وجود

... loading ...

وجود

کچے کے پکے ڈاکو

بدھ 28 اگست 2024 کچے کے پکے ڈاکو

جاوید محمود

یہ صرف پاکستان ہی نہیں جہاں ایک کچے کا علاقہ ہے اور وہاں ڈاکوؤں کا راج ہے۔ 1980اور 1990کے درمیان امریکہ کی مشہورسب سے بڑی سٹی نیویارک کے اہم علاقوں پر ڈاکوؤں کا راج تھا۔ حکمران اور انتظامیہ ان ڈاکوں کے سامنے بے بس تھے ۔اس پر روشنی ڈالنے سے پہلے کچے کے ڈاکوؤں پر کچھ بات ہو جائے جس انداز سے سندھ میں کچے کے ڈاکو اپنی پروفائل کو کچے سے پکے مقامی سے صوبائی اور اب انٹرنیشنل سطح پر لا رہے ہیں، بہت جلد یہ ریاست کے لیے نیا سر درد بن کر ابھریں گے ۔
سندھ اور پنجاب کی سرحد کے درمیان واقع کچے کا علاقہ جہاں ڈاکو راج آج سے نہیں گزشتہ کئی دہائیوں سے چل رہا ہے۔ شمالی سندھ کے اضلاع کشمور، کندھ کوٹ، گھوٹکی اور شکارپور میں ڈاکوؤں کے زیر اثر کچے کے علاقے تمام تر حشر سامانیاں سمیٹے ہوئے ہیں۔ یہاں ڈاکو ہیں ،اسلحہ ہیں، جرم کی داستانیں ہیں، اغوا کار ہیں، مغوی ہیں، پولیس کے کمانڈر ہیں، پولیس افسران ہیں ،سب کچھ ہیں لیکن اگر کچھ نہیں ہے تو وہ ہے ایکشن۔ خلوص نیت سے مسئلے کے حل کے لیے کیا جانے والا ایکشن ۔سندھ کو پنجاب اور بلوچستان سے جڑتے سرحدی راستوں قومی شاہراہوں اور ضلی سڑکوں کو کچے کے ڈاکو اپنا دائرہ کار سمجھتے ہیں۔ ٹیکنالوجی اور نئی سڑکوں کا جب تک جال نہ تھا تب تک کچے کے ڈاکو انہی راستوں پہ گھات لگا کر نیم شب کے مسافروں کو لوٹا کرتے تھے۔ خال خال یہ اغوا برائے تاوان کی واردات کرتے تھے پھر نیٹ ورک بڑھا تو انہوں نے سائیڈ بزنس کے طور پر ملک بھر کے چھوٹے بڑے جرائم پیشہ افراد کو اپنے یہاں پناہ دینے اور پناہ کے عوض پیسے لینے کا کام بھی کیا ۔ہنی ٹریپ کر کے لوگوں کو جھانسا دے کر اغوا کرنا اور رقم لوٹنے کا کاروبار بھی یہاں شروع ہوا۔ جبکہ سستی گاڑیاں بیچنے کے نام پہ دھوکہ دہی کی وارداتوں میں کچے کے ڈاکوؤں کا نام آیا۔ پچھلے تیس چالیس برس سے کچے کا علاقہ اور کچے کے ڈاکو بلا تعطل اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن پاکستان کا مرکزی میڈیا کچے کے علاقے کی خبروں کو یوں بھی جگہ نہیں دے پاتا کہ ایک تو یہ علاقے کچے ہیں۔ دوسرا ان کا نشانہ کمزور افراد کمزور برادری بنتی ہے یا عام شہری ۔تیسرا یہ ڈاکو ہیں یہ ملک کی سیکورٹی کے لیے بظاہر کوئی قابل ذکر خطرہ نہیں بنتے۔ ڈکیت اگر سیاست سے منسلک ہو تو بڑی خبر بننے کا کوئی چانس ہوتا ہے جیسے کہ کبھی ہوا کرتا تھالیاری کا عبدالرحمان ڈکیت۔ کچے کے علاقے میں آپریشن میں شریک پنجاب پولیس کے اہلکارپاکستان کی موجودہ سیاسی کشمکش بلکہ یوں کہہ لیں کہ ڈانواڈول ہوتی معیشت ریاست اور سیاست کی بیچ کچے کے علاقے اور ڈاکو کوئی اہمیت نہیں رکھتے لیکن حال ہی میں جو خبریں ان علاقوں سے نکل رہی ہیں بہتر ہے کہ قومی سلامتی کے اجلاسوں میں کچے کے علاقوں کا معاملہ بھی شامل کیا جائے ۔یہ ڈاکو شاید ملک کے شمالی علاقوں میں موجود شدت پسند عناصر کی طرح ریاست کی کوئی دکھتی رکھ پکڑنا چاہتے ہیں تاکہ یہ بھی کچے سے نکل کر پکے علاقوں میں آئیں مذاکرات کی میز پہ بیٹھیں اور میڈیا کوریج کو انجوائے کریں۔ ڈاکو تو پھر ڈاکو ہوتا ہے اس کا شدت پسند تنظیم کی آپریشنل صلاحیتوں سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا لیکن جس انداز سے سندھ میں کچے کے ڈاکو اپنی پروفائل کو کچے سے پکے مقامی سے صوبائی اور اب انٹرنیشنل سطح پر لا رہے ہیں بہت جلد یہ ریاست کے لیے نیا سر درد بن کر ابھریں گے اور وہ بھی ریاست کے بالکل بیچوں بیچ ۔ریاست کو ہوش میں آنا ہوگا۔ ابھی تو سندھ پولیس پہ کچے کے ڈاکو سے ملی بھگت کا الزام لگا کر ہاتھ کھڑے کر دیے جاتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ پولیس اور بیوروکریٹس کے تعاون کے بغیر کچے میں اتنا بڑا آپریشن جاری رہ سکے۔
1980اور 1990کے درمیان نیویارک سٹی کا 25 فیصد علاقہ کچے کے علاقے کی مانند تھا جہاں پر کرائم ریٹ کچے کے علاقے کے مقابلے میں 50گنا زیادہ تھا۔ نیویارک سٹی کے شہر میں ہر سال 2000قتل اور 11000جرائم ہر ہفتے ہوتے تھے۔ انتظامیہ نے ان علاقوں کو نو گو ایریا قرار دے دیا تھا۔ سورج کے ڈوبتے ہی پولیس ان علاقوں کو چاروں طرف سے گھیر لیتی اور اعلان کر دیا جاتا کہ کوئی بھی ان علاقوں میں اندر نہیں جائے گا اور جو بھی جائے گا وہ اپنی ذمہ داری پہ جائے گا۔ سورج کے غروب ہوتے ہی ان علاقوں میں جرائم کا راج ہوتا اور خوف چاروں طرف طاری ہوتا تھا۔ نیویارک سٹی میں 1994میں میئر کے انتخابات ہوئے جس میں اٹالین نژاد روڈی جولیانی میئر منتخب ہوئے جولیانی نے حلف اٹھانے کے بعد گورنر سے مطالبہ کیا کہ انہیں فری ہینڈ دیا جائے اور کہا کہ اگر وہ نیویارک سٹی کو ایک پرامن سٹی دیکھنا چاہتے ہیں تو ان کے معاملات میں مداخلت نہ کی جائے ۔میئر جولیانی نے 28 ہزار نیویارک پولیس کی تعداد بڑھا کر 40ہزار کر دی۔ اس کے پیچھے ان کی حکمت تھی۔ انہیں خبر تھی کہ پولیس میں کالی بھیڑیں ہیں جن کا تعلق ڈاکوؤں کے ساتھ ہے ۔جولیانی نے جب ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن شروع کیا تو انہوں نے ان کرپٹ پولیس آفیسرز کو آگے ڈھال کے طور پر رکھا اور نئے تربیت یافتہ پولیس افسران کو پیچھے رکھا۔ تاکہ ڈاکوؤں کے مقابلے میں کالی بھیڑوں کا صفایا ہو سکے اور اس منصوبے میں انہیں بڑی کامیابی حاصل ہوئی۔ مختصر عرصے میں میئر جولیانی نے ثابت کر دیا کہ وہ نیویارک سٹی کے بہترین میئر ہیں ۔تشدد جرائم کی شرح میں 56فیصد کمی واقع ہوئی ۔قتل تقریبا ًدو تہائی نیچے آگیا۔ لوٹ مارمیں 67فیصد کم ہوئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے چار سال کے اندر نو گو علاقوں میں زندگی معمول کے مطابق آگئی۔ رات کے اندھیرے روشنیوں کی چمک دمک میں بدل گئے جن علاقوں میں خوف کا راج تھا وہاں اب خوشحالی کا راج ہے۔ میئر جولیانی کو امریکہ کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ انہوں نے نیک نیتی کے ساتھ رات دن کام کر کے نیویارک شہر کے ان علاقوں کو جو کرائم کی آماجگاہ تھے، انہیں پرامن بنایا۔ میئرجولیانی شروع میں ہی بھانپ گئے تھے کہ جب تک پولیس کی کالی بھیڑوں کا صفایا نہیں کیا جائے گا، اس وقت تک ان نو گو ایریا میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اصل میں وہ برائی کی جڑ تک پہنچ چکے تھے ۔اگرچہ کہ اس آپریشن میں سینکڑوں پولیس والے مارے گئے لیکن ان کا مارے جانا ہی وقت کی اہم ضرورت تھی ۔پاکستان میں کچے کے پکے ڈاکو اس وقت تک پکے ڈاکو بنے رہیں گے جب تک پولیس اور بیوروکریٹس کی کالی بھیڑیں ان کی پشت پناہی کرتے رہیں گے ۔حکومت پاکستان کو اگر کچے کے علاقے سے ڈاکو راج کا خاتمہ کرنا ہے تو انہیں میئرجولیانی کی پالیسی کو اپنانا ہوگا۔ کیونکہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کچے کے ڈاکو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پکے ڈاکو بن چکے ہیں۔

 


متعلقہ خبریں


مضامین
پھر نہ کہنا کہ خبر نہ ہوئی وجود جمعه 15 نومبر 2024
پھر نہ کہنا کہ خبر نہ ہوئی

یہ ڈائنا مائیٹ اب پھٹنے کو ہے ! وجود جمعه 15 نومبر 2024
یہ ڈائنا مائیٹ اب پھٹنے کو ہے !

عمران خان کی رہائی اور جیت دیوار پر لکھی ہے! وجود جمعه 15 نومبر 2024
عمران خان کی رہائی اور جیت دیوار پر لکھی ہے!

اُف! یہ" "235گھس پیٹھیے وجود جمعه 15 نومبر 2024
اُف! یہ

بی ایل اے اور 'را' کا گٹھ جوڑ وجود جمعه 15 نومبر 2024
بی ایل اے اور 'را' کا گٹھ جوڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر