... loading ...
ریاض احمدچودھری
عقیدہ ختم نبوت اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے جس پر دین اسلام کی عمارت کھڑی ہے اور جس کے لیے شمع رسالت کے پروانوں نے ہمیشہ بیشمار قربانیاں دیں۔ اس بنیادی عقیدہ سے انکار پورے دین اسلام سے انکار ہے۔7 ستمبر 1974ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے قادیانیوں کی دونوں شاخوں کو غیر مسلم قرار دے کر دائرہ اسلام سے خارج کر دیا۔اس لئے ہر سال 7 ستمبر کو یوم ختم نبوت ۖ منایا جاتا ہے۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد 1953ء سے ہی قادیانیوں کے خلاف تحریک تحفظ ختم نبوت جاری ہو چکی تھی۔ مولانا عبدالستار خان نیازی کو سزائے موت سنائے جانے سمیت دیگر علمائے کرام کو طویل قید و بند کی سزائیں سنا دی گئیں۔ پھر سابق وزیراعظم مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت کا واقعہ ہے کہ22 مئی 1974ء کو نشتر میڈیکل کالج ملتان کے کم وبیش سو طلبہ اِسلامی جمعیت طلبہ کے منتخب یونین صدر ارباب عالم کے ہمراہ شمالی علاقہ جات کی سیر کے لیے چناب ایکسپریس کے ذریعے ملتان سے پشاور جا رہے تھے۔ٹرین ربوہ اسٹیشن پررکی تو حسب معمول قادیانی نوجوانوں نے قادیانیت کا لٹریچر تقسیم کرنا شروع کر دیا، لیکن آج مسافروں کا ردعمل مختلف تھا۔ طلبہ نے لٹریچر پھاڑ دیا اور ختم نبوت زندہ باد او ر رہبر و رہنما مصطفی مصطفی ۖ کے نعرے لگائے۔ قادیانی سلطنت میں طلبہ کے نعروں نے طوفان برپا کر دیا۔ ٹرین تو اپنے وقت مقررہ پر روانہ ہوگئی، لیکن مرزائی بدلہ لینے کے لیے غور و فکر کرنے لگے۔ 29 مئی کو واپسی پر ربوہ سے پہلے نشتر آباد کے اسٹیشن پر طلبہ کے ڈبے پر نشان لگا دیے گئے۔ ربوہ اسٹیشن پر مسلح قادیانی تیار بیٹھے تھے، طلبہ نے دروازے اور کھڑکیاں بند کرلیں، لیکن ٹرین کے دروازے توڑ کر طلبہ کو گھسیٹ کر باہر نکالا گیا۔ عینی شاہدین کے مطابق حملہ کرنے والوں کی تعداد کم از کم 500 تھی۔ وہ چمڑے کی پیٹیوں، آہنی پائپوں، لاٹھیوں اور ہاکیوں سے مسلح تھے۔ نہتے طلبہ پر وحشیانہ تشدد تھا، طلبہ کی آہیں اور سسکیاں تھیں، پلیٹ فارم پر ہر طرف خْون ہی خْون تھا، احمدیت زندہ باد اور مرزا غْلام احمد زندہ باد کے نعرے تھے۔
زخموں سے گلزار بدن اور خْون آلود کپڑوں کے ساتھ اِسلامی جمعیت کے کارکنان پر مشتمل طلبہ کا یہ قافلہ ربوہ سے روانہ ہوا تو قادیانیوں کی حیوانیت کی خبریں ٹرین سے پہلے پہنچ گئیں۔ فیصل آباد اسٹیشن پرعوام کاجم غفیر، مجلس تحفظ ختم نبوت کے رہنماء حضرت مولانا تاج محمود اور دیگر زعماء بھی طلبہ کے استقبال کے لیے موجود تھے۔ طلبہ کی حالت دیکھ کر لوگ فرط جذبات سے رونے لگے۔ پلیٹ فارم پر ہی فرسٹ ایڈ کا انتظام کیا گیا، مولانا تاج محمود نے طلبہ سے مخاطب ہوکر کہا کہ تمھارے خْون کے ایک ایک قطرے کا حساب مرزائیوں سے لیا جائے گا۔اِس واقعہ کا ردعمل پْورے ملک میں نظر آیا، ہڑتالوں اور احتجاجی مظاہروں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا اور ساتھ ہی گرفتاریوں اور ریاستی تشدد کا بھی، احتجاج گاؤں دیہاتوں تک پھیل گیا۔ مسلمانوں کا دیرینہ مطالبہ ہر زبان پر تھا کہ قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دیا جائے۔ احتجاج میں شدت آئی تو یکم جون کو وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے امن و امان قائم رکھنے کے لیے عوام سے تعاون اپیل کی اور طلبہ پر تشدد کی انکوائری کے لئے ٹربیونل کی تشکیل کا اعلان کر دیا جس کی رپورٹ آج تک نہ آسکی۔
28 جون کو مصر کی جامعہ الازہر نے قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے کا فتویٰ جاری کردیا۔ 30 جون 1974ء کو اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے قومی اسمبلی میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی قرارداد پیش کی گئی۔ یہ بات پیش نظر رہے کہ اِس معاملہ پر قومی اسمبلی کے 28 اجلاس ہوئے۔ مسلمانوں اور قادیانیوں کو اپنا مؤقف پیش کرنے کا پورا موقع دیا گیا۔ قادیانیوں کے سربراہ مرزا ناصر اور لاہوری گروپ کے سربراہ صدرالدین کا مؤقف سنا گیا۔ مسلمان علمائے دین نے قادیانی رہنماؤں کو لاجواب کر دیا۔7 ستمبر 1974ء کو قومی اسمبلی کا فیصلہ کن اجلاس ہوا اور قادیانیوں کی دونوں شاخوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر دائرہ اِسلام سے خارج کردیا گیا۔ الحمدللہ!قادیانیت کو دائرہ اِسلام سے خارج کروانے کی تحریک کے آغاز کا سہرا اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنان کے سر ہے۔
آئین کی دفعہ 102 شق 3 میں ترمیم کے مطابق قادیانی جماعت یا لاہوری جماعت کے احمدی اشخاص کے الفاظ درج کر کے آئین کی دفعہ 260 شق (2) کے بعد حسب ذیل نئی شق میں وضاحت کی گئی کہ جو شخص حضرت محمد ۖ جو آخری نبی ہیں کے خاتم النبین ہونے پر قطعی اور غیر مشروط طور پر ایمان نہیں رکھتا یا جو حضرت محمد ۖکے بعد کسی بھی مفہوم میں یا کسی بھی قسم کا نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے یا کسی ایسے مدعی کو نبی یا دینی مصلح تسلیم کرتا ہے وہ آئین اور قانون کی نظر میں مسلمان نہیں ہے۔قومی اسمبلی اور سینٹ نے اس ترمیم کو منظورکیا۔ اس ترمیم کے بعد 50ہزار قادیانی مسلمان ہوئے تھے۔ 26 اپریل 1984ء کو صدرپاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے قادیانیوں کی خلاف اسلام دشمن سرگرمیوں کو روکنے کے لئے ”امتناع قادیانیت آرڈینس” جاری کیا۔
عقیدہ ختم نبوت کی شان و عظمت اور افادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ کریم نے قرآن پاک میں حضرت محمدۖ کی ختم نبوت کے بارے میں آیات نازل فرمائیں اور آپۖ کی احادیث میں جھوٹے دعویداروں کی پیش گوئی بھی فرما دی گئی۔ مثلاً ابوداؤد شریف میں حضرت ثوبان سے روایت ہے کہ رسول کریمۖ نے ارشاد فرمایا میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے ہر ایک یہی دعویٰ کرے گا کہ میں نبی ہوں حالانکہ” میںۖ آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا”۔