... loading ...
ریاض احمدچودھری
بھارتی ریاست اترا کھنڈ میں ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکومت نے یکساں سول کوڈ (یو سی سی) کا بل ایوان میں پیش کیا تھا، جسے سات فروری بدھ کے روز منظور کر لیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی اتراکھنڈ یکساں سول کوڈ کو منظور کرنے والی بھارت کی پہلی ریاست بن گئی ہے۔یہ قانون شادی، طلاق، جانشینی، وراثت اور لیو ان ریلشنز جیسے سویلین معاملات کے لیے ہے، جو پہلے مذہب کی بنیاد پر مسلم پرسنل لاء یا خصوصی ہندو قوانین کے تحت حل کیے جاتے تھے۔ مثلاً مسلم پرسنل لاء کے تحت مسلمانوں پر ایسے امور میں شرعیہ قوانین کا نفاذ ہوتا تھا۔تاہم حکومت نے ان کی جگہ اب سب کے لیے یکساں قانون وضع کر دیا ہے، البتہ ریاست کی قبائلی برادری کو اس سے مستثنی رکھا گیا ہے ـ کہا جا رہا ہے کہ اس قانون سے سب سے زیادہ مسلمان متاثر ہوں گے۔
کامن سول کوڈ کے اس قانون کے تحت دو شادیاں کرنا غیر قانونی ہو گا۔ طلاق اور شادی سے متعلق مذہبی نہیں بلکہ ریاستی قانون پر عمل ہو گا۔ مثلاً طلاق کے بعد ایک مسلم خاتون کو عدت گزارنے کی کوئی ضرورت نہیں اور وہ طلاق کے فوری بعد جب چاہے نکاح کر سکتی ہے۔تین طلاق پر بھارتی حکومت پہلے ہی پابندی عائد کر چکی ہے اور اب ریاستی قانون کے تحت حلالہ کرنے پر بھی پابندی عائد ہو گی۔ کزن، یعنی چچا زاد، پھوپی زاد، خالہ زاد اور ماما زاد بہنوں، سے بھی شادی ممنوع ہو گی۔وراثت میں اب بیٹے اور بیٹیوں کو برار کا حق ہو گا، یعنی جنسی تفریق کو ہٹانے کی بات کہی گئی ہے، جبکہ مسلمان اس حوالے سے شریعت اور قرآن کے احکام پر عمل کرتے ہیں۔
اتراکھنڈ کے وزیر اعلی پشکر دھامی نے صحافیوں سے بات چیت میں اس قانون کی تعریف کی اور کہا کہ “یہ قانون مساوات، یکسانیت اور مساوی حقوق کے لیے ہے۔یکساں سول کوڈ شادی، پرورش، وراثت اور طلاق جیسے معاملات میں بغیر کسی امتیاز کے سب کو برابری کا حق دے گا۔ یہ بنیادی طور پر خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کا سد باب کرے گا۔ اس بارے میں بہت سے شکوک و شبہات بھی تھے لیکن اسمبلی میں دو دن کی بحث نے سب کچھ واضح کر دیا، یہ قانون کسی کے خلاف نہیں ہے۔ یہ ان خواتین کے لیے ہے جنہیں سماجی مسائل کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس سے ان کی خود اعتمادی میں اضافہ ہو گا۔ یہ قانون خواتین کی ہمہ گیر ترقی کے لیے ہے۔اس بل پر بھارت کی معروف مسلم تنظیم جمعیت علماء ہند نے اس کی مخالفت میں صدا بلند کرتے ہوئے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی تھی۔تنظیم کے صدر مولانا ارشد مدنی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اس قانون سے شریعت کے اصولوں کو براہ راست خطرہ لاحق ہے اور مذہبی تعلیمات سے متصادم کوئی بھی قانون مسلم کمیونٹی کے لیے قابل قبول نہیں ہو گا۔ یو سی سی کے نفاذ سے “بھارتی آئین کے بنیادی اصولوں کو نقصان پہنچے گا۔ کوئی بھی ایسا قانون جو شریعت کے خلاف ہو، ہمیں منظور نہیں ہے، کیونکہ مسلمان ہر چیز سے تو سمجھوتہ کر سکتا ہے، اپنی شریعت اور مذہب سے ہرگز کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتا ہے۔ یکساں سول کوڈ کا جو بل منظور ہوا ہے، اس میں درج فہرست قبائل کو بھارتی آئین کی دفعہ 366 کے تحت نئے قانون سے مستثنیٰ کر دیا گیا ہے اور یہ دلیل دی گئی ہے کہ آئین کی دفعہ21کے تحت ان کے حقوق کو تحفظ حاصل ہے۔
وراثت کے سلسلے میں بھی مسلمانوں کے پاس ایک مکمل قانون ہے اور وہ بھی وفاقی قانون کے تحت محفوظ ہے، تو اس میں ترمیم کا حق ریاست کو کیسے حاصل ہے۔ “جنسوں کے درمیان وراثت کے حقوق کی برابری، جو کہ اسلامی قانون کے ان اصولوں سے متصادم ہے، جو قرآن میں موجود ہیں۔آل انڈیاا مسلم مجلس کے صدر اور رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے بھی اس بل کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ اترا کھنڈ کے یو سی سی قانون کا سب پر نفاذ ایک ہندو کوڈ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے یوم آزادی پر تقریر کرتے ہوئے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو ”یکساں سول کوڈ” نافذ کرنے کی دھمکی دی کہ مذہبی تقسیم کی بنیاد بننے والے قوانین ختم کر دیں گے۔ سپریم کورٹ بھیایک سول کوڈ کے نفاذ کا حکم جاری کر چکی ہے تاکہ ہم اس مذہبی امتیاز سے چھٹکارا حاصل کر لیں۔وزیراعظم مودی کے اس خطاب سے پورے ملک میں نئی بحث چھڑ گئی ہے اور بالخصوص مسلمان شدید بے چینی اور اضطراب کا شکار ہیں۔ مودی کے بھارت میں پہلے ہی مذہبی اقلیتوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے اور اس طرح کی قانون سازی سے اکھنڈ بھارت کو تقویت دی جا رہی ہے۔
بھارت کے بیشتر مسلم رہنماؤں نے ریاست اتراکھنڈ میں یکساں سول کوڈ سے متعلق بل کی منظوری کی شدید مخالفت کی ہے۔ مسلم تنظیموں کا کہنا ہے کہ کوئی بھی قانون، جو شریعت کے خلاف ہو، مسلمانوں کو منظور نہیں ہے۔