وجود

... loading ...

وجود

منی پور میں نسلی ، لسانی فسادات

اتوار 08 ستمبر 2024 منی پور میں نسلی ، لسانی فسادات

ریاض احمدچودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بھارت میں مودی سرکار کے تیسرے دور میں بھی ہندوتوا پالیسی پر عمل جاری ہے اور اسی سلسلے میں منی پور میں فسادات ایک بار پھر شروع ہو گئے ہیں۔بھارتی حکمراں جماعت بی جے پی نے ہمیشہ ہندو انتہا پسندی کی سیاست کے ساتھ ملک میں فسطائیت کو فروغ دیا ہے۔ مودی سرکار نے اپنے تیسرے دور میں بھی بھارت کو نسلی، لسانی اور مذہبی تعصبات کی آماج گاہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور سیاسی حریف ہوں یا بھارت میں بسنے والی اقلیتیں، سب ہی مودی سرکار کی انتہاپسندانہ سوچ کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔بھارت میں اس وقت ریاستی سطح پر بہت سے طبقات بنیادی حقو ق سے محروم ہیں جن کی وجہ سے ملک میں متعدد علیحدگی پسند تحریکیں سرگرم ہیں۔
ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق منی پور کے نواحی گاؤں میں 5گھروں کو جلا کر خاکستر کردیا گیا جس کے بعد امفال وادی میں شدت پسندی کے نئے باب کا آغاز ہوگیا ہے۔ میٹی اور کْکی کمیونٹیز کو سوچی سمجھی سازش کے تحت لڑوایا جارہاہے اور ریاست اپنے مفادات کے پیشِ نظر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔کہا جا رہا ہے کہ مودی سرکار نے جان بوجھ کر منی پور کے حالات کو خراب کیا ہے تاکہ اپنے مذموم سیاسی مقاصد کا حصول ممکن بنایا جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ منی پور کے لوگ اپنے ہی ملک میں پناہ گزینوں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔حالیہ فسادات کے بعدامفال وادی اور گردونواح میں دوبارہ کرفیونافذ کردیا گیا ہے۔ گزشتہ سال سے اب تک منی پور میں سیکڑوں بے گناہوں کی جانیں گئی ہیں۔ ریاستی پولیس نے بھارتی افواج کے ساتھ مل کر منی پور میں کومبنگ آپریشن شروع کردیے ہیں اور بھاری پیمانے پر سرچ آپریشن ہونے کی وجہ سے علاقہ مکینوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔نسلی فسادات کو ہوادے کر میٹی کمیونٹی کو کْکی اور دوسروں قبیلوں سے لڑوایاجارہاہے تا کہ اْن کے آئینی حقوق کو پامال کیا جائے۔ منی پور کا مسئلہ مزید زور پکڑ رہاہے اور مودی سرکار سیاسی مسئلے کو بندوق کے زور پر حل کرنا چاہتی ہے۔
منی پور کا مسئلہ مودی کے لیے گلے کی ہڈی ثابت ہوا ہے اور مقامی لوگ اب بھارت سے آزادی کا تقاضا کر رہے ہیں۔ عالمی سطح پر بھی منی پور فسادات کو لے کر ایک گہری تشویش پائی جا رہی ہے۔ آخر کب تک مودی سرکار اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ظلم و جارحیت کا سہارا لیتی رہے گی؟حالیہ فسادات کے بعدامفال وادی اور گردونواح میں دوبارہ کرفیونافذ کردیا گیا ہے،گزشتہ سال سے اب تک کے دوران منی پورمیں سینکڑوں بے گناہوں کی جانیں گئی ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے منی پورمیں جاری پرتشدد فسادات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایک مفصل رپورٹ شائع کی جس میں کہا گیا ہے کہ پر تشدد فسادات مودی حکومت کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ مودی حکومت گزشتہ ایک دہائی سے بھارت پر مسلسل قابض ہونے کے باوجود ملک کے مسائل حل کرنے میں مسلسل ناکام ہے۔ منی پور فسادات پر مودی سرکار نے مکمل چپ سادھ رکھی ہے۔مودی سرکار وفاقی اور صوبائی سطح پر منی پور فسادات پر قابو پانے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔543 نشستوں پر مشتمل لوک سبھا اسمبلی میں منی پور کی نمائندگی کرنے کیلئے محض دو نشستیں مختص کی گئیں ہیں اور ان پر بھی بی جے پی قابض ہے،اقوام متحدہ اور دیگر انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں منی پور میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر شدید مذمت کا اظہار کرچکی ہیں،اقوام متحدہ اور دیگر انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے بارہا متنبہ کرنے کے باوجود مودی سرکار بیحسی کا مظاہرہ کررہی ہے۔منی پور میں میتی اور کوکی قبائل کے مابین تنازعے اور اسکے نتیجے میں جاری فسادات کو ایک سال مکمل ہوچکا ہے، منی پور میں انتخابی عمل کے دوران بے شمار تشدد اور جھڑپوں کے واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں، منی پور میں جاری قتل و غارت اور انسانی حقوق کی تشویشناک خلاف ورزیاں تاریخ میں سیاہ ترین باب کے طور پر لکھی جائیں گی۔
منی پور میں فسادات کا آغاز منی پور ہائیکورٹ کے ایک فیصلے سے ہوا جس میں حکومت کو میتی کمیونٹی کو شیڈول ٹرائب کا درجہ دینے کا حکم دیا گیا تھا۔ 2012ء میں میتی کمیونٹی نے شیڈول ٹرائب کا درجہ حاصل کرنے کی درخواست دائر کی تھی’ اس درخواست پر میتی کمیونٹی کے حق میں فیصلہ آنے کے بعد کوکی اور میتی گروپس کے درمیان فسادات پھوٹ پڑے جن میں اب تک 125 افراد ہلاک ہو چکے جبکہ چالیس ہزار سے زائد نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ منی پور کا بھارت میں 1949ء میں انضمام ہوا ‘ اس انضمام پر اس وقت بھی کئی تنازعات کھڑے ہوئے تھے۔ 1956ء میں یہاں علیحدگی کی تحریک شروع ہوئی’ جس کا مقصد میتی کمیونٹی کیلئے علیحدہ ریاست کا قیام تھا۔ شمال مشرقی بھارت میں یہ سب سے بڑا نسلی گروہ ہے۔ بھارت میں نسلی فسادات کوئی نئی بات نہیں’ مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی آزادی کی تحریک اور بھارت میں سکھ کمیونٹی کی خالصتان تحریک اسکی بڑی مثالیں ہیں جو بھارت سے ہرممکن آزادی چاہتے ہیں۔ ان دوتحریکوں کے علاوہ بھارت میں اس وقت سینکڑوں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں جنہیں بھارت سرکار بزور دبانے کی کوشش کررہی ہے۔ ایک طرف بھارت آزادی کی تحریکوں کو بزور دبا رہا ہے اور دوسری جانب بھارت میں اقلیتوں کا عرصہ حیات تنگ کئے ہوئے ہے جس میں سب سے زیادہ بھارت کی سب سے بڑی مسلمان اقلیت متاثر ہو رہی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی جاری کردہ رپورٹ میں ایسے ہی مسائل کی نشاندہی کی ہے۔ بھارت آزادی کی ان تحریکوں کو دبانے کیلئے ہر ممکن اقدامات کر رہا ہے جو عالمی قوانین کی خلاف ورزی کے زمرے میں بھی آتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
بھارت میں مساجد غیر محفوظ وجود جمعه 20 ستمبر 2024
بھارت میں مساجد غیر محفوظ

نبی کریم کی تعلیمات اور خوبصورت معاشرہ وجود جمعه 20 ستمبر 2024
نبی کریم کی تعلیمات اور خوبصورت معاشرہ

کشمیر انتخابات:جہاں بندوں کو تولا جائے گا ! وجود جمعه 20 ستمبر 2024
کشمیر انتخابات:جہاں بندوں کو تولا جائے گا !

قائد اعظم کی خوش لباسی و نفاست وجود جمعرات 19 ستمبر 2024
قائد اعظم کی خوش لباسی و نفاست

بحران یا استحکام وجود جمعرات 19 ستمبر 2024
بحران یا استحکام

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر