وجود

... loading ...

وجود

اقبال کا فلسفہ: صدیوں پر محیط بصیرت

پیر 09 ستمبر 2024 اقبال کا فلسفہ: صدیوں پر محیط بصیرت

سمیع اللہ ملک
علامہ اقبال بلاشبہ ان مفکرین میں سے ہیں جوکہ شاعرہونے کے ساتھ ساتھ اپنے فلسفے اورافکار کی بنیادپران اذہان کی صفوں میں شمار ہوتے ہیں جن کی فکراورفلسفہ صدیوں پرمحیط ہوتے ہیں۔اسلامی تاریخ کے حوالے سے کہاجاتاہے کہ ہرصدی کے بعدایک مجدد پیدا ہوتا ہے جواپنے افکاراورجستجوسے مسلم امہ میں روحِ عیسی پھونکتاہے،جس سے احیائے اسلام اورملت اسلامی نئے جذبے اورعزم کے ساتھ عصری تقاضوں سے ہمکنارہوتی ہے۔برصغیرمیں مجددالف ثانی کے بعدعلامہ اقبال کویہ مقام حاصل ہے کہ وہ اپنی سوچ وفکرکی بناپرامہ کو درپیش چیلنجزکامقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔گوکہ اقبال بیسویں صدی کے شاعر تھے لیکن ان کافکروپیام آج بھی قوموں کی رہنمائی اور بلندیوں تک رسائی کیلئے کارگرہے۔سچ تویہ ہے کہ آج بھی ہماری دسترس میں ابلاغ کے بے پناہ ذرائع اورتحقیق کیلئے بے پناہ وسائل موجود ہیں،اس کے باوجودہم اب تک افکارِاقبال کے اصل اسرار ڈھوندنے میں ناکام رہے ہیں۔ان کی فکروفلسفہ اس سمندر کی مانندہے جس کی تہہ میں ایک پوری کائنات پوشیدہ ہے اوراس تہہ کی رسائی کیلئے ایک ذہن رسااورعزمِ صمیم چاہئے۔
اقبال نے جس دوراورماحول میں آنکھ کھولی،جن حالات میں پرورش پائی،اپنے آس پاس جن تہذیبی اقدارکی ٹوٹ پھوٹ دیکھی، والدین کی تربیت کے بعدگھریلومعاشی حالات وواقعات نے ان کی شخصیت کی تشکیل میں بڑااہم کرداراداکیا۔ہندوستان پرمسلمانوں نے آٹھ سوسال حکومت کی،اگرچہ ان کی حکومت پورے ہندوستان پرکبھی بھی نہیں رہی لیکن اقلیت میں ہوتے ہوئے بھی ہندوستان کے کثیر علاقے پروہ حکمران رہے،یہی وجہ ہے کہ انگریزکے دورِغلامی میں بھی مسلمانوں میں ایک قسم کااحساسِ برتری تھااور وہ اپنی زبوں حالی کا مداوا اپنے شاندارماضی کویاد کرکے کیاکرتے تھے حالانکہ اب حالات بہت بدل چکے تھے اورمسلمان معاشی طورپربہت کمزورہوگئے تھے اور نئے آقاانگریزعسکری اورعلمی لحاظ سے ان سے برترتھے اوراپنی حکمت عملی سے نہ صرف اپنی حکومت کووسیع کرلیاتھابلکہ اپنے مدمقابل حریف پرتگیزی اورفرانسیسیوں کوبھی پسپاکرکے ہندوستان پراپنی گرفت مضبوط کر لی تھی۔1857میں انگریزوں کے خلاف جن مقامی لوگوں نے مزاحمت کی،ان میں مسلمان پیش پیش تھے۔ہندوستان کے لوگوں نے اسیجنگِ آزادی”کانام دیااورانگریزوں نے بغاوت قرار دیا۔ انگریزوں نے اس بغاوت کیلئے مسلمانوں کوذمہ دارٹھہرایااور مشکوک مسلم زعماکوچن چن کرقتل کیااورمعاشی لحاظ سے مسلمانوں کوغریب تر بنا دیا، اس جنگ کی ناکامی سے ہندوستان کے مسلمانوں میں مایوسی اوربددلی انتہاکوپہنچ گئی۔
قطع نظراس کے کہ یہ بغاوت تھی یاجنگِ آزادی،یہ مزاحمت یاخروج ناعاقبت اندیشی بے ثمرغم وغصہ پرمبنی تھا۔اس واقعہ کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں میں دوقسم کے نمایاں ردِ عمل پیداہوئے۔ایک طبقہ کاخیال تھاکہ مسلمانوں کے زوال کااصل سبب ان کی اسلام سے دوری ہے۔وہ نہ قرآن پرعمل پیراہیں،نہ اسلامی اساسی اقدارسے واقفیت رکھتے ہیں اورنہ اسلامی اصولوں پرعمل پیرا ہیں جبکہ دوسرے طبقے کاخیال تھاکہ مسلمانوں کی زبوں حالی کاسبب جدیدتعلیم سے عدم دلچسپی اوردوری ہے،وہ انگریزی نہ جاننے کی وجہ سے سرکاری ملازمتیں حاصل نہیں کرپاتے،ان میں دنیاداری کی بھی فراست نہیں ہے اوروہ انگریزی حکومت سے اچھے تعلقات بھی نہیں رکھ رہے،اس طبقے کی نمائندگی سرسیداحمد خاں اوران کے رفقاکررہے تھے۔
ان دونظریات کے باعث برصغیرکے مسلمانوں پردواثرات مرتب ہوئے،ایک توانہوں نے اپنے بچوں کوقرآنی تعلیم دلوانے اور اسلامی ثقافت پرعمل شروع کردیاکہ وہ کہیں انگریزی ثقافت میں نہ رنگے جائیں،دوسرااثریہ ہواکہ مسلمانوں نے انگریزی تعلیم حاصل کرناشروع کردی اورکچھ لوگوں نے جدیدعلوم اورسائنس کی طرف سنجیدگی سے توجہ دینا شروع کردی کیونکہ ان کویقین ہوگیاتھاکہ وہ انگریزوں کے ساتھ مقابلے کی سکت نہیں رکھتے،ان کی عافیت اسی میں ہے کہ وہ انگریزوں کی حکومت کوتسلیم کر لیں اوروہ علوم حاصل کریں جن کے ذریعے ان کوملازمت مل سکے اوروہ معاشی طورپرخوشحال ہوجائیں۔مثبت سوچ رکھنے والا اہلِ علم طبقہ جوتاریخ انسانی اوراسلامی ثقافت سے واقف تھا،وہ جانتاتھا کہ انگریزوں کی حکومت صدیوں کی علمی کوششوں کا نتیجہ ہے۔یورپ کئی صدیوں سے غوروفکرکی نئی راہوں پر چل کرہی کامرانی کی اس منزل پرپہنچاہے اورتحریکِ احیائے علوم سے جدیدیورپ کاآغازہواتھا۔
یہی وہ وقت تھاجب اقبال اپنے دورِطالب علمی میں سرسیداحمدخاں کی تحریک سے اپنے استادمیرحسن کے توسط سے واقف ہوئے تھے، چونکہ وہ شروع ہی سے مفکرانہ ذہن رکھتے تھے اس لئے نئے افکارپرتوجہ دیتے تھے اورپھر وہ اپنے دورکے علمی اور معاشرتی ماحول کے علاوہ اس زمانے کے سیاسی اورمعاشی حالات کے اثرات سے اقبال جیساحساس نوجوان بے نیازہوہی نہیں سکتاتھا۔اقبال کے سامنے معاشی ناہمواری کے مناظرتھے،یہی وجہ ہے کہ عوام الناس کی بہترزندگی کے بارے میں سوچنے کے نتیجے میں ان کی جوسب سے پہلی کتاب طبع ہوئی، وہ اقتصادیات کے موضوع پرتھی ”علم الاقتصاد”نام کی یہ کتاب1903 یں پیسہ اخبارلاہورکے دوسوصفحات پرمشتمل تھی۔
اقبال کی اس کتاب ”پاورٹی آف ایلیویشن”کامرکزی نقطہ یاانسدادِمفلسی ہے۔اقبال جیسے انسان دوست نے اس دورمیں غربت کی سنگینی کومحسوس کیااوروہ جانتے تھے کہ جن ملکوں میں غربت ہے،وہاں جرائم بڑھتے ہی جائیں گے۔اس دورکاسوچئے جب یہ کتاب لکھی گئی اور پھرآج پرنظردوڑایئے کہ غربت ختم کرنے کایہ پروگرام تقریباہرغریب اورترقی یافتہ ملک میں نافذکیاجارہا ہے ،تمام مہذب انسانوں کی یہی خواہش ہے کہ دنیاسے مفلسی ختم ہوجائے۔اقبال کے ذہن رسااور نگاہِ دوررس کی داد دینی پڑتی ہے کہ حالات کے تغیرات کودیکھ کر مستقبل کی تصویر کوواضح کرنے کی سعی کی۔
اقبال کی سوچوں کے دھاروں کااگرجائزہ لیاجائے تواس کیلئے ان کی شاعری اورمقالات،جووہ وقتافوقتامختلف موضوعات پر لکھتے رہے،اس میں”الارض للہ”کی تفسیر، انسانیت، مردِ کامل کا تصور،نفس،تصوف،اشرف المخلوقات کا کردار،عظمتِ انسان اور انسان دوستی ، وحدت الوجود،یورپ کی مادیت پرستی،مناظرِ فطرت،فلسفہ خودی،نظریہ خود آفاقیت،سماجی جمہوریت،غیر استحصالی معاشی نظام،سیاسی وطنیت، مسلم امہ کی حالتِ زارغرضیکہ نظریہ انسان دوستی کے تحت اقبال نے کتنے ہی ایسے تشکیلی عناصرگنوائے ہیں جواس موضوع کوسمجھنے میں مددگارہوتے ہیں۔آج ہم اقبال کی شاعری اورافکارپراظہارِخیال کرنا چاہتے ہیں تویہ کہتے ہوئے بالکل نہیں جھجکتے کہ بیسویں صدی تو اقبال کی صدی تھی ہی،اکیسویں صدی بھی علامہ اقبال کی معلوم ہوتی ہے۔اس خطے کے کسی مفکرنے دنیائے اسلام پراتنااثرنہیں چھوڑا جتنا کہ علامہ اقبال کے فلسفہ،فکراورشاعری نے چھوڑاہے۔
مشرق اورمغرب کے علوم کاگہرائی سے مطالعہ کرنا،دنیاکے بڑے بڑے مذہبی مفکرین سے علامہ اقبال کی براہِ راست واقفیت، دورِجدید کے مغربی افکارپران کی تنقیدی نظر،مغرب کی اعلی درسگاہوں میں حصولِ علم اوراہلِ علم سے تبادلہ خیالات کی وجہ سے ان کووہ وسعتِ نظری اور فکری گہرائی عطاہوئی جس نے بلا شبہ ان کوبیسویں صدی کاسب سے نمایاں مسلم مفکربنادیاہے:
بے خبر!توجوہرآئینہِ ایام ہے
توزمانے میں خداکاآخری پیغام ہے
اوردوسری جگہ یہ فرماتے ہیں:
شعلہ بن کرپھونک دے خاشاک غیراللہ کو
خوفِ باطل کیاکہ توغارت گرباطل بھی تُو
اقبال انسانوں کی بنائی ہوئی دنیاکے تاریخی حقائق اورزمینی حقائق کوحرفِ آخرنہیں مانتے بلکہ انسان کوانقلاب کی دعوت دیتے ہیں۔وہ شرفِ انسانیت اورمساواتِ انسانی کوانقلاب کی دعوت دیتے ہیں۔وہ شرفِ انسانیت اورمساواتِ انسانی کے قائل ہیں اورایسے معاشرے کاخواب دیکھتے ہیں جہاں ہرانسان کواحساسِ شخصیت ہو،جہاں ہرانسان باوقارہو۔وہ انسان کے ارتقاکے لامحدودامکانات کے قائل ہیں،ایسے امکانات جس کے دروازے عمل سے واہوتے ہیں اوراسی بے عملی کوایک اضطراب کی صورت میں نمودار دیکھنا چاہتے ہیں
خداتجھے کسی طوفاں سے آشناکردے
کہ تیرے بحرکی موجوں میں اضطراب نہیں
اگرچہ اقبال کے تصورخودی میں آفاقیت ہے اوران کاپیغام تمام نوع انسان،ہرنسل،ہرخطے اورہرمذہب کے انسانوں کیلئے ہے اوران میں کسی قسم کی کوئی تفریق نہیں لیکن مثنوی ”اسرارِخودی”اور”رموزِبے خودی”میں انہوں نے ملت اسلامیہ کے مسائل بالخصوص ہندوستان کے مسلمانوں کی معاشی بدحالی،معاشی ابتری اورسیاسی محکومی کومدنظررکھالیکن دو قومی نظریہ کی بنیاد پرایک الگ ریاست کاخواب بھی دیکھاجس کے نتیجے میں اللہ تعالی نے27رمضان المبارک کی تقدس بھری رات کوپاکستان جیسی ریاست کو معجزاتی طور پرنمودار کیا۔یہ تھے ہمارے اقبال جن کی دورس نگاہوں نے بروقت خواب دیکھاجس کی تعبیر محمد علی جناح کے ہاتھوں ہوئی۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر