... loading ...
میری بات/روہیل اکبر
اپوزیشن کا کہنا ہے کہ حکومت ہر محاذ پر ناکام ہورہی ہے۔ عام کاروباری لوگ تو اپنی انڈسٹری بند کرہی رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے زرعی شعبے کو بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمت کے باعث شدید چیلنجز کا سامنا ہے۔ بجلی کے نرخوں نے نہ صرف کسانوں کے لیے پیداواری لاگت میں اضافہ کیا ہے بلکہ دیہی صنعتوں کی ترقی میں بھی رکاوٹ ڈالی ہے جبکہ عام آدمی بجلی کے زائد بلوں کی وجہ سے خود کشیاں کررہاہے ۔ ہر طرف مہنگائی کا ایک شور برپا ہے اور ایسے میں حکومتی شاہانہ اخراجات دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کیسے حکمران ہیں جنہیں عوام کا احساس ہی نہیں ہے حکمرانوں کو اگر عوام سے اپنی محبت ثابت کرنی ہے تو پھر پاکستان کو ایک طویل المدتی مربوط، اسٹریٹجک اقتصادی منصوبوں کی ضرورت ہے جس میں مالیاتی خسارے اور قرضوں کی واپسی کا انتظام شامل ہے ۔لیکن بدقسمتی سے حکومت آج تک اپنے بجٹ خساروں سے ہی باہر نہیں نکل سکی خاص کر ملک میں بجٹ کی حالت گزشتہ تین دہائیوں کے دوران ابتر ہوئی ہے اور اس بگاڑ کا ایک عنصر قومی بچت اور سرمایہ کاری کی کم سطح، بڑھتا ہوا سرکاری قرضہ، کرنسی کی شرح میں اتار چڑھائو، طویل تجارتی خسارہ اور افراط زر ہے اس وقت تجربہ کار سیاستدان ملک میں حکمران ہیں جنہوں نے اپنی ہر مشکل آسانی سے ختم کراتے ہوئے اقتدار حاصل کیے رکھااب انکے اسی تجربے کی ضرورت ہے تاکہ قوم بھی خوشحالی کی دہلیز پر قدم رکھ سکے اس جان لیوا مہنگائی کے دور میں ایڈہاک اقدامات کے ساتھ تجربہ کرنے کا وقت اب ختم ہو چکا ہے اور ملک معاشی انتظام کے لیے ‘آزمائشی اور غلطی’کے نقطہ نظر کا مزید متحمل نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کی مالی گنجائش انتہائی محدود ہے اس دلدل سے خود کو نکالنے کے لیے سیاستدانوں کو کثیر الجہتی نقطہ نظر اپنانا چاہیے۔ بنیادی ڈھانچہ جاتی تبدیلیوں کو ترجیح دینا جن کا مقصد غیر ملکی قرضوں پر ملک کا انحصار کم کرنا ہوگاترقی پسند ٹیکس کے ذریعے محصولات کی پیداوار کو بڑھا کر، ٹیکس چوری کو روک کر اورسازگار کاروباری ماحول کو فروغ دے کر پاکستان آئی ایم ایف کے قرضوں پر اپنا انحصار بتدریج کم کر سکتا ہے توجہ ان ڈھانچہ جاتی اصلاحات پر ہونی چاہیے جو سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کریں ۔ پیداواری صلاحیت کو بہتر بنائیں اور ملازمتیں پیدا کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ ضروری عوامی سرمایہ کاری، جیسے کہ سافٹ ویئر انڈسٹری، تھنک ٹینکس، انسانی وسائل، تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال پر حکومتی اخراجات کو ترجیح دینابھی بہت ضروری ہے۔ ان حالات میں اگر اہم ڈھانچہ جاتی اصلاحات نہ کی گئیں اور معاشی چیلنجز کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو اگلا بحران بہت بڑا اور بدتر ہو سکتا ہے۔
پاکستان اکنامک سروے 2023-24 کے مطابق جولائی تا مارچ مالی سال 2024 کے دوران مالیاتی خسارہ 26.8 فیصد بڑھ گیا جو جی ڈی پی کا 3.7 فیصد رہا حکومت نے خسارے کو پورا کرنے کے لیے ملکی ذرائع سے 3408.6 ارب روپے اور بیرونی ذرائع سے 493.8 ارب روپے حاصل کیے ہیں۔ جولائی تا مارچ مالی سال 2024 میں کل اخراجات 36.6 فیصد بڑھ کر 13,682.8 بلین روپے ہو گئے جن کی وجہ سے آئے روز ہماری مشکلات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ خاص کر ہمارے کسان بھائی جو کئی کئی سال نیا سوٹ اور نئی جوتی نہ لے سکیں جنہوں نے آج تک برگر اور پیزے کا ذائقہ نہ چکھا ہوجو اپنی غربت کی وجہ سے اپنے بچوں کو اچھے اسکولوں میں اعلیٰ تعلیم نہ دلواسکیں، ان کے لیے ہزاروں روپے بجلی کے بل بہت بڑا بوجھ بن چکے ہیں۔ پاکستان میں زراعت کا بہت زیادہ انحصار بجلی پر ہے۔ خاص طور پر آبپاشی اور زرعی پروسیسنگ یونٹس کے کام کے لیے مگر اس وقت تو ملک بھر میں کسان بجلی کے بڑھتے ہوئے نرخوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں جس نے گندم، چاول اور گنے جیسی ضروری فصلوں کی پیداوار ی لاگت میں زبردست اضافہ کیا ہواہے اور ساتھ میں خطرناک بات یہ ہے کہ بجلی کی اونچی قیمت نے دیہی علاقوں میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کے لیے ترقی کرنا مشکل بنا دیا ہے۔ یہ کاروبار زرعی پیداوار پر انحصار کرتے ہیں۔ اس صورتحال کا پوری دیہی معیشت پر اثر پڑتا ہے، جس کے نتیجے میں ان خطوں میں روزگار کے مواقع کم ہوتے ہیں اور معاشی ترقی رک جاتی ہے ۔پاکستان میں دیہی ترقی کا تعلق زرعی شعبے کی کارکردگی سے ہے جب کسانوں اور دیہی کاروباروں کو بجلی کی زیادہ قیمتوں کی وجہ سے مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو دیہی ترقی کے وسیع اہداف جیسے کہ غربت کا خاتمہ، معیار زندگی میں بہتری اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں شدید رکاوٹیں پڑتی ہیں ۔اس وقت بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمت زرعی آلات کی قیمتوں میں اضافے کابھی باعث بنی ہوئی ہیں جس کی وجہ سے کسانوں کے لیے منافع کمانا مشکل ترین معاملہ بنا ہوا ہے۔ جس کے بعد بہت سے چھوٹے کاشتکاروں کو کاشتکاری ترک کرنا پڑ رہی ہے۔ جس کا اثر لامحالہ دہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی کی صورت میں نکلے گا جس کے بعد پہلے سے زیادہ بوجھ کے شکار شہری انفراسٹرکچر کو مزید دبائو برداشت کرنا پڑے گا۔ ان تمام مشکلات اور پریشانیوں سے نجات اورپاکستان کی معیشت میں زراعت کے اہم کردار اور دیہی آبادی کی جاری جدوجہد کے پیش نظر حکومت کو صرف بجلی کے نرخوں میں کم سے کم قیمت پر لانا ہوگا۔ بجلی کی قیمت کو کم کر کے حکومت کسانوں اور دیہی کاروباروں پر مالی دبا ؤکو کم کر سکتی ہے جو معیشت میں زیادہ حصہ ڈال کر پاکستان کی دیہی آبادی کے لیے مزید خوشحال اور پائیدار مستقبل کی طرف اہم سنگ میل ثابت ہوگا کیونکہ زراعت ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی اورایک مضبوط ستون ہے جب تک یہ طاقتور اور مضبوط نہ ہو تب تک ہماری کمر سیدھی نہیں ہوسکتی ۔اس سے پہلے کہ ہم زمین پہ لگ جائیں ہمیں اپنی زراعت کو ترقی اور کسان کو خوشحال کرناپڑیا گا کیونکہ کسان خوشحال پاکستان خوشحال ۔