... loading ...
جاوید محمود
میرے کالج کے دوست صغیر چودھری کے بیٹے محمد اریب دوران تعلیم اپنے والد سے کہتے تھے کہ میں ملک چھوڑ کر نہیںجاؤں گا۔ مجھے میرے دوست کی رواں ہفتے فون کال آئی جس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ ان کا بیٹا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے کینیڈا جا رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان سے بہترین ذہین لوگ ملکی حالات کے پیش نظر ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں۔
ماہر معاشیات کہتے ہیں کہ ملک حقیقت میں دیوالیہ ہو چکا ہے لیکن ابھی تک اس کا اعلان نہیں کیا گیا ۔جبکہ کرپشن اپنے عروج پر ہے۔ سیاسی استحکام کا کوئی وجود نہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ معاشی بحران نے سر اٹھایا ہوا ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان نے 1990کی دہائی کی وسط سے 2023 کے مالی سال تک انڈیپنڈنٹ پاؤر پروڈیوسرز آئی پی پیز کو خفیہ طور پر 1.217 ٹریلین روپے کے ٹیکس وقفے وقفے سے فراہم کیے ہیں۔ یہ رقم رواں مالی سال کی صلاحیت کی ادائیگیوں میں متوقع 2.09 ٹریلین روپے سے زیادہ ہے۔ آئی پی پیز جن میں سے بہت سے پاؤر سیکٹر سے منسلک 40 بااثر خاندانوں کے زیر کنٹرول ہیں ،نے کارپوریٹ ٹیکس میں نمایاں چھوٹ سے فائدہ اٹھایا ہے۔ یکم جولائی 1988 کے بعد قائم ہونے والے پاؤر پلانٹس چلانے والی ملکی اور غیر ملکی کمپنیاں ان چھوٹ سے مستفید ہوئی ہیں، تب سے یکے بعد دیگر حکومتوں نے جمہوری اور مطلق العنان دونوں نے تقریبا پانچ پاور پالیسیاں نافذ کیں جس کے نتیجے میں 106آئی پی پیز کی تا حیات ٹیکس جھوٹ دی گئی۔ سرکاری ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ آئی پی پیز کے لیے ٹیکس چھوٹ کا ڈیٹا 19۔2018تک رپورٹ کیا گیا تھا لیکن اس کے بعد ختم ہو گیا۔ چھوٹ کے اعداد و شمارکو دیگر شعبوں کے ساتھ ملا دیا گیا تاکہ ان کی حقیقی قدر کو واضح کیا جا سکے ۔ماہرین اقتصادیات کے مطابق 1990کی دہائی کے وسط سے-18 2017 تک یہ ٹیکس چھوٹ 1ٹریلین روپے تھی ۔ انہوں نے آئی پی پیز کو قیمتوں کے تعین کے طریقہ کار سے فائدہ اٹھانے کے طور پر بیان کیا جو ان کی صلاحیت اور ایند ھن کے اخراجات کا احاطہ کرتا ہے جس سے ان کے مارکیٹ کے خطرے کو نمایا ںطور پر کم کیا جاتا ہے اور اکثر انہیں ایکوٹی پر زیادہ منافع ملتا ہے۔ یہ تو ایک حقیقت ہے کہ ملک میں کرپشن ہر شعبے میں اپنا اہم کردار ادا کر رہی ہے لیکن آئی پی پیز میں ہونے والی کرپشن نے بجلی کے بلوں میں وہ طوفانی اضافہ کیا ہے جس کی وجہ سے غریب اور درمیانے طبقے کے لوگوں کی کمر ٹوٹ گئی ہے ۔اس میں پاکستان کو اس وقت توانائی کے شدید بحران کا سامنا ہے جو ملکی معیشت معاشرت اور غذائی تحفظ کو متاثر کر رہا ہے۔ بجلی کے بلوں میں 100سے 200فیصد اضافہ ہوا ہے اور اب یہ اوسط پاکستانی گھرانے کی آمدنی کا 15سے 20 فیصد بنتا ہے۔ حکومت گھریلو بلوں میں 24فیصد کمرشل بلوں میں 37فیصد اور صنعتی بلاؤں میں 27فیصد ٹیکس شامل کرتی ہے۔
پاکستان کا توانائی کا بنیادی ڈھانچہ پرانا ہے اور فوسل فیول پر زیادہ انحصار کرتا ہے ۔ملک میں توانائی کا خسارہ 6000میگا واٹ ہے اور گرام دی بل سات ارب ڈالر ہے۔ توانائی کے بحران نے غربت اور سماجی بے چینی میں اضافہ کیا ہے۔ بہت سے لوگ اپنے خاندان کے لیے کھانا خریدنے کے لیے جدید کر رہے ہیں اور کچھ بھوکے سو رہے ہیں۔ توانائی کے بحران نے معاشی ترقی کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ مینو فیکچرنگ اور زراعت کو خطرہ لاحق ہے اور بے روزگاری اور مہنگائی کو جہنم دیا ہے۔ پاکستان کا پاؤر سیکٹر چیلنج جو کہ ایک پیچیدہ جال میں پھنسا ہوا ہے جس کی خصوصیت دائمی کم سرمایہ کاری بجلی کی ناکارہ پیداوار اور تقسیم کا غیر فعال نیٹ ورک ہے۔ اس شعبے کی تاریخ غلط پالیسیوں بدعنوانی اور طویل بجلی کی ناکارہ پیداوار اور تقسیم کا غیر فعال نیٹ ورک ہے۔ اس شعبے کی تاریخ غلط پالیسیوں بدعنوانی اور طویل مدتی منصوبہ بندی کے فقدان سے عبارت ہے۔ یہ عوامل ایک ایسے بحران پر منتج ہوئے ہیں جس کے معیشت معاشرے اور ماحولیات پر دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ حکومت کی پالیسیوں کے مرکب کے ذریعے بحران سے نمٹنے کی کوششوں بشمول بجلی کی پیداوار میں اضافہ اور سبسڈی سے چلنے والے شمسی توانائی کو اپنانے کے ملے جلے نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ اگرچہ ان اقدامات نے کچھ ریلیف فراہم کیا ہے لیکن انہوں نے سرکلر ڈیٹ اور غیر موثریت جیسے بنیادی مسائل کو بھی بڑھا دیا ہے۔ ان چیلنجوں کا بوجھ غیر مناسب طور پر صارفین پر پڑا ہے۔ بجلی کی بڑھتی قیمتوں سے قوت خرید میں کمی اور سماجی اطمینانی بڑھ رہی ہے۔ پاکستان میں جی ڈی پی کی نمو کی پیش گوئیاں اگلے چند سالوں میں صرف معمولی اضافے کی تجویز کرتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بجلی کی طلب میں متوقع اضافہ ڈرامائی کے بجائے بتدریج ہوگا۔
پاکستان میں اس موسم گرما میں ہر مہینے کے آخر میں بجلی کے صارفین کی جانب سے اپنے بجلی کے بل ادا کرنے سے قاصر ہونے کی وجہ سے متعدد خودکشیاں دیکھنے میں آئیں۔ بحران عروج پر پہنچ گیا جس میں بجلی کے بلوں میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا اور اس کے نتیجے میں بہت سے لوگوں نے ادائیگی نہ کرنے پر اپنی جانیں لے لیں۔ رپورٹ کے مطابق ان میں بہت سے دوسرے لوگوں کے علاوہ اسلام اباد میں پل سے چھلانگ لگانے والا ایک بوڑھا شخص فیصل آباد میں خود کو گولی مارنے والا نوجوان پشاور میں ایک ٹیلی فون آپریٹر جس نے خود کو آگ لگا لی اور شیخوپورہ میں زہریلی گولیوں کی زیادہ مقدار لینے والا عالم دین شامل تھا۔ جہانیاں کے ایک اہم کیس نے خبروں کے ٹکروں پر غلبہ حاصل کیا جب چار بچوں کی ماں نے 10 ہزار پاکستانی روپے کے بل کے بعد اپنے بچوں کی بھوک کے بعد زہر کھا لیا جو خاندان ادا نہیں کر سکتا تھا۔ لاہور کے چرار پینٹ میں کرائے کے ایک چھوٹے سے کمرے میں رہنے والی تین بچوں کی بیوہ ماں فوزیہ بی بی کو بھی اگست میں 10 ہزار روپے کا بل موصول ہوا ۔بی بی پڑوسی ملٹری کی ملکیت والی ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی میں گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرتی ہے جہاں وہ تین مختلف گھروں میں کام کر کے ماہانہ 20 ہزار روپے کمانے کا انتظام کرتی ہے۔ تازہ ترین بجلی کے بل کا مطلب ہے کہ بی بی کے یوٹیلٹی بل اور کرایہ ہی اس کی ماہانہ آمدنی سے تجاوز کر گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس رپورٹ میں یہ چند واقعات ہیں حالانکہ ایسے سینکڑوں واقعات اخبارات کی روزانہ زینت بن رہے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ حکمراں اس جانب توجہ نہیں دی رہی ۔حکومت سے بجلی کا نظام تک نہیں چلایا جا رہا۔ آئی پی پیز سے کیے گئے معاہدے پاکستانی معیشت کا خون چوس رہے ہیں ۔پاکستان 40خاندانوں کا نہیں۔ ان 40خاندانوں کو بچانے کے لیے ملک کو دعاؤں پر نہیں لگایا جانا چاہیے۔ المیہ یہ ہے کہ امیر امیر ترین ہو رہا ہے جبکہ غریب غریب ترین ۔یہ وہ حالات ہیں جس نے نوجوان نسل میں مایوسی پھیلا رکھی ہے اور مایوسی کے بادل ہر آنے والے دن گہرے سے گہرے ہوتے چلے جا رہے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ نوجوان ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ تصور کریں محمد اریب پاکستان چھوڑنے پہ کیوں مجبور ہو رہا ہے۔ موجودہ ملک کے حالات کی روشنی میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں نوجوان ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں جو ملک کے لیے انتہائی خطرناک بات ہے ۔جب ملک سے پڑھے لکھے ذہین لوگ چلے جائیں گے تو آخر ملک میں پھر کیا بچے گا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔