... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
کنگنا رناوت کی ترقی ہوگئی ہے ۔ وہ اب نہ صرف رکن پارلیمان ہیں بلکہ اداکاری سے آگے بڑھ کر انہوں نے ہدایتکاری اور قلمکاری کی دنیا میں بھی قدم رکھ دیا ہے ۔ یکے بعد دیگرے فلاپ پر فلاپ فلم دینے والی کنگنا رناوت کو جب دوسروں نے اپنی فلم میں لینا چھوڑ دیا تو انہوں نے وزیر اعظم کے آشیرواد سے فلمسازی کے میدان میں قدم رکھا اور خرچ بچانے کے لیے خود ہی فلم کو لکھ کر اس کی ہدایتکار بھی بن گئیں۔ انہوں نے یہ سوچ کرایمرجنسی پر فلم بنائی کہ سارے بھگت مل کر اسے سوپر ڈوپر ہٹ کردیں گے لیکن ہائے افسوس کہ مودی سرکار کے اشاروں پر کام کرنے والا سینسر بورڈ ہی اس کی ریلیز میں رکاوٹ بن گیا یعنی ‘جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے ‘۔ کنگنا نے یہ فلم غلط وقت میں بنائی۔ وہ اگر اس کو بنانے کے لیے راہل کے اقتدار میں آنے کا انتظار کرتیں اورکانگریس اسے روکنے کی حماقت کرتے تو پورا سنگھ پریوار ان کی حمایت میں دست بستہ کھڑا ہوجاتا اور بغضِ معاویہ میں بعید نہیں کہ فلم سوپر ہٹ ہوجاتی لیکن ایسا نہیں ہوا۔
کنگنا رناوت کی اس فلم نے خود مودی سرکار کے لیے مسائل کھڑے کردئیے ہیں۔ اس کو روکنے کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ مودی سرکار ڈرگئی ہے ۔ چھپنّ انچ کے سینے کی ہوا نکل چکی ہے ۔ فلم ہویا سیاست دونوں جگہ جو ڈرجاتا ہے وہ مرجاتا ہے ۔ کنگنا کی ایمرجنسی نے وزیر اعظم کو اندرا گاندھی والی ایمرجنسی کی یاد دلا دی جس میں انہوں نے گرفتار ہونے کے بجائے انڈر گراونڈ ہونا پسند کیا تھا۔ یہ کیسا ڈر ہے جو وزیر اعظم بن جانے کے بعد بھی نہیں جاتا بلکہ اقتدار چھن جانے کے خوف سے بڑھ جاتا ہے ؟ اس حقیقت کا بلاواسطہ اعتراف کنگنا اس طرح کرتی ہیں کہ ”سینسر بورڈ نے تاحال میری فلم ‘ایمرجنسی’ کو ریلیز کا سرٹیفیکیٹ نہیں دیا۔کنگنا رناوت نے سوشل میڈیا پر زیرِ گردش افواہوں کی تردید کرتے ہوئے کہاکہ فلم کے چند مناظر کی وجہ سے سینسر بورڈ کے ممبران کو جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔سوال یہ ہے کہ مودی سرکار کے ہوتے سینسر بورڈ اپنے آپ کو غیر محفوظ کیوں محسوس کررہاہے ۔ امیت شاہ انہیں تحفظ فراہم کرنے میں ناکام کیوں ہیں؟
سینٹرل بورڈ آف فلم سرٹیفکیٹ (سی بی ایف سی) کے خوفزدہ ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کنگنا بولیں کہ اس نے فلم کی ریلیز کا سرٹیفیکیٹ روک دیا اور اب فلم سے اندرا گاندھی کے قتل اور پنجاب کے فسادات کے مناظر نکالنے کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے ۔ ظاہر ہے سینسر بورڈ یہ جرأت حکومت کے اشارے پر ہی کررہا ہوگا کیونکہ مودی حکومت نے ہر سرکاری ادارے کی آزادی پوری طرح سلب کررکھی ہے ۔ اس پر اظہارِ تاسف کرتے ہوئے کنگنا کہتی ہیں کہ اگر ہم فلم سے یہ مناظر ہی نکال دیں گے تو کیا دکھائیں؟، مجھے بھارت کے چند لوگوں کی سوچ پر افسوس ہے ۔ سوال یہ ہے کہ وہ لوگ کون ہیں؟ ڈرانے والے ، ڈرنے والے یا دونوں؟ یہ تو سیدھے سیدھے خود اپنی ہی سرکار پر سخت تنقید ہے ۔ کنگنا نے فلم کے پردے پر اندرا گاندھی بننے کی کوشش کی مگر حقیقت میں ناکام و نامراد سمرتی ایرانی بن گئیں جن کو فی الحال کوئی پوچھنے والا نہیں ہے اور خود کو خبروں میں رکھنے کی خاطر وہ راہُل گاندھی کی تعریف کے پُل باندھنے پر مجبور ہوگئی ہیں۔ سمرتی اور کنگنا کی میڈیا لڑائی نے ساس بہو کی مانند امیت شاہ اور مودی کی ناک میں دم کررکھا ہے ۔ ان لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ان کا کیا کریں؟کنگنا نے اپنی ایمرجنسی کا موازنہ ہالی ووڈ فلم اوپن ہائیمر سے کرتے ہوئے جب کہا اس میں میکبیتھ کا بادشاہ بننا مقدر ہے ، اور خنجر اس کے پیچھے آتا ہے جب وہ بادشاہ کو مار کر بادشاہ بن جاتا ہے ۔ اس کا ضمیر اسے ستاتا ہے …فلم ایمرجنسی کا مرکزی خیال یہ ہے کہ ہم میں سے بہترین لوگ بھی غرور کا شکار ہو سکتے ہیں۔ یہ جملے اندرا گاندھی پر صادق نہیں آتے جن کو کنگنا نے ‘بہترین لوگ’ کہا کیونکہ انہوں نے تو کسی کی پیٹھ میں خنجر نہیں گھونپا تھا بلکہ انہیں پڑھتے ہوئے مودی ، اڈوانی اور مارگ درشک منڈل کے نظارے سامنے آجاتے ہیں۔ کنگنا رناوت جھنجھلاہٹ کا شکار ہوکر اپنی پارٹی اور سرکار دونوں کی نادانستہ ناراضی مول لے رہی ہیں جو انہیں مہنگی پڑے گی۔ اپنی بدزبانی کے لیے مشہور کنگنا رناوت نے جب ادھو ٹھاکرے کو برا بھلا کہا تھا تو بی جے پی کی نظرِ انتخاب ان پر پڑی۔ اس کے بعد ازخودمنشیات کے استعمال کا اعتراف کرنے والی کنگنا نے ایوان میں راہل پر نشہ خوری کا الزام لگا کر ان کے نارکو ٹیسٹ کا مطالبہ کیا تو سنگھیوں کی آنکھوں کا تارا بن گئیں مگر پھر ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کی مخالفت اور کسان تحریک پر بے بنیاد الزامات لگا کر پارٹی کے لیے دھرم سنکٹ کھڑا کردیا۔
کنگنا نے ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہہ دیا کہ پنجاب میں کسانوں کی تحریک کے نام پر شرپسند عناصر تشدد پھیلا رہے ہیں اور وہاں ریپ اور قتل ہو رہے ہیں۔ رناوت نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر بی جے پی کی اعلیٰ قیادت مضبوط نہ رہتی تو کسانوں کی تحریک کے دوران پنجاب بنگلہ دیش میں تبدیل ہو چکا ہوتا۔ انہوں نے کہا تھا کہ تین متنازعہ زرعی بل واپس لے لیے گئے ، ورنہ ‘ان شرپسندوں’ کا بہت طویل منصوبہ تھا اور وہ ملک میں کچھ بھی کر سکتے تھے ۔ اس طرح کی بدزبانی سے پریشان ہوکر بی جے پی نے تو پہلے کسانوں پر بیان سے پلہ جھاڑا اور پھر پارٹی کے صدر جے پی نڈا اپنے دفتر بلا کر سرزنش بھی کی۔ پارلیمانی انتخاب میں کامیابی کے بعد کنگنا رناوت کو پہلا یادگار تحفہ چنڈی گڑھ ہوائی اڈے پر ملا تھا۔ وہاں پر سی آئی ایس ایف کی خاتون اہلکار نے اداکارہ اور سیاستدان کنگنا رناوت پر تھپڑ جڑ دیا ۔ خاتون اہلکار کلوندر کور کی جانب سے پنجاب میں کسانوں کے خلاف بیان دینے پر اداکارہ کو تھپڑ رسید کیا گیا تھا کیونکہ ان کی ماں بھی کسان تحریک میں شامل تھیں ۔ کنگنا نے اگر اس تھپڑ سے سبق سیکھ کر اپنی زبان کو لگام لگائی ہوتی تو جے پی نڈا سے ڈانٹ کھانے کی نوبت نہیں آتی۔
تھپڑ والی ویڈیو جب سوشل میڈیا پر جنگل میں آگ کی طرح پھیلنے لگی تو کئی بالی وُڈ ستار وں نے کنگنا کے حق میں بیانات دیئے مگر معروف گلوکار وشال ددلانی نے معطل شدہ پولیس اہلکار کی حمایت کرکے سب کو چونکا دیا۔ انہوں نے انسٹاگرام پر لکھا کہ میں کبھی بھی تشدد کا حامی نہیں ہوں، تاہم سی آئی ایس ایف کی خاتون اہلکار کا غصہ سمجھ سکتا ہوں۔ ددلانی نے یقین دہانی کی کہ اگر خاتون اہلکار کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی تو وہ اسے ایک اور ملازمت کی پیشکش کریں گے ۔ اس واقعہ کے بعد عین ہریانہ انتخاب سے قبل جب کنگنا رناوت نے کسان تحریک کے دوران عصمت دری اور قتل و غارتگری کے بے بنیاد الزامات لگائے تو حزب اختلاف کوبہترین موقع مل گیا اورسنیوکت کسان مورچہ سمیت کانگریس، عام آدمی پارٹی اور دیگر پارٹیاں کنگنا کے بیان کی آڑ میں بی جے پی پر حملہ آور ہوگئیں۔کانگریس نے کہا کہ اگر بی جے پی اپنی رکن پارلیمنٹ کے تبصروں سے متفق نہیں ہے تو اسے پارٹی سے نکال باہر کرے ۔ ملکارجن کھڑگے نے بیان دیا کہ کسانوں سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام مودی حکومت کی پروپیگنڈہ مشینری مسلسل ان کی توہین کرنے میں مصروف ہے ۔
راہل گاندھی نے ایکس پر لکھا، ”بی جے پی کی رکن پارلیمنٹ کا 378 دن کی میراتھن جدوجہد کے دوران 700 ساتھیوں کی قربانی دینے والے کسانوں کو ریپسٹ اور غیر ملکی طاقتوں کا آلۂ کارکہنا بی جے پی کی کسان مخالف پالیسی اور نیت کا ایک اور ثبوت ہے ۔ یہ شرمناک کسان مخالف بیان مغربی اتر پردیش، ہریانہ اور پنجاب سمیت پورے ملک کے کسانوں کی شدید توہین ہیں، جسے کسی بھی صورت میں قبول نہیں کیا جا سکتا”۔انہوں نے یاد دلایا کہ، ”کسانوں کی تحریک واپسی کے وقت جو حکومتی کمیٹی بنائی گئی تھی وہ ابھی تک سرد خانے میں ہے ، حکومت آج تک ایم ایس پی پر اپنا موقف واضح نہیں کر سکی، شہید کسانوں کے اہل خانہ کو کوئی راحت نہیں دی گئی اور ان کی کردار کشی جاری ہے ۔ کسانوں کی بے عزتی اور ان کے وقار پر حملہ کر کے مودی حکومت کا کسانوں کے ساتھ دھوکہ چھپایا نہیں جا سکتا۔ نریندر مودی اور بی جے پی کتنی ہی سازشیں کریں انڈیا کسانوں کو ایم ایس پی کی قانونی ضمانت دلوا کر رہے گا”۔ اس طرح کنگنا رناوت نے حزب اختلاف کا بہت بڑا فائدہ کردیاہے ۔ ا ب پورا سکھ سماج ایمرجنسی فلم کے خلاف برسرِ پیکار ہوگیا ہے اور جو فلم 24 نومبر 2023ء کو ریلیز ہونے والی تھی وہ 6 ستمبر 2024کو بھی ریلیز نہیں ہوسکے گی۔ یہ تو کوئی نہیں جانتا کہ فلم کب پردۂ سیمیں پر آئے گی مگر جب بھی ریلیز ہوگی سوپر فلاپ ہوجائے گی ۔ اس فلم کا نغمہ ‘سنہاسن کو خالی کرو’ اب وزیر اعظم نریندر مودی کو منہ چڑھا رہا ہے اور کنگنا نے جو مسائل پیدا کیے وہ اس نغمہ کی یاد دلاتے ہیں
میری نیند چرا کر لے گئے گوری تیرے کنگنا، او کنگنا
یہی پہن کے آؤں گی میں ایک دن تیرے انگنا ، او سجنا