... loading ...
میری بات/روہیل اکبر
ایک طرف ہم دنیا کے بلند ترین مقام پرہیں تو دوسری طرف پستیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔درمیان میں صرف ایک انچ کی لکیرکو جیسے ہی ہم وہ پار کرتے ہیں تو دوسری طرف ترقی ،خوشحالی اور سہولتوں کا عروج ہے جو انسان کو حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ دنیا کی خوبصورت ندی،نالوں ،دریائوں اور وادیوں سے گزرتا ہوا جیسے ہی میں پاک چائنا بارڈ خنجراب پر پہنچا تو خوبصورتی اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی اسی جگہ ہماری 2اے ٹی ایم مشینیں(نیشنل بینک اور حبیب بنک )بھی لگی ہوئی ہیں جن پر لکھا ہوا ہے کہ یہ دنیا کی بلند ترین مقام پر ہیں۔ اسی بلندی پر ہمارے جوان جو ڈیوٹیاں سر انجام دے رہے ہیں وہ بھی ناقابل یقین ہیں ۔اس ٹھنڈے ترین مقام پر کسی بھی ملازم کو حکومت نے سردی سے بچائو کے لیے کچھ نہیں دیا ہوا۔ ہماری حالت پر ترس کھاتے ہوئے چائنا نے ہی ایک کیبن دے رکھا ہے کہ اگر بارش ہو جائے تو اس چھوٹے سے کیبن میں پناہ مل سکے۔ اس بارڈر تک آنے کے لیے جو سڑک استعمال ہوتی ہے وہ بھی چائنا کا ہی تحفہ ہے۔ ہمارے بارڈ پر کسی بھی گاڑی کو چیک کرنے کے لیے کوئی آلات نہیں ہیں اور نہ ہی چیک ہوتی ہے جبکہ چائنا نے چیکنگ کا جدید نظام بنانے کے ساتھ ہی بارڈر لکیر سے موٹر وے طرز کی سڑک بنائی ہوئی ہے۔ ان کے سیکیورٹی اداروں کے پاس موسم کے مطابق جدید اور بہترین وردی ہے جو شدید برف باری میں بھی جسم کو گرم رکھتی ہے۔ ان کے مقابلہ میں ہماری قراقرم بارڈر فورس کے لیے چائے بنانے کی بھی سہولت نہیں۔ میں سلام پیش کرتا ہوں اپنے جوانوں کو جو اتنی سختی میں بھی اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں۔
پاک چین بارڈ گلگت بلتستان میںدنیا کے بلند ترین مقام پر ہے اور یہاں تک جاتے جاتے ایسے ایسے خوبصورت اور دلفریب نظاروں سے گزرنا پڑتا ہے کہ ہر وادی میں زندگی گزارنے کو دل کرتا ہے۔ ہماری یہ سرحد 596 کلومیٹر (370 میل) قراقرم پہاڑوں کے درمیان سطح سمندر سے 4,693 میٹر (15,397 فٹ) کی بلندی پر واقع ہے جو دنیا کے بلند ترین پہاڑی سلسلوں میں سے ایک ہے ۔دنیا کا دوسرا بلند ترین پہاڑ K2 بھی اسی سرحد پر واقع ہے۔ ہنزہ اور نگراس سرحد کے قریب ترین اضلاع ہیں ۔دونوں طرف سے آنے والا سامان سوست میں آتا ہے جہاں ڈرائی پورٹ ہے۔ اس ڈرائی پورٹ کے عملہ سے تاجر حضرات بھی اتنے ہی تنگ ہیں، جتنے کہ کسی اور ڈرائی پورٹ سے۔ متعدد بار سوست میں تاجروں نے ٹیکسوں کی بھر مار اور کسٹم حکام کی بدمعاشیوں کے خلاف احتجاج بھی کیا لیکن یہاں پر تاجروں کی یونین نہ ہونے کی وجہ سے مسائل جوں کے توں ہیں۔ سوست میں اس وقت جو دوکانیں بنی ہوئی ہیں ان پر بھی شاہ عالم مارکیٹ لاہور کا ہی مال نظر آتا ہے۔ اس علاقے میں کوئی ڈیوٹی فری شاپ ہے اور نہ ہی سیاحوں کی سہولیات کے لیے کوئی مرکز ہے ۔بلکہ جو بھی پاکستان بارڈر تک جانے کا خواہش مند ہوتا ہے ان سے 5سو روپے فی آدمی کے حساب سے پیسے لیے جاتے ہیں ۔غیرملکیوں سے تقریبا 12ڈالر لیے جارہے ہیں۔ چین کی بنائی ہوئی اس سڑک پر حکومت پیسہ اکٹھا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ سوست سے خنجراب پاس کو جائیں تو راستے میں بائیں جانب ایک سڑک اوپر کی طرف مسگر وادی کو جاتی ہے جو انتہائی بلندی پر ہے۔ اس وادی کے لوگ خوبصورت ،جفاکش اور ملنسار ہیں۔ یہاں ہر شخص پڑھا لکھا ہے اوربہت سے نوجوان فوج میں اعلیٰ عہدوں پر تعینات ہیں ۔اس گائوں میں دو اساتذہ کرام جاوید اختر اور فریاد علی صاحب سے بھی ملاقات ہوئی، جن کا کہنا تھا کہ جو اصل شاہراہ ریشم ہے وہ اسی گائوں سے گزرتی تھی جو آگے جاکر تین ممالک کے بارڈرز سے مل جاتی ہے۔ ان تین ممالک میں چین ،افغانستان اور روس شامل تھے لیکن حکومت نے 1966میں شاہراہ ریشم کو تبدیل کردیا جس پر سڑک1982میں مکمل ہوئی ۔یکم جون 2006 سے، گلگت سے کاشغر، سنکیانگ تک بس سروس بھی چل رہی ہے اور اب تو لاہور سے بھی چائنا تک بس چل پڑی ہے ۔ان علاقوں میں بجلی اور موبائل نیٹ ورک کا بڑا بحران ہے پاکستان کے مختلف شہروں سے آنے والے لوگ جیسے ہی گلگت بلتستان پہنچتے ہیں تو وہ اپنے گھر والوں ،رشتہ داروں اور دوستوں سے کٹ جاتے ہیں۔ ان علاقوں میں صرف ایس کام ہی کام کرتا ہے جسکے انٹرنیٹ کی اسپیڈ بھی نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ ناقابل بیان ہے ۔اکثر اوقات تو پوری رات بجلی غائب رہتی ہے ۔کشمیر اور گلگت بلتستان میں عوام کو ایک فائدہ تو ہے کہ انہیں بجلی انتہائی کم قیمت پر ملتی ہے جبکہ پاکستان بھر میں بجلی کے بڑھتے ہوئے بلوں نے عوام کی چیخیں نکلوا رکھی ہیں جن گھروں میں ایک پنکھا ،پانی والی موٹر اور استری چلتی ہے انہیں 30ہزار سے زائد بل آنے کی وجہ سے ان کے میٹر اتر چکے ہیں کچھ لوگوں نے گھروں کا سامان بیچ کر اپنے بل جمع کروائے ہیں اس کے ساتھ ساتھ بجلی کے مہنگے نرخوں نے پاکستان میں بہت سی صنعتوں کو بند کرنے یا آف گرڈ جانے پر مجبور کر دیا ہے۔مینوفیکچرنگ سیکٹر، جو معیشت کے استحکام اور توسیع کے لیے ناگزیر ہے، بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمت سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ مہنگی بجلی یہ مسئلہ بہت سے کاروباروں کی بقا کو خطرے میں ڈالنے کے علاوہ روزگار اور معاشی ترقی کے لیے نقصان دہ بن چکا ہے۔ا سٹیل، سیمنٹ، ٹیکسٹائل اور مینوفیکچرنگ انڈسٹری شدید متاثر ہوچکی ہے ۔کاروباری اداروں کو زیادہ بلوں کے علاوہ بجلی کی بندش سے بھی نمٹنا پڑرہا ہے ۔ ان مسائل کی وجہ سے، کاروبار توانائی کے متبادل ذرائع تلاش کرنے یا مہنگے بیک اپ جنریٹرز خریدنے پر مجبور ہیں ۔بیک اپ بجلی کی سرمایہ کاری اچانک رکاوٹوں کو کم کر سکتی ہے، لیکن ان کے نتیجے میں اکثر آپریشنل اخراجات بہت زیادہ ہوتے ہیں، جو منافع کے مارجن کو کم کرتے ہیں اور مسابقت کو کمزور کرتے ہیں۔ اگرچہ پاور سیکٹر کی کارکردگی کو بڑھانے اور توانائی کے متبادل ذرائع پر غور کرنے کے لیے کئی ناکام کوششیں کی گئی ہیں، توانائی کے شعبے کی تشکیل نو کے لیے ایک جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ۔حکومت کو چاہیے کہ پائیدار سطحوں پر محصولات کو برقرار رکھنے کے لیے طویل مدتی نقطہ نظر کو توانائی کی پیداوار کو بڑھانے، بنیادی ڈھانچے کو بڑھانے، اور زیادہ مسابقتی توانائی کی مارکیٹ بنانے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ اس وقت بہت سی فرمیں توانائی کے زیادہ ٹیرف کی وجہ سے شمسی اور ہوا کی توانائی جیسے قابل تجدید توانائی کے ذرائع میں سرمایہ کاری کر کے گرڈ سے باہر جانے کا انتخاب کر رہی ہیں ۔یہ ایک ایسا مالی بوجھ ہے جسے بہت سے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری برداشت نہیں کر سکتے۔ نتیجے کے طور پر یہ کمپنیاں مکمل طور پر کام بند کر دیتی ہیں ۔اگر صنعتیں کام جاری نہیں رکھتی تو معاشرتی بدامنی اور معاشی تنا ئوپیدا ہو سکتا ہے جس سے بے روزگاری میں اضافہ ہو گا اور ساتھ ہی جرائم بھی بڑھ جائیں گے جن سے بچنے کے لیے حکومت کو سخت اور فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔