... loading ...
معصوم مرادآبادی
ہندوستان میں اس وقت انصاف کے دوہرے نظام نافذ ہوچکے ہیں۔ ایک انصاف ملک کے اکثریتی طبقے کے لیے ہے اور دوسرا اس ملک کے کمزورطبقوں کے لیے ہے ۔ حالانکہ قانون نافذ کرنے والی مشنری کی یہ روش نئی نہیں ہے لیکن اس میں نئی بات یہ ہے کہ اب اسے پوری بے شرمی اور بے غیرتی کے ساتھ بروئے کار لایا جارہا ہے ۔ اس کا ثبوت حال ہی میں آبروریزی اور قتل کی دو وارداتوں سے ملتا ہے ۔ ایک واقعہ کلکتہ کا ہے جہاں ایک ٹرینی ڈاکٹر کی آبرویزی کے بعداسے وحشیانہطورپر قتل کردیا گیا، جبکہ دوسرا واقعہ اتراکھنڈ کے رودرپور کا ہے جہاں ایک نرس کو اجتماعی آبروریزی کے بعد وحشیانہ انداز میں قتل کرکے اس کے جسم کے اعضا نکال لیے گئے ہیں۔ کلکتہ کے واقعہ پر اس وقت پورے ملک میں احتجاج ہورہا ہے جبکہ رودر پور کے معاملے پر مکمل خاموشی ہے ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ کلکتہ میں آبروریزی اور قتل کا شکار ہونے والی ڈاکٹر کا تعلق اکثریتی فرقہ سے تھا جبکہ رودر پور میں اجتماعی آبروریزی اور قتل کا شکار ہونے والی نرس مسلمان تھی۔سبھی جانتے ہیں کہ کلکتہ کے آرجی کر اسپتال کے معاملہ کوسیاسی وجوہات کی بناء پر طول دیا جارہا ہے ورنہ اس ملک میں اس قسم کی گھناونی وارداتیں آئے دن ہوتی رہتی ہیں۔ کچھ دن شور شرابہ ہوتا ہے اور اس کے بعد ہر طرف خاموشی چھا جاتی ہے ۔ہاں جہاں کہیں سیاسی اتھل پتھل پیدا کرنا مقصود ہو، وہاں وہی سب کچھ ہوتا ہے جو اس وقت کلکتہ میں ہورہا ہے ۔ کلکتہ کی ٹرینی ڈاکٹر کی آبروریزی اور وحشیانہ قتل کیمعاملے کودسمبر 2012 میں دہلی میں ہوئے نربھیااجتماعی آبروریزی اور قتل کیس کی طرح ملک گیر سطح پر اچھالا جارہا ہے ۔انڈین میڈیکل ایوسی ایشن کی اپیل پر ڈاکٹروں نے ملک گیر ہڑتال بھی کی اور اور مریض دردر کی ٹھوکریں کھاتے رہے ۔آپ کو یاد ہوگا کہ نربھیاکیس کے بہانے ہی اس وقت کی کانگریس سرکار کی چولیں ہلائی گئیں تھیں اور سنگھ پریوارکی پوری مشنری اسی طرح اس میں لگ گئی تھی، جس طرح اس وقت کلکتہ کی ڈاکٹر مومتا کے معاملے میں لگی ہوئی ہے ۔ ورنہ کون نہیں جانتا کہ بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں آئے دن اس قسم کے گھناؤنے واقعات ہوتے رہتے ہیں، لیکن کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔اس وقت بھی مہاراشٹر میں دوطالبات کے جنسی استحصال کا معاملہ نمایاں ہے ۔
ہمارا مقصد ہر گز کلکتہ کے واقعہ کی سنگینی کو کم کرنا نہیں ہے ، لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ ملک گیر سطح پر اس معاملے میں جو احتجاج ہورہا ہے اور جس طرح ممتا بنرجی کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ،وہ پوری طرح سیاسی معاملہ ہے ۔میڈیا بھی اس وقتسیاسی موڈ میں ہے اور وہ عوام کی توجہ ڈاکٹر مومتا کے معاملے سے ہٹنے نہیں دینا چاہتا۔ یہی وجہ ہے کہ کلکتہ کے آرجی کر میڈیکل کالج کے واقعہ کے بعد بی جے پی کے اقتدار والی ریاست اتراکھنڈ میں اجتماعی آبروریزی اور قتل کی اس سے زیادہ سنگین جوواردات ہوئی ہے ، اس پر ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی ہے ۔تسلیم جہاں کے بھائی رفیع احمد نے اتراکھنڈ کے غدر پور سے رونگٹے کھڑے کردینے والی تفصیلات فراہم کی ہیں اور اپنی بہن کی اجتماعی آبروریزی وقتل کے معاملے میں اتراکھنڈ پولیس اور انتظامیہ پر سنگین الزامات عائد کئے ہیں۔ رفیع احمد نے بتایا کہ ان کی ہمشیرہ اتراکھنڈ میں رودر پور کے موٹیر اسپتال میں نرس تھی۔ اس کے لاپتہ ہونے کے بعد پولیس میں رپورٹ درج کرائی گئی لیکن پولیس تسلیم جہاں کو برآمد کرنے کے لیے کچھ نہیں کررہی تھی۔ جب اس کی اجتماعی آبروریزی اورقتل کا سراغ ملا تو پولیس نے نشے کے عادی ایک شخص کو پہلے چور کے طورپر حراست میں لیا اور بعدازاں اسے تسلیم جہاں کے قاتل کے طورپر نامزد کرکے معاملہ کو حل کرنے کا دعویٰ کیا۔رفیع نے اپنی بہن کی آبروریزی اور قتل میں کئی افراد کے ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس تفتیش کا رخ موڑ رہی ہے اور اصل ملزمان کو بچانے کی کوشش کررہی ہے ۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ تسلیم جہاں کی نہ صرف اجتماعی آبروریزی اور قتل کیا گیا بلکہ اس کے سرکے بال کاٹ کر جسم کے سبھی اعضاء نکال لئے گئے ۔ اتنا ہی نہیں شناخت مٹانے کے لیے اس کے چہرے پر کیمیکل ڈالا گیا۔ رفیع احمد نے اسے اجتماعی آبروریزی اور قتل کا منظم واقعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کا بہیمانہ عمل کوئی فردواحد انجام نہیں دے سکتا۔رفیع نے اس سلسلے میں موٹیر اسپتال کے کردار پر انگلی اٹھائی ہے ، جہاں تسلیم جہاں بطورنرس کام کرتی تھی۔واضح رہے کہ تسلیم جہاں 30جولائی کو رودرپور کے موٹیر اسپتال میں ڈیوٹی انجام دینے کے بعد گھر واپس نہیں آئی تھی۔ گمشدگی کی رپورٹ کے بعد پولیس نے اس کی لاش یوپی کی سرحد پر واقع گاؤ ں دبدبہ کی جھاڑیوں سے برآمد کی تھی۔بعدکو پولیس نے بریلی کے رہنے والے مشتبہ ملزم دھرمیندر کو راجستھان سے گرفتار کیا، جو نشہ کا عادی ہے ۔
کلکتہ کیس کے معاملے میں سب سے بڑا سوال یہ کیا جارہا ہے کہ آخر ملک میں طبی پیشے سے وابستہ افراد کے تحفظ کے انتظامات کیاہیں جو چوبیس گھنٹے اپنی خدمات فراہم کرتے ہیں۔ اس معاملے کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے بھی ازخود مداخلت کی ہے اورکلکتہ کیس کی تفتیش کے لیے ایس آئی ٹی تشکیل دی ہے ۔ حالانکہ اس معاملے کی جانچ پہلے ہی سی بی آئی کو سونپی جاچکی ہے ۔ ملک میں اس وقت کلکتہ کی ٹرینی ڈاکٹر کی آبروریزی اور قتل کے تعلق سے جو ماحول ہے اس کے پیش نظر جو کچھ بھی کیا جائے وہ کم ہے ، لیکن ہمارا سوال یہ ہے کہ ملک میں تسلیم جہاں کے معاملہ پر ایسی خاموشی کیوں چھائی ہوئی ہے ۔ وہ بھی تو طبی شعبہ سے وابستہ تھی اور اس کا کیس بھی کلکتہ کی ڈاکٹر کی طرح اتنا ہی حساس ہے ۔ مگر شاید ایسا اس لیے ہورہا ہے کہ تسلیم جہاں مسلمان تھی اور اس کے ساتھ جو گھناونی واردات ہوئی ہے وہ ایسی ریاست میں ہوئی ہے جہاں بی جے پی سرکار ہے ۔ بی جے پی سرکاروں میں مسلمانوں پر آخری درجے کا جو ظلم وستم ہورہا ہے اس کا ثبوت حال ہی میں مدھیہ پردیش کے چھترپور سے بھی ملاہے جہاں توہین رسالت کے خلاف احتجاج کی قیادت کرنے والے حاجی شہزاد کے عالیشان مکان پر بلڈوزر چلا دیا گیا ہے ۔ بلڈوزر کے ذریعہ ان کی کاریں بھی تہس نہس کردی گئی ہیں۔ایسی ہی کارروائی ایودھیا میں ایک مسلمان تاجرمعید خاں کے خلاف کی گئی ہے ۔ الزام ہے کہ وہ اوران کے ملازم نے ایک کمسن لڑکی کی آبرویزی کی تھی۔ معید خاں کی جو کمرشل بلڈنگ مسمار کی گئی ہے اس میں پچاس دکانیں اور ایک بینک تھا۔ان دونوں واقعات کے خلاف مسلمانوں میں شدید غم وغصہ اور
اشتعال ہے ۔سبھی جانتے ہیں کہبی جے پی سرکاروں میں عام طورپر مسلمانوں کے ساتھ دویم درجہ کے شہریوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے ۔بی جے پی پورے ملک میں تو خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے معاملوں کوزور وشور سے اٹھاتی ہے مگر ایسی ہی کوئی واردات اس کی اپنی سرکار میں ہوتی ہے تو اس کی لیپا پوتی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور مجرموں کو بچانے کا کام بھی کیا جاتا ہے ۔جیسا کہ تسلیم جہاں کے معاملے میں اتراکھنڈ میں کیا جارہا ہے ۔آپ نے دیکھا ہوگا کہ2002میں گجرات کی نسل کشی کے دوران بدترین ظلم وبربریت کا شکار ہونے والی بلقیس بانو کے مجرموں کو بچانے کے لیے بی جے پی سرکار نے کیا کچھ نہیں کیا۔اوّل توعمر قید کے سزا یافتہ ان بدترین مجرموں کو ‘اچھے کردار’ کا انسان قرار دے کر جیل سے رہا کردیا۔بعد کو سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعدجب ان بدترین مجرموں کو دوبارہ سلاخوں کے پیچھے بھیجا گیا تو پھر انھیں پیرول پر رہا کیا جانا لگا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اجتماعی آبروریزی اور قتل کے مجرموں کے ساتھ بی جے پی کی اپنی سرکاروں کا رویہ کتنا دوستانہ ہے ۔ گجرات سے اتراکھنڈ تک سب کچھ دنیا کے سامنے ہے ۔ دنیا کا یہ دستور ہے کہ انصاف کا پیمانہ ہمیشہ طاقتور کی طرف جھکتا ہے ۔آج ہمارے ملک میں یہی ہورہا ہے ۔