... loading ...
زریں اختر
یک طرفہ محبت اور یک طرفہ نفرت کی طرح جنسی استحصال بھی یک طرفہ و دوطرفہ ہوتاہے، فرق اس میں یہ ہے کہ یک طرفہ میں استحصال ایک فریق کا ہوتا ہے جو عام طور پراورزیادہ تر معاملات و حالات میں عورت ہوتی ہے۔ دوطرفہ میں استحصال فریقین میں سے کسی کا نہیں ہوتا،الٹا وہ مزے کرتے کراتے ہیں اور دور رس(معاشی و اختیاراتی) فائدے حاصل کرتے ہیں ۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ یہاں لفظ ”استحصال” کیوںاستعمال کیا جارہا ہے ؟کہیں اس طرح لفظ’ استحصال’ کا’ استحصال’ تو نہیں ہورہا ؟ قلم کار لفظ کے استعمال کی ذمہ داری اٹھانے اور قبول کرنے کا پابند ہے تو عرض ہے کہ ہمارے اطراف جو استحصالی نظام کام کررہا ہے اس میں ”جنسی تعلقات” بڑا کردار ادا کررہے ہیں۔لہٰذا استحصال کی وہ قسم جس میں جنسی تعلقات کی کارفرمائی ہو ”جنسی استحصال ” کہلاتے ہیں(گویا جنس خود گریا کناں ہے کہ اسے جس مقصد ِ عظیم یعنی نسل ِ انسانی کی بقااور بالخصوص امت مسلمہ میں اضافہ کے لیے ودیعت کیا گیا تھا وہ ایک طرف اس سے زائد و ناجائز کام لے رہا ہے اوردوسری طرف اوور ٹائم لگا کر ساتھ معاشی مزے الگ اٹھا رہاہے )۔
یک طرفہ جنسی استحصال جنسی بھوک کی حیوانی شکل ہے ، یہ شکل جن جن شکلوں میں سامنے آتی ہے وہ الگ ہولناک داستانیںرکھتی ہیں ۔ اس میں ایک فریق خود کو مجبور ، لاچار اور بے بس پاتا ہے ، اپناآپ ‘مردانہ’ حالات کے سپرد کرتاہے اور کوئی اٹکا ہوا مسئلہ سیدھا کر لیتا ہے بعد میں خواہ کڑھتا رہے اوردوسرے کو خود کو حالات کوگالیاں دیتارہے۔ آج کل ملیا لم کی فلم انڈسٹری کی خبریں یک طرفہ جنسی استحصال کے خلاف ایک بڑی مثال اور بیداری کی لہر ہے ۔ قانون پاکستان میں بھی بن گیاہے ، قانون سازی بڑا قدم ہے لیکن قانونی راستہ اختیارکرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی اور جو یہ راستہ اختیار کرتاہے وہ نظیر ضرور بنتاہے سنگ ِ میل نہیں ، سنگِ میل اجتماعی آواز بنتی ہے جیسا کہ ملیا لم مولی وڈ میں ہو رہا ہے۔
دوطرفہ جنسی استحصال فریقین کی باہمی رضامندی سے خوشی خوشی ہوتاہے ، دونوں اپنے اپنے نصب العین کے حصول کے لیے جان توڑ کوششیں کررہے ہوتے ہیں، پھر دونوں اپنے اپنے مقاصد حاصل کرلیتے ہیں اور ٹاٹا بائے بائے کرتے ہیں ،اس ان کہے ان سنے ایفائے عہد کے ساتھ کہ اگر وقت نے دونوں کو پھر ملایا تو اسی طرح ضروراور خوشی خوشی ملیں گے کہ خوشیوں بھرے رستے یہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر فریقین رضامند ہیں تو استحصال کس چڑیا کا ہوا؟جواب یہ ہے کہ ہمارے اطراف جو نظام پھل پھول رہا ہے، جو فصل بوئی جارہی ہے ، جو کھیت لہلہا رہے ہیں،جو پیداوار بڑھ رہی ہے، اس کی بنیاد میں جو بیج بوئے گئے ہیں ان میںدو اہم بیج ”سیاسی و سیکسی” کے ہیں؛ تو استحصال کس کا ہوتا ہے ؟ (ہنسیے گانہیں، یہ میرا ذاتی خوف ہے ، مجھے لگتاہے کہ اب اخلاقیات محض مضحکہ اڑانے کے لیے رہ گئی ہیں) اخلاقیات اور شفافیت کا اور قتل ہوتاہے میرٹ کا ۔
ایک صاحب ملے ،وہ پاکستان ٹیلی وژن کے ماحول کے بارے میں اپنے مشاہدات پر مبنی پروڈیوسروں کااور کہیں ان کی بیگموں کا نام لے کر پروڈیوسروں کے کمروں کو ان کی عین موجودگی میں بیک وقت دو پروڈیوسروں کی دائیں بائیں دو خواتین کے ساتھ مشغولیت کا تذکرہ کررہے تھے ، یہاں میںپہلے پریشان اور بعد میں الرٹ کہ مجھے کیا سوچ کر بتارہے ہیں ۔شاید یوں ہے کہ شوبز کی دنیا میں ہر ایک سیڑھی پر کوئی ایک اپنا خراج وصول کرنے کے لیے موجود ہے ۔ جو مضبوط سماجی پس منظر رکھتی ہوگی ،جن کے والد والدہ پروڈیوسر یا فن کار ہوں گے ان کے لیے حالات مختلف ہو ں گے لیکن شوقین خواتین کے لیے یکسر مختلف و برعکس و بدتر۔
اسی طرح ایک پی ایچ ڈی خاتون نے مجھ سے کہا کہ اگر کسی خاتون کے ساتھ بھی پی ایچ ڈی کرو تو وہ بھی” بھیجتی ہے”،قطع نظر اس کے کہ میں انہیں جانتی ہوںاتنا کھلا اعتراف کہ میرا منہ اور آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔
خوش شکل خواتین کے لیے اگر اچھی شکل استعمال کرنا چاہیں تو ہتھیار اور اگر نہ چاہیں تو مصیبت ہے ، بقول شاعر عالم گیر خان کیف (بشکریہ ریختہ)
اچھی صورت بھی کیا بری شے ہے
جس نے ڈالی بری نظر ڈالی
منٹو کے اپنے زرّیں خیالات و افکار کہ اس کے نزدیک عورت ہونا ہی کافی ہے۔ ہولناک خبروں کے مطابق زندہ کی بھی قید ختم ۔ سگمنڈ فرائیڈ کے نزدیک یہ فطری و پیدائشی بھوک ہے جس کے مظاہر بچپن سے ہی آشکار ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔پھر اس فطرت کی تہذیب ہوئی اور تہذیب نے اقبال کے اس شعر کے مصداق کہ
بے ذوق نہیں اگرچہ فطرت
جو اس سے نہ ہوسکا وہ تو کر
حقیقتاََ وہ کام کیا جو فطرت سے نہ ہوسکا ۔ مذہب نے اپنا کام کیا ،اخلاقیات نے اپنا اور دونوں نے مل کر ”مذہبی اخلاقیات” کے نام سے ”علمی و نظریاتی” سطح پرمشترکہ کام بھی کیا لیکن عملی سطح پر طور پر وہ(آدمی) حالیہ معروف و بد نام ‘طاغوت’ ہی ثابت ہوا،” آدمی”یعنی آدم کی اولاد، اس میں مردو زن دونوں شامل ہیں۔
لفظ جس تصور کو پیش کرتاہے ، بظاہر مہین لیکن فی الواقع واضح فرق کے ساتھ ؛ مثلاََ بے باکی اور بے ہودگی، صاف گو اور منہ پھٹ، مستقل مزاج او رڈھیٹ، اسی طرح سچائی اور پردہ دری کا فرق ۔ آدھاسچ جھوٹ کے برابر ہوتا ہے، اگر لکھو تو پورا سچ لکھو، یعنی وہ عہدے دار مرد کہ اگر اس کے پاس وہ عہدہ او راختیار نہ ہوتا تو عورت اس کے پاس نہ آتی، تو عورت کے نام سے پہلے اس کا نام آنا چاہیے ، یہ کہاں کا انصاف
ہوگا کہ صرف عورت کا نام آجائے ؟ خدا بھلا کرے معروف سینئر صحافی حمیرا اطہر کا کہ خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے شعبے میں منعقدہ ایک سیمینار میں انہوں نے کہا کہ میںنے خبر کو اس طور پر لکھنے پر اعتراض کیا کہ ”لڑکی اپنے آشنا کے ساتھ فرار”، جب کہ بھاگے دونوں ہیں۔”
دو طرفہ عمل میں بدنامی عورت کا مقدر کیوں جب کہ معاشرہ مردوں کا؟ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کسی گورنر کے لیے فرمایا جو تحائف وصول کررہے تھے کہ” وہ گھر میں بیٹھیں پھر دیکھیں کہ انہیں کتنے تحائف وصول ہوتے ہیں”۔ تحائف کی یہ بارشیں عہدے کے سبب ہیں۔ استحصال عہدے کا نا جائز و غیر قانونی استعمال ہے ، استحصال ‘میرٹ ‘کا اپنا کام نکلوانے کے لیے خود کو پیش کرنااور اس پیش کش کو قبول کرنا ہے۔ بل کلنٹن جنسی اسکینڈل اس کے عہدے کی وجہ سے بڑا مقدمہ تھااور ملیالم مولی وڈ اسیکنڈل اجتماعی آواز کی وجہ سے بڑا مقدمہ بنا ہے، می ٹو ایک بڑی تحریک بنی یہاں خود کو پیش کرنا بھی اتنا ہی مشکل ہے جتنا یک طرفہ جنسی استحصال میں، دو طرفہ جنسی استحصال میں کسی اعتراف کا کوئی سوال نہیں، لیکن سوال تو بنتاہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔