... loading ...
دریا کنارے /لقمان اسد
میں تو سوچ سوچ کے ہار چکا۔ کوئی ہے جو یہ بتلائے کہ بے جرم مارے جانے والے جگرگوشوں کے لاشے جب مائوں کے آنگن میں جا پہنچتے ہیں تو ان مائوں کے دلوں پر گیا گزرتی ہوگی؟ جنوبی پنجاب کے مزدور تو اک عرصہ سے ان قاتلوں کا ہدف ہیں جن کے ہاتھوں پر دستانے چڑھے ہوئے ہیں ،گزشتہ دنوں جب دو بھائیوں کی لاشیں میرے ضلع پہنچیں تو دل میں اک ہوک اُٹھی کہ برس ہا برس سے اپنے قلوب میں مچلتے ان ارمانوں کے حسیں جذبوں کو یہ مائیں خون آلود بیٹوں کے لہو سے کس طرح رنگتی ہوں گی ؟بڑا بھائی اپنے چھوٹے بھائی کو ساتھ لے کر گیا کہ وہاں مزدوری کی اُجرت پنجاب سے زیادہ ہے لیکن جانے والوں کو شاید خبر نہیں ہوتی کہ ان کے معصوم بچے ہمیشہ ان کی راتکتے رہ جائیں گے میں تو گزشتہ کئی شبوں سے نیند کے بستر پر محوخواب نہیں ہوسکا مجھے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہر طرف سے مجھے ان بے جرم ،بے دردی سے مار دیے جانے والے خوبرو نوجوانوں کی مائوں کی آہوں ، سسکیوں اور آنسوئوں نے گھیر رکھا ہے اور مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان مائوں کا میں بھی اتنا ہی بڑا مجرم ہوں کہ جتنے بڑے مجرم ان کو اندھی موت کی گھاٹی میں اتار دینے والے بھیڑیے اور سفاک دہشت گرد۔
اللہ کے بندو! اٹھو،جاگو اور دشمن کے خلاف صف آرأ ہوجائو! یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک جنگل میں رہنے والے ہزارہا مختلف جنس اور مختلف نسل کے جانوروں کے درمیان میں سے بھیڑیے ،ہاتھی اور شیر کو الگ طور پر شناخت نہ کیاجاسکے اور یہ بھی کیسے ممکن ہے کہ ہمارے شہروں،بازاروں،مسجدوں اور بستیوں میں رہنے اور بسنے والے انسانوں میں سے ان چند کرائے کے ٹٹوئوں ، سرتاننگ ِ انسانیت ،انسان دشمنوں اور جانوروں سے بھی بدتر ظالموں کی پہچان ہم نہ کرپائیں۔ انہی صفحات پر عرض کرچکا ،مکررعرض کئے دیتاہوں۔۔ہم ایسے لیڈروں سے امن ،انصاف اور اپنے تحفظ کی بھیک کب تک مانگتے رہیں گے؟جن کا اب کے ان لہو لہو دنوں میں بھی کاروبار سیاست یہ ہے کہ مخصوص نشستوں پر ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے خمار نے جنہیں ہر قومی الجھن اور پریشانی سے ذہنی طور پر دور کر رکھا ہے۔ جو اپنے من پسند منصف کی مدت ملازمت بڑھانے کیلئے بے چین دکھائی دیتے ہیں بے ایمانی اور فریب کاری کی انتہا یہ ہے کہ الیکشن میں اپنے کاغذات نامزدگی میں ان میں سے اکثر کے کوائف پر جلی حروف میں درج ہوتا ہے کہ وہ کرائے کی کار استعمال کرتے ہیں اور ان غریب زادوں کے پاس ذاتی گاڑی ہے نہ ذاتی گھر۔ انداز ستم کا یہ قرینہ غور سے ذرا ملاحظہ کیجیے” سبحان اللہ” کروڑوں روپے جدھر جس کھیل میں ایک ووٹر ان امیدواروں سے لینے کا طلب گار ہے اور اس ووٹر کی اس شرط کو پورا کیے بنا یہ ووٹ کبھی اس سے حاصل نہیں ہوسکتامگرظلم،ستم اور مکاری کی حد دیکھئے کہ گھر بھی کرایہ کا ہے اور گاڑی بھی ذاتی نہیں۔ اتنی سادگی سے جناب کو واسطہ ہے، طبیعت اور مزاج دولت کے حصول کی طرف مائل ہی نہیں تو کیا ضرورت ہے قومی اور صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کی،خواہ مخواہ کروڑوں روپے اپنی حلال کمائی میں سے پھونک دینے کی اور وہ بھی بازار رشوت میں 2نمبرووٹ خریدنے کی تمنائے بے تاب کی نذر کرنے کی ۔ جناب اگر اس قدر درویشی مزاج کے مالک ہیں تو بازار میں ایک منفرد سٹور کھول کر عوام کو مناسب ترین داموں میں ضروریات زندگی فروخت کرنے پر اپنی ایماندارانہ صلاحیتیں صرف کرنا چاہئیں کیونکہ ایک عرصہ سے کارزار سیاست میں ہونے کے باوجود بھی آپ اس قابل نہی ہوپائے کہ اپنے کاغذات نامزدگی کی تفصیل کے خانوں میں اپنے ذاتی گھر اور اپنی ذاتی گاڑی کے حوالہ کو اندراج کرسکتے۔ ہمارا حال تو اس ساغر صدیقی سا ہوا جاتاہے۔۔
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
یا اللہ! ہمیں معاف فرما دے تو بہت مہربان،رحیم اور کرم فرمانے والا ہے، ہمیں ہمارے گناہوں کی پکڑ سے آزادی بخش اور ہمیں نجات کا راستہ دکھلا دے ، یہ کیسے لوگ ہم پر مسلط ہیں، شب روز جن کے ایک نئے جھوٹ کے ساتھ آغاز کرتے اور بدترین جھوٹ کے ساتھ ہی اختتام پذیر ہوتے ہیں۔ لالچ،طمع،خودپسندی اور خود فریبی میں مبتلا یہ شاہی نودولتیہ طبقہ اب ہماری زندگیوں کے درپے ہے، خدا خوفی انہیں نہیں اور نہ ہی خدا تعالیٰ کے حضور جوابدہی کا کوئی تصور ان کے اذہان میں کہیں ملتا دکھائی دیتاہے کہ مرجانے کو بھی گویا یہ طبقہ کوئی رواج ہی خیال کرتا اور گردانتاہے، وگرنہ اس قدر ایک حکمران طبقہ کے تصورات ، سوچ، فکر اور خیالات میں آخر کیونکر محض ذاتی مفادات کا تحفظ ہی ہر وقت نمایاں طور پر سرفہرست ہے۔ دوستو!میں نے تو بہت سوچا اور بہت حد تک میری سمجھ سے تو یہ بالاتر ہیں چلو تم ہی بتادو!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔