وجود

... loading ...

وجود

بلوچستان کا احساس محرومی اور لسانیت کی بنیاد پر قتل عام

جمعرات 29 اگست 2024 بلوچستان کا احساس محرومی اور لسانیت کی بنیاد پر قتل عام

 

دریا کنارے /لقمان اسد

یہ اپریل 2024کی بات ہے بلوچستان کے ضلع نوشکی میں نامعلوم افراد کی طرف سے کی جانے والی فائرنگ سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے نو افراد سمیت 11 افرادکو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔ یہ واقعہ نوشکی شہر سے اندازاً چھ کلومیٹر پہلے سلطان چڑھائی کے علاقے میں پیش آیا۔اس اندوہناک واقعہ میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کو ایک بس سے اتارنے کے بعد انھیں فائرنگ کرکے ہلاک کیا گیا۔ اس علاقے کے پہاڑی سلسلہ میں مسلح شرپسندوں نے کوئٹہ سے تفتان جانے والی ایک بس کو روکا۔اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے نو افراد کو اتارا گیا، جنھیں کچھ فاصلے پر لے جانے کے بعد فائرنگ کر کے ماردیا گیا۔ سانسوں سے آزاد ہونے والے مسافروں کا تعلق پنجاب کے علاقے منڈی بہاء الدین اور دیگر دو علاقوں سے تھا۔ایسے واقعات کا تسلسل ہے جو اکبر بگٹی کی موت کے بعد رکنے میں نہیں آرہا ،لسانی بنیادوں پر قتل ہونے والے افراد یقیناعسکریت پسندی کا مکروہ چہرہ ہے ،اجتماعی خاموشی اور بے حسی کارویہ ہی معاشرے میں ظلم وجبرکے مزیدبڑھنے کاسب سے بڑاسبب ہے۔بلوچستان میںماضی کی طرح ایک بار پھر دہشت گردوں نے اتوار اور پیر کی درمیانی شب مربوط اور منظم دہشت گردی کے کئی بزدلانہ حملوں میں سرکاری افسر، لیویز اہلکاروں اور عام شہریوں سمیت چالیس افراد کو شہید کر دیا۔ دہشت گردی کے واقعات کوئٹہ، قلات، مستونگ اور گوادر سے رپورٹ ہوئے۔ کم از کم تین اضلاع میں مہلک حملوں کی اطلاع ملی جہاں سیکورٹی فورسز تشدد سے نبرد آزما ہیں۔ بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند کے مطابق ہم نے بی ایل اے کے دہشت گردوں کی جانب سے کیے گئے متعدد مربوط حملوں میں 40 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے”۔ اتوار اور پیر کی درمیانی شب بلوچستان کے کئی علاقوں میں یکے بعد دیگرے ہونے والے حملوں میں سے سب سے زیادہ بہیمانہ اور سفاکانہ حملہ موسی خیل میں ہوا جہاں شر پسند دہشت گردوں نے سڑک پر مسافروں کا قتل عام کیا۔
بلوچستان میں علیحدگی پسند اور دہشت گرد عناصر کی جانب سے پنجابیوں کے قتل کے پے در پے واقعات کی وجہ سے پنجاب میں تشویش کے سائے لہرانے لگے ہیں جہاں بلوچستان سے تعلق رکھنے والوں کو خوش دلی کے ساتھ قبول ہی نہیں کیا گیا۔ وہ پنجابیوں کے ساتھ بھائیوں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ کسی قسم کی اجنبیت بھی محسوس نہیں کرتے کہ دونوں صوبے ایک ہیں۔ ملک کے حصے ہیں۔ تاہم متعدد حلقوں کی طرف سے اس قسم کے تاثرات کا اظہار کیا گیا ہے کہ پنجاب میں بھی عوام کے جذبات واحساسات وہ نہ رہیں۔ اس صوبے میں بڑی تعداد میں بلوچ آباد ہیں۔ مختلف شہروں میں ان کی علیحدہ بستیاں قائم ہیں جن کو بلوچ بستیوں کا ہی نام دیا گیا ہے۔ ان لوگوں کے بڑے بڑے کاروبار ہیں اور یہ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔ حتیٰ کہ ان لوگوں کو پنجاب کے عوام کی نمائندگی کا حق میں دیا گیا ہے۔ بلوچ قبائل سے تعلق رکھنے والے کئی ایک افراد پنجاب کی نشستوں سے منتخب ہو کر اسمبلیوں میں موجود ہیں جبکہ بلدیاتی نمائندوں کی ایک بڑی تعداد بلوچوں پر مشتمل ہے۔ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے بلوچستان میں پنجابیوں کے قتل کی مسلسل وارداتوں پر گہری تشویش ظاہر کی ان کے بقول ہم نے بلوچ باشندوں کو بھائیوں کی طرح رکھا ہوا ہے وہ ہمارے معاشرتی نظام میں پوری طرح رچ بس چکے ہیں اسکے مقابلے میں بلوچستان میں پنجابیوں کو چن چن کر مارا جا رہا ہے۔ یہ صورتحال انتہائی تشویشناک اور سنگین صورت اختیار کر سکتی ہے۔ خدا نہ کرے کہ پنجابیوں کے جذبات بھی مشتعل ہو جائیں جس کی وجہ سے یہاں موجود بلوچوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
یہ حقیقت اپنی جگہ وزن رکھتی ہے کہ جب جب مارشل لا آیا یا اسٹیبلشمنٹ نے دباو ٔڈالا پنجابی قائدین نے ان کی حمایت کی۔ اس کا احوال بھی ملاحظہ ہو۔کیا فوجی آمر ایوب خان کی کابینہ میں فقط پنجابی وزیر تھے؟ کوئی بلوچ، پختون، مہاجر نہ تھا؟ کیا (سندھی) ذوالفقار علی بھٹو وہاں سے نہیں ابھرے؟ (پنجابی) نواز شریف تو سبھی کو یاد ہیں کہ ضیا الحق کے پنگھوڑے میں جھولتے پروان چڑھے، تو کیا ضیا الحق حکومت کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو بھی پنجابی تھے؟ غلام اسحاق خان پنجابی تھے؟ صاحب زادہ یعقوب، آغا شاہی پنجابی تھے؟ جنرل اختر عبدالرحمان، ایوب خان، یحییٰ خان پنجابی تھے؟،مشرف کے ساتھ پنجاب کے چودھری برادران تھے، تو کیا وزیر اعظم ظفر اللہ خان جمالی بھی پنجابی تھے؟ معین الدین حیدر بھی پنجابی تھے، مشرف بھی پنجابی تھے؟ مشرف کی اتحادی ایم کیو ایم بھی پنجابیوں کی جماعت تھی؟ اور تو اور یہ کہیے کیا سینیٹ کے موجودہ چیئر پرسن بھی پنجابی ہیں؟ جنھیں اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ پر سینیٹ میں اقلیت کو اکثریت میں بدلنے والے جادو گر، اینٹ سے اینٹ بجا دینے والے آصف علی زرداری نے ووٹ دلوائے، کیا زرداری بھی پنجابی ہیں؟اس فوری تحریر میں ابھی جام صادق اور دیگر عظیم سرداروں، وڈیروں کا تو ذکر ہی نہیں، جنھوں نے اقتدار کے حصول کے لیے ہمیشہ بڑی سرکار کی چھڑی شریف کو دیکھا اور پلک جھپکنے میں ان کے بوٹ چمکانے لگے۔اجتماعی خاموشی اور بے حسی کارویہ ہی معاشرے میں ظلم وجبرکے مزیدبڑھنے کاسب سے بڑاسبب ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
235 سیاسی گھس بیٹھیوں میں سے ایک گھس بیٹھیا وجود جمعرات 14 نومبر 2024
235 سیاسی گھس بیٹھیوں میں سے ایک گھس بیٹھیا

مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی! وجود جمعرات 14 نومبر 2024
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی!

مسئلہ کشمیر کفر و اسلام کی جنگ ! وجود جمعرات 14 نومبر 2024
مسئلہ کشمیر کفر و اسلام کی جنگ !

ایک سیکریٹری اور پوری اسمبلی وجود بدھ 13 نومبر 2024
ایک سیکریٹری اور پوری اسمبلی

دہشت گردی کا کوئی جوازنہیں ! وجود بدھ 13 نومبر 2024
دہشت گردی کا کوئی جوازنہیں !

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر