... loading ...
دریا کنارے /لقمان اسد
تیل کی قیمتوں میں اضافے کا معاملہ ہو تو حکومتی موقف سامنے آجاتا ہے کہ ”عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے باعث حکومت کے پاس تیل کی قیمتوں میں اضافے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا”۔
تیل کی قیمتوں میں اضافے کے دفاع میں حکومت کی جانب سے علاقائی ملکوں کی قیمتوں سے تقابلی جائزہ اور پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی (Petroleum Development Levy) کے ختم ہونے کے دلائل دیے جاتے ہیں ۔ اور یوں بے بسی اور لاچارگی کی تصویر بن کر عوام کو مسلسل کڑوا گھونٹ پینے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔لیکن اس کے برعکس اگر مسئلہ کا ذرا سا گہرائی میں جاکر تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ بے چارگی اور بے بسی ہمارے حکمرانوں کی خود مسلط کردہ ہے، نہ کہ یہ کوئی آفاقی حقیقت ہے کہ جس کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔تیل کی عالمی قیمتیں اوپیک (OPEC) کی جانب سے تیل کی سپلائی کم یا زیادہ کرنے سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں، البتہ یہاں پر اہم بات یہ ہے کہ سپلائی بڑھانے یا کم کرنے کا فیصلہ معیشت کے اصولوں یا مارکیٹ ڈیمانڈ کے مطابق نہیں کیا جاتا بلکہ عالمی قوتوں کے مفادات کی خاطر کیا جاتا ہے۔
ماضی کے اوراق اُٹھائیںجب امریکہ اور یورپ کو سستے تیل کی ضرورت تھی تاکہ اس سے ان کی صنعت، ٹرانسپورٹ اور معیشت کا پہیہ تیزی سے چلتا رہے تو اس وقت یہ تیل دہائیوں تک 25 ڈالر فی بیرل سے بھی کم قیمت پر فروخت ہوتا رہا، یعنی یہ تیل فرانس کے منرل واٹر سے بھی سستا بکتا رہا۔ ڈاکومینٹری فارن ہیٹ 9/11 کے مطابق سعودی عرب کے تیل سے امریکہ نے 88 کھرب ڈالر سے زائد کا فائدہ اٹھایا، لیکن اب جب کہ امریکہ کو اس بات کی ضرورت ہے کہ عالمی مارکیٹ میں تیل اور گیس کی مصنوعات کی قیمتیں زیادہ ہوں تاکہ اس کی شیل (Shale) پر مبنی تیل اور گیس کی مہنگی لاگت والی مصنوعات عالمی منڈی میں قابل فروخت (competitive) بن سکیں اور وہ ان کے مزید ذخائر کی تلاش میں آنے والی لاگت کو بھی پورا کر سکے، تو امریکہ اوپیک ممالک کے ذریعے ان مصنوعات کی سپلائی کم کروا دیتا ہے جس کے باعث ان کی قیمتیں بڑھنے لگتی ہیں اور امریکی شیل آئل اینڈ گیس کمپنیاں کامیاب ہونے لگتی ہیں۔ اسی نوعیت کے اقدامات کی بدولت امریکہ دنیا کا شیل آئل و گیس پیدا کرنے والا بڑا ملک بن گیا ہے۔
اسی طرح جب امریکہ کو ایران پر دبائو بڑھانا ہوتا ہے تو وہ بقیہ اوپیک ممالک کے ذریعے پیٹرولیم مصنوعات کی سپلائی کو بڑھا دیتا ہے۔ یوں عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں گر جاتی ہیں جس سے ایران کی معیشت کو زک پہنچتی ہے، جس کا ایک بڑا حصہ تیل کی فروخت سے حاصل ہونے والے منافع پر مبنی ہے۔لہٰذا عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ اکثر و بیشتر عالمی قوتوں کے مفادات کا تحفظ ہوتا ہے۔ اور ایسا اوپیک ممالک کے حکمرانوں کی عالمی قوتوں کے ساتھ ملی بھگت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اور ان اوپیک ممالک میں بہت سے مسلم ممالک بھی شامل ہیں۔
چنانچہ یہ مسئلہ مسلمان ممالک کے حکمرانوں کا خود مسلط کردہ ہے جس کو وہ چاہیں تو یکسر تبدیل کر سکتے ہیں۔ اگر عالمی قوتیں تیل کی قیمتوں کا تعین اپنے مفادات کے مطابق کرتی ہیں اور ان قیمتوں کے سامنے ”بے بس و لاچار” نہیں تو کس نے مسلمانوں کے حکمرانوں کو روکا ہے کہ وہ وسطی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے مسلم ممالک کو ایک ہی لڑی میں پرو کر ان کے وسائل کو یکجا کر دیں، جبکہ ہم جانتے ہیں کہ زیادہ تر تیل کے ذخائر مسلمانوں کے پاس ہی ہیں؟! لیکن وہ ایسا نہیں کرتے کیونکہ یہ ان کے اپنے مفادات کے خلاف ہے اور انہیں مسلمانوں کے مفاد سے زیادہ اپنا مفاد عزیز ہے۔
تیل اور گیس کی قیمتوں میں زیادتی کی ایک دوسری بڑی وجہ بھی ہے جو ہمارے حکمرانوں کے کنٹرول میں ہے۔ پیٹرولیم سیکٹر اسلام کے قانون معیشت کے مطابق عوامی ملکیت کے زمرے میں آتا ہے نہ کہ کسی شخص یا چند لوگوں کی نجی ملکیت میں۔ لہٰذا اگر اس سیکٹر کو اسلام کی رو سے عوامی ملکیت قرار دے دیا جائے تو ڈیلر کمیشن اور پیٹرولیم مارکیٹنگ کمپنیوں سمیت آئل سپلائی چین میں شامل پارٹیوں کا منافع ختم کر کے عوام کو ریلیف دیا جا سکتا ہے۔یوں ریاست عوام کی جانب سے اس سیکٹر کو ریگولیٹ کرے گی جس سے تیل اور گیس کی قیمتیں عالمی منڈی میں اضافے کے باوجود لوگوں کی دسترس میں رہیں گی۔ اور اس سیکٹر سے جو بھی منافع حاصل ہوگا، ریاست اسے عوام پر خرچ کرنے کی مجاز ہو گی۔ اس سیکٹر سے حاصل ہونے والا بھاری منافع جو اس وقت چند لوگوں کے ہاتھوں میں چلا جاتا ہے، وہ تمام عوام میں تقسیم ہوگا۔
سرمایہ دارانہ نظام میں یہ بہت بڑا مسئلہ ہے کہ چونکہ ان کے ہاں ” آزادیوں” کی فکر کو عقیدے کی حیثیت حاصل ہے، اس وجہ سے وہ ”ملکیت” سمیت تمام معاملات میں ” آزاد” ہیں۔ یوں تو بظاہر اپنے نام سے ” آزادی ملکیت” ایک بہت دلکش فکر معلوم ہوتی ہے لیکن ایک سرسری سے مطالعے کے بعد ہی یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ دراصل ”لوگوں کے معاشی استحصال کی آزادی” ہے۔کیونکہ جب لوگوں کو ملکیت کی مطلق آزادی حاصل ہوتی ہے اور نظام یہ ریگولیٹ نہیں کرتا کہ کس قسم کی اشیاء کو نجی ملکیت میں دیا جا سکتا ہے اور کس کو نہیں، تو نتیجتاً اثر و رسوخ اور سرمایے کے حامل چند لوگ ان وسائل کے بھی تنہا مالک بن بیٹھتے ہیں جن کا تعلق اصلاً لوگوں کی بنیادی ضروریات سے ہوتا ہے۔
یوں ان وسائل کے عوامی نوعیت کے ہونے کی وجہ سے وہ چند سرمایہ دار بھاری منافع خوری کرتے ہیں کیونکہ ریاست یا معاشرے کا ہر شخص ہی ان کا کسٹمر ہوتا ہے، اور اس طرح پیسہ تمام لوگوں کی جیبوں سے نکل کر صرف چند لوگوں کی جیبوں میں منتقل ہو جاتا ہے۔تبھی تو اس نظام کا نام سرمایہ دارانہ نظام یا کیپٹلزم (Capitalism) ہے، کیونکہ یہ صرف سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچاتا ہے، جبکہ اس کی بھاری قیمت عوام کو مہنگائی اور غربت و افلاس کی صورت میں ادا کرنی پڑتی ہے۔ ہمارے حکمران اگر چاہیں تو اس نظام کو ایک حکم نامے سے تبدیل کر کے اس کی جگہ پر اسلام کے معاشی نظام کو رائج کر سکتے ہیں۔ اس لیے بھی ان کے پاس اس بے بسی اور لاچارگی کا کوئی جواز نہیں جس کا وہ اظہار کرتے ہیں۔پھر جنرل سیلز ٹیکس جیسا ظالمانہ ٹیکس قیمتوں کی زیادتی کی ایک اور بڑی وجہ ہے۔ یہ وہ ٹیکس ہے جو ”بالواسطہ ٹیکس ” (Indirect Tax) کے زمرے میں آنے کی وجہ سے سبھی پر لاگو ہوتا ہے۔ یعنی چاہے کسی کے پاس کھانے کو روٹی تک نہ ہو، اسے بھی یہ ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے۔پھر اپنی نوعیت کے اعتبار سے ”جنرل” یعنی عمومی ہونے کی وجہ سے یہ ٹیکس ان اشیاء پر بھی لاگو ہوتا ہے جو ایک انسان کی بنیادی ترین ضروریات سے تعلق رکھتی ہیں۔ اگر ہمارے حکمران چاہیں تو عوام کو ایک لمحے میں اس قسم کے ظالمانہ ٹیکسوں سے چھٹکارہ دلا سکتے ہیں لیکن ایسا کرنے کی بجائے وہ اپنی بے بسی کا ایسے اظہار کرتے نظر آتے ہیں جیسے ان کے بس میں کچھ بھی نہ ہو۔انگریز کی کھینچی گئی سرحدوں میں قید اور مغرب کے مسلط کردہ ورلڈ آرڈر کی چوکھٹ پر سجدہ ریز رہ کر ہم مسلمان کبھی بھی ان بیڑیوں کو توڑ نہیں پائیں گے، خواہ وہ تیل کی عالمی قیمتوں پر موثر طور پراثر انداز ہونا ہو یا ڈالر کا عالمی تجارت پر کنٹرول توڑنا ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔