کر یورپ، برطانیہ، کینڈا اور امریکہ آباد ہوگئے۔ وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل،شیو سینا اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے مل کر بابری مسجد کے خلاف تحریک چلائی اور اسے مسمار دیا اور اس کی جگہ پر رام مندر بنانے کا اعلان کر دیا۔ اس دوران تقریبا 1200 مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔ 2002 میں گجرات میں ایک ٹرین سازش کی گئی جس میں چند ہندؤں کو جلانے کے الزام میں تقریبا ایک ہزار مسلمانوں کا قتل کر دیا گیا زیادہ تر کو زندہ جلا دیا گیا۔ اس وقت گجرات کے وزیراعلی آج کے وزیراعظم نریندر مودی تھے۔ہندو انتہا پسندوں کا حدف صرف مسلمان اور سکھ نہیں نچلی ذات کے ہندو اور مسیحی بھی نشانے پر ہیں۔ مدھیہ پردیش، کیرالہ، کرناٹکہ، اوڑیسہ، گجرات میں مسیحیوں پر زندگی تنگ کی جارہی ہے۔ وشواہندو پریشد کے غنڈے مسیحی آبادیوں پر حملے کر رہے ہیں اور چرچ اور مسیحیوں کی املاک کو تباہ کر رہے ہیں مگر ان کو روکنے والا کوئی نہیں۔ 2014 میں عین کرسمس کے دن کھرگون، کھنڈوا اور ہرہانپور کے مسیحیوں پر منظم حملے کئے گئے۔ کشمیری مسلمانوں کا قتل عام ساری دنیا دیکھ رہی ہے مگر پوری دنیا کے ممالک نے آنکھیں بند کیں ہیں۔
امریکی ادارہ برائے مذہبی آزادی کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر منظم انداز میں حملے کیے جاتے ہیں۔ بھارت میں 1947ء سے لے کر اب تک 50 ہزار مساجد، 20 ہزار سے زائد چرچ اور دیگر عبادت گاہیں انتہا پسندوں کی نفرت کا نشانہ بن چکی ہیں۔ وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل اور راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر حملوں میں پیش پیش ہے۔اس کے ساتھ ساتھ بھارت میں حلال جہاد، گاؤ رکھشا، بلڈوزر پالیسی، شہریت اور حجاب بندی جیسے قوانین کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ مذہب تبدیلی سے متعلق قوانین کو ہندوؤں اور بدھ مذہب کی پیروکاروں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ دسمبر 1992ء کو ہندو انتہا پسندوں نے ایودھیا میں صدیوں پرانی تاریخی بابری مسجد کو شہید کیا تھا اور ہزاروں مسلمان ہندو انتہاپسندوں کے حملوں میں شہید ہوئے تھے۔ شاہی عیدگاہ مسجد، شمسی مسجد اور گیان واپی مسجد سمیت درجنوں عبادت گاہوں پر ہندو انتہا پسندوں کے قبضے کے دعوے عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ہندو انتہا پسندوں نے 2017ء میں مشہور زمانہ دنیا کے عجائب میں شامل تاج محل پر بھی شیو مندر ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ بھارتی فوج نے 1984ء میں امرتسر میں واقع سکھوں کے مقدس ترین مقام گولڈن ٹیمپل پر ٹینکوں اور توپوں سمیت چڑھائی کر دی تھی جس کے بعد سکھوں پر ہونے والے حملوں میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے۔ منی پور میں جاری حالیہ فسادات میں 400 سے زائد چرچ نذر آتش کیے جا چکے ہیں جبکہ 2008ء میں ہندو انتہاپسندوں نے مسیحیوں کے 600 گاؤں اور 400 چرچ جلا ڈالے تھے۔
عرب میڈیا کی رپورٹ کے مطابق جگہوں کے نام ہندو طرز پر تبدیل کرنا، بلڈوزر پالیسی اور مساجد کی مندروں میں تبدیلی بی جے پی کی جانب سے بھارت کی تاریخ دوبارہ رقم کرنے کی کوشش ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سندھ طاس معاہدے میں تبدیلی کا عندیہ وجود اتوار 22 ستمبر 2024
سندھ طاس معاہدے میں تبدیلی کا عندیہ

خادم ومخدوم وجود اتوار 22 ستمبر 2024
خادم ومخدوم

ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کا خوف وجود اتوار 22 ستمبر 2024
ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کا خوف

بھارتی حکومت سکھوں کے قتل میں ملوث وجود هفته 21 ستمبر 2024
بھارتی حکومت سکھوں کے قتل میں ملوث

بابری مسجد سے سنجولی مسجد تک وجود هفته 21 ستمبر 2024
بابری مسجد سے سنجولی مسجد تک

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر