... loading ...
ریاض احمدچودھری
مدھیہ پردیش کے مغربی اضلاع میں آدی واسیوں کی بڑی تعداد بستی ہے۔ان کی سرحدیں تین ریاستوں، گجرات، راجستھان اور مہاراشٹر سے ملتی ہیں۔ ہر چند ماہ بعد مدھیہ پردیش کے قبائلی اضلاع سے ان ریاستوں میں مزدوروں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوتی ہے۔ان لوگوں کو کام کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔بہت سے لوگ سفر میں ہی لاپتا ہو جاتے ہیں، خاص طور پر اگر وہ کم عمر ہیں اور ان کے پاس موبائل نہیں۔سوال یہ ہے، ان لوگوں کو ملازمتوں کے لیے اجتماعی طور پر باہر جانے کی ضرورت کیوں ہے؟ انہیں اتنے طویل اور ممکنہ طور پہ پْرخطر سفر کرنے کی کیا ضرورت پڑ گئی؟ مدھیہ پردیش حکومت کو ان تمام لوگوں کے لیے ملازمتیںپیدا کرنا چاہیں۔
مدھیہ پردیش میں ملازمت کے مواقع کی شدید کمی اس بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ علی راج پور جیسے قبائلی اضلاع میں ایک خوفناک منظر عام دکھائی دیتا ہے ۔۔نوجوان لڑکیاں اور خواتین صبح سویرے قطار میں کھڑی ہوتی ہیں۔اس عمل کو ”مزدور بازار” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہر صبح تقریباً نوجوان خواتین اور نوعمر لڑکیوں کو علی راج پور کی مرکزی سڑکوں پر واقع لیبر سرکل کی طرف پیدل جاتے دیکھا جا سکتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد موٹر سائیکل پر سوار مرد آتے اور اپنی ضروریات کی بنیاد پر ایک، دو یا زیادہ خواتین کو دن یا ہفتے کے لیے مزدوری پر لے جاتے ہیں۔ ‘ریٹ’ 150 تا200 روپے یومیہ ہے اور کام اوسطاً سات دن چلتا ہے۔
ایک وجہ جس کے باعث بہت سے لوگ شکایات کے اندراج میں ہچکچاتے ہیں، وہ بھارتی پولیس کے نظام میں واضح خرابیاں ہیں۔ بہت سے خاندانوں کا کہنا ہے کہ پولیس کا پہلا ردعمل یہ سمجھنا ہے کہ ”لڑکی ایک لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی”۔ لیکن پولیس حکام کا اصرار ہے کہ درحقیقت اکثر ایسا ہوتا ہے۔ممبئی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس دیوندر اپادھیا اور جسٹس امیت بورکر پر مشتمل ڈویژن بینچ نے لاپتا لڑکی کے والد کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ حکومت کو ریاست مہاراشٹر سے لاپتا ہونے والی ایک لاکھ لڑکیوں کو تلاش کرنے کا حکم دیا جائے۔
ممبئی ہائی کورٹ میں درخواست سنگلی سے تعلق رکھنے والے سابق فوجی سہاجی جگتاپ نے دائر کی تھی، جس میں کہا گیا ہے کہ 2019 میں اس کی بیٹی لاپتا ہوگئی جو کالج کے تھرڈ ایئر میں پڑھ رہی تھی۔جگتاپ نے تھانے میں رپورٹ درج کرائی مگر اس کی بیٹی کا کچھ پتا نہیں چل سکا۔ بعدازاں جگتاپ کو پتا چلا کہ اس کی بیٹی نے اسلام قبول کرکے ایک مسلمان سے شادی کرلی تھی۔اسی دوران جگتاپ کی نظر میں لاپتا لڑکیوں کی تعداد سے متعلق وزارت داخلہ کا ایک نوٹیفکیشن آیا جس میں بتایا گیا تھا کہ 2019 میں مہاراشٹر سے 35990 لڑکیاں لاپتا ہوئیں، 2020 میں یہ تعداد 30089 تھی جبکہ 2021 میں 34763 لڑکیاں گھر چھوڑ کر چلی گئیں۔درخواست کی سماعت کرتے ہوئی ممبئی ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ بچوں اور عورتوں کے لاپتا ہوجانے کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں، مگر ان کا سراغ لگانا اور انہیں تحفظ دینا ریاست کی ذمے داری ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں بچوں اور خواتین کا لاپتا ہونا ممکنہ طور پر انسانی اسمگلنگ کے باعث بھی ہوسکتا ہے۔
اکیسویں صدی میں بھارت بے شک معاشی قوت بن گیا ہے مگر ترقی و خوشحالی کے آثار صرف شہروں تک محدود ہیں۔قصبوں اور دیہات میں پہلے کی طرح غربت، بیماری، جہالت اور بیروزگاری کے امراض پھیلے نظر آتے ہیں۔اور انہی علاقوں میں بھارت کی بیشتر آبادی مقیم ہے۔گویا معاشی ترقی نے شہری باشندوں کو یقیناً خوشحال بنا دیا مگر وہ بھارتی دیہی آبادی کی پھوٹی قسمت بدل نہ سکی۔دیہی بھارت کو لاحق بیماریوں میں ایک بیماری یہ بھی ہے کہ وہاں چھوٹے چھوٹے بچوں سے کام کرائے جاتے ہیں۔دوسری سنگین بیماری یہ کہ بچوں ، لڑکیوں اور عورتوں کا اغوا یا گمشدہ ہو جانا عام ہے۔اس معاملے میں بھارتی ریاست، مدھیہ پردیش سرفہرست ہے۔یاد رہے، سابقہ ریاست بھوپال کا علاقہ اب مدھیہ پردیش کہلاتا ہے۔
سرکاری اداروں کے اعداد وشمار عیاں کرتے ہیں کہ صرف 2019ء تا 2021ء کے درمیان مدھیہ پردیش سے دو لاکھ لڑکیاں اور عورتیں اغوا کی یا گمشدہ ہو گئیں۔واضح رہے ، یہ سرکاری عدد ہے۔ریاست میں ہزارہا والدین بدنامی کے ڈر سے اپنی بچیوں کے اغوا یا گم ہونے کی رپورٹ درج نہیں کراتے۔لہذا حقیقی اعدادوشمار کہیں زیادہ ہو سکتے ہیں۔2022ء میں ”روزانہ ”مدھیہ پردیش میں ”بتیس ”بچے اغوا ہوئے اور ان میں پچھتر فیصد لڑکیاں تھیں۔درج کرائی رپورٹوں سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ لڑکیوں کے اغوا کے واقعات ان اضلاع میں زیادہ ہوتے ہیں جہاں قبائلی آباد ہیں۔لڑکیوں اور عورتوں کے اکثر اغوا یا گمشدگی کے واقعات غربت، بیروزگاری، آب وہوائی تبدیلیوں کی وجہ سے کھیت اجڑ جانا ، تعلیم کی کمی، حقوق سے شناسائی نہ ہونا اور ذات پات کے نظام کی موجودگی سے جنم لیتے ہیں۔ ان تمام اسباب کی وجہ سے دیہی بھارت میں بچوں، لڑکیوں اور عورتوں کے گم ہونے یا اغواکی وارداتیں عام ہیں۔ان واقعات میں عموماً خواتین کو بے حرمتی کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔نیز ان سے بیگار لی جاتی ہے۔ان کو فروخت کر دینا بھی عام ہے۔
یہ خوفناک حقائق جدید بھارت کے لیے بہت بڑا المیّہ ہیں جس کا وزیراعظم ، نریندر مودی دعوی کرتا ہے، اگلے ایک عشرے میں بھارت سپرپاور بن جائے گا۔مودی جی، پہلے اپنے دیس سے خواتین کا خوفناک استحصال تو روک لو، پھر بھارت کو سپرپاور بنا کر اپنی انا، غرور اور جنگجویانہ فطرت کو تسکین دے لینا۔رشمی جیسی لاکھوں بھارتی ناریوں کا اغوا بھارت کے حکمران طبقے کے دامن پر بدنما دھبہ ہے۔