... loading ...
بے نقاب /ایم آر ملک
بلوچستان میں دہشت گردی کو شکست ہوگی، را کے ہاتھوں میں کھیلنے والے ناکامی سے دوچار ہوں گے ۔بابا صوفی برکت علی لدھیانوی نے فرمایا تھا کہ ”انشا اللہ ایک وقت آئے گا کہ پاکستان کی ہاں اور نا ں پوری دنیا کے فیصلوں پر اثر انداز ہوگی ”۔
یہ 2018کے الیکشن سے پہلے کی بات ہے اُس روز لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے لبوں پر یہ سوال تھا کہ دہشت کے ماحول میں کوئٹہ کے جلسہ میں اتنی بڑی تعداد نے خوف کا حصار کیسے توڑا ؟در اصل وہ حکومتی حواریوں کے پروپیگنڈے کی گرفت میں آئے ہوئے تھے تب اس نقطہ نظرسے اُنہیں اتفاق کرنا پڑا کہ لیڈر شپ محب وطن ہو تو خوف کے مد مقابل وہ موثر اور حقیقی طاقت بن جاتی ہے۔ اسی پس منظر نے خوف کو توڑا ۔
عمران ایک بہادر آدمی ہے جس کا اعتراف اعتزاز احسن نے بھی ایک موقع پر کیا تھا عمران نئی نسل کو ساتھ لے کر چلا ہے ،ا سٹیٹس کو کے خلاف کسی بھی خطہ میں کوئی بھی عوامی تحریک اُس وقت تک اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک نوجوانوں کی شمولیت یقینی نہ ہو جائے۔ تحریک انصاف کی لیڈر شپ اس وقت اصلاحات کے مرحلے پر کھڑی تھی ۔ اقتدار کا مرحلہ اس سے اگلا ہے تاہم عمران کو چاہنے والے نوجوانوں کی کثیر تعداد یہ چاہ رہی تھی کہ اصلاحات ماسوائے انقلانی طور طریقوں سے حاصل نہیں ہو سکتیں۔
نام نہاد خادم اعلیٰ شہباز شریف کی طرف سے لیپ ٹاپ کی دھڑا دھڑتقسیم بھی نوجوانوں کے جذباتی لگائو اور وابستگی کو نہیں توڑ سکی۔ تاہم عوامی حلقوں میں یہ احساص ضرور جاگا ہے کہ عمران کی جدوجہد کے نہ ٹوٹنے والے تسلسل نے ہر طبقہ فکر کو 78سالہ جمود کے خلاف تبدیلی کیلئے سوچنے پر مجبور کر دیا ہے ۔پاکستان کے اندر بہت سے لوگ اب بہت سے معاملات کے بارے میں نہ صرف بہت کچھ سوچ رہے ہیں بلکہ اُن کی بحث ایسے واقعات پر بھی جنم لے رہی ہے جن کے بارے میں ماضی میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا ۔ڈان لیکس پر آپ کسی شاہراہ کے کنارے کھڑے فروٹ فروش سے وہ سب حقائق جان پائیں گے جنہیں مقتدر حلقوں نے دانستہ پردے کے پیچھے چھپا لیا وہ آپ کو طارق فاطمی،پرویز رشید ،اور رائو تحسین کے بارے میں بتائے گا کہ ان لوگوں کو محض قربانی کا بکرا بنایا گیا ،ہدایت کار کوئی اور تھا ، وہ پانامہ لیکس سے لیکر راء کے ایجنٹ کلبھوشن تک سارے واقعات کی کڑیاں ملادے گا یہ تبدیلی نہیں تو اور کیا ہے ؟
قبل ازیں تو لاتعلقی کا یہ عالم تھا کہ سوچنے والوں نے تو جیسے سوچنا ہی ترک کردیا تھا ۔محب وطن تجزیہ نگار عوامی رائے عامہ کو اپنے تجزیوں میں اجاگر کر رہے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب رائے عامہ کے اکثر محور مراکز جن میں الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا بھی شامل ہیں۔ میں اکثر بڑے نام موازنے کے مظہر کے گھن چکر میں بری طرح گھرے ہوئے ہیں جن کا عمومیت سے کوئی سروکار نہیں اور یوں وہ ایک غلط طرز اپنانے کی وجہ سے غلط اندازوں اور تجزیوں کو عوام پر مسلط کرنے کی ناکام کوشش میں لگے ہوئے ہیں ۔اس کھلے تضاد کو سمجھنا آسان ہے کہ وہ عوام کو مایوسی سے دوچار کرنے کی جستجو میں مگن دکھائی دیتے ہیں ۔
حکومتی حواری اس بحث میں اکثر الجھ کر رہ جاتے ہیں کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا لہجہ انتہائی جارحانہ ہے،ایسا نہیں، عمران نے تو عوام کو اس ریاست میں حصہ دینے اور اُن میں اپنے پن کا شعور جگانے کی بھر پور سعی کی ہے۔ معروضی حالات اک عرصہ سے جس قیادت کا تقاضاکر رہے تھے ،وہ اپنی 19سالہ جدوجہد کے بعد حالات کے کینوس پر اُبھری ، مقتدر حلقوں سے یہ سوال جواب طلب ہے کہ الزام تراشی اور بیہودہ پن کی بنیاد کونسی جماعت بنی ؟اور حقائق ہمیشہ ٹھوس چیز ہوا کرتے ہیں سٹیٹس کو کی ساری قوتیں ،ریاستی پولیس یا موروثیت کے سیاسی میدان کی بات کریں ،عمران کے مدمقابل آکھڑی ہوئیں ۔کیا یہ سوچا جاسکتا تھا کہ ایک مشکل وقت میں فیاض چوہان ، اسد عمر ،عمران اسماعیل جیسے لوگ عمران سے لاتعلقی کا اظہار کردیں گے ؟یہ کریڈٹ صنف آہن ڈاکٹر یاسمین راشد ،خدیجہ شاہ ،عالیہ حمزہ ،صنم جاوید کو جاتا ہے جو جیل سختیاں جھیل گئیں ۔
اُس روز ایوب اسٹیڈیم کوئٹہ میں تاریخ کے ایک بڑے جلسے کا نعقاد ،ہاتھوں میں بڑے بڑے بینرز ،کتبے اور جھنڈے ،معاشی بد حالی۔ استحصال ،بھوک ،تنگدستی ،غربت ،بیماری ،جہالت اور سب سے بڑھ کر دہشت گردی کے خلاف ایک ایسی قیادت پر اعتماد کا اظہار تھا جو صرف پاکستان کی بات کرتی ہے۔ ایک مختصر کال پر اسی اعتماد نے آگ اور خون سے دل برداشتہ لوگوں کو گھروں سے نکلنے پر مجبور کر دیا۔ شاہ محمود قریشی کی للکار نے اس حوصلے کو تقویت دی کہ دہشت گردی کے خوف سے جہاں تین بڑی پارٹیا ںجلسہ نہ کر سکیں، پی ٹی آئی نے اس خوف میں دراڑ ڈال دی ۔وہ شخص جو اڈیالہ جیل کا قیدی ہے ،وہی وفاق کی علامت ہے ۔مجھے مقتدر حلقوں سے صرف یہ کہنا ہے کہ عمران کی ذات انتقامی جذبے سے بالاتر ہوکر سوچتی ہے ،اس کی اس بات کا یقین کر لیا جائے کہ فوج بھی ہماری ہے اور وطن بھی ہمارا ہے ۔وقت کی آنکھ دیکھ رہی ہے کہ درویش نے جو فرمایا وہ وقت آیا ہی چاہتا ہے۔ ملت کے نوجوان پاکستان کا پرچم تھام کر کرہ ارض پر چھانے والے ہیں ۔