... loading ...
جاوید محمود
یہ صرف پاکستان ہی نہیں جہاں ایک کچے کا علاقہ ہے اور وہاں ڈاکوؤں کا راج ہے۔ 1980اور 1990کے درمیان امریکہ کی مشہورسب سے بڑی سٹی نیویارک کے اہم علاقوں پر ڈاکوؤں کا راج تھا۔ حکمران اور انتظامیہ ان ڈاکوں کے سامنے بے بس تھے ۔اس پر روشنی ڈالنے سے پہلے کچے کے ڈاکوؤں پر کچھ بات ہو جائے جس انداز سے سندھ میں کچے کے ڈاکو اپنی پروفائل کو کچے سے پکے مقامی سے صوبائی اور اب انٹرنیشنل سطح پر لا رہے ہیں، بہت جلد یہ ریاست کے لیے نیا سر درد بن کر ابھریں گے ۔
سندھ اور پنجاب کی سرحد کے درمیان واقع کچے کا علاقہ جہاں ڈاکو راج آج سے نہیں گزشتہ کئی دہائیوں سے چل رہا ہے۔ شمالی سندھ کے اضلاع کشمور، کندھ کوٹ، گھوٹکی اور شکارپور میں ڈاکوؤں کے زیر اثر کچے کے علاقے تمام تر حشر سامانیاں سمیٹے ہوئے ہیں۔ یہاں ڈاکو ہیں ،اسلحہ ہیں، جرم کی داستانیں ہیں، اغوا کار ہیں، مغوی ہیں، پولیس کے کمانڈر ہیں، پولیس افسران ہیں ،سب کچھ ہیں لیکن اگر کچھ نہیں ہے تو وہ ہے ایکشن۔ خلوص نیت سے مسئلے کے حل کے لیے کیا جانے والا ایکشن ۔سندھ کو پنجاب اور بلوچستان سے جڑتے سرحدی راستوں قومی شاہراہوں اور ضلی سڑکوں کو کچے کے ڈاکو اپنا دائرہ کار سمجھتے ہیں۔ ٹیکنالوجی اور نئی سڑکوں کا جب تک جال نہ تھا تب تک کچے کے ڈاکو انہی راستوں پہ گھات لگا کر نیم شب کے مسافروں کو لوٹا کرتے تھے۔ خال خال یہ اغوا برائے تاوان کی واردات کرتے تھے پھر نیٹ ورک بڑھا تو انہوں نے سائیڈ بزنس کے طور پر ملک بھر کے چھوٹے بڑے جرائم پیشہ افراد کو اپنے یہاں پناہ دینے اور پناہ کے عوض پیسے لینے کا کام بھی کیا ۔ہنی ٹریپ کر کے لوگوں کو جھانسا دے کر اغوا کرنا اور رقم لوٹنے کا کاروبار بھی یہاں شروع ہوا۔ جبکہ سستی گاڑیاں بیچنے کے نام پہ دھوکہ دہی کی وارداتوں میں کچے کے ڈاکوؤں کا نام آیا۔ پچھلے تیس چالیس برس سے کچے کا علاقہ اور کچے کے ڈاکو بلا تعطل اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن پاکستان کا مرکزی میڈیا کچے کے علاقے کی خبروں کو یوں بھی جگہ نہیں دے پاتا کہ ایک تو یہ علاقے کچے ہیں۔ دوسرا ان کا نشانہ کمزور افراد کمزور برادری بنتی ہے یا عام شہری ۔تیسرا یہ ڈاکو ہیں یہ ملک کی سیکورٹی کے لیے بظاہر کوئی قابل ذکر خطرہ نہیں بنتے۔ ڈکیت اگر سیاست سے منسلک ہو تو بڑی خبر بننے کا کوئی چانس ہوتا ہے جیسے کہ کبھی ہوا کرتا تھالیاری کا عبدالرحمان ڈکیت۔ کچے کے علاقے میں آپریشن میں شریک پنجاب پولیس کے اہلکارپاکستان کی موجودہ سیاسی کشمکش بلکہ یوں کہہ لیں کہ ڈانواڈول ہوتی معیشت ریاست اور سیاست کی بیچ کچے کے علاقے اور ڈاکو کوئی اہمیت نہیں رکھتے لیکن حال ہی میں جو خبریں ان علاقوں سے نکل رہی ہیں بہتر ہے کہ قومی سلامتی کے اجلاسوں میں کچے کے علاقوں کا معاملہ بھی شامل کیا جائے ۔یہ ڈاکو شاید ملک کے شمالی علاقوں میں موجود شدت پسند عناصر کی طرح ریاست کی کوئی دکھتی رکھ پکڑنا چاہتے ہیں تاکہ یہ بھی کچے سے نکل کر پکے علاقوں میں آئیں مذاکرات کی میز پہ بیٹھیں اور میڈیا کوریج کو انجوائے کریں۔ ڈاکو تو پھر ڈاکو ہوتا ہے اس کا شدت پسند تنظیم کی آپریشنل صلاحیتوں سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا لیکن جس انداز سے سندھ میں کچے کے ڈاکو اپنی پروفائل کو کچے سے پکے مقامی سے صوبائی اور اب انٹرنیشنل سطح پر لا رہے ہیں بہت جلد یہ ریاست کے لیے نیا سر درد بن کر ابھریں گے اور وہ بھی ریاست کے بالکل بیچوں بیچ ۔ریاست کو ہوش میں آنا ہوگا۔ ابھی تو سندھ پولیس پہ کچے کے ڈاکو سے ملی بھگت کا الزام لگا کر ہاتھ کھڑے کر دیے جاتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ پولیس اور بیوروکریٹس کے تعاون کے بغیر کچے میں اتنا بڑا آپریشن جاری رہ سکے۔
1980اور 1990کے درمیان نیویارک سٹی کا 25 فیصد علاقہ کچے کے علاقے کی مانند تھا جہاں پر کرائم ریٹ کچے کے علاقے کے مقابلے میں 50گنا زیادہ تھا۔ نیویارک سٹی کے شہر میں ہر سال 2000قتل اور 11000جرائم ہر ہفتے ہوتے تھے۔ انتظامیہ نے ان علاقوں کو نو گو ایریا قرار دے دیا تھا۔ سورج کے ڈوبتے ہی پولیس ان علاقوں کو چاروں طرف سے گھیر لیتی اور اعلان کر دیا جاتا کہ کوئی بھی ان علاقوں میں اندر نہیں جائے گا اور جو بھی جائے گا وہ اپنی ذمہ داری پہ جائے گا۔ سورج کے غروب ہوتے ہی ان علاقوں میں جرائم کا راج ہوتا اور خوف چاروں طرف طاری ہوتا تھا۔ نیویارک سٹی میں 1994میں میئر کے انتخابات ہوئے جس میں اٹالین نژاد روڈی جولیانی میئر منتخب ہوئے جولیانی نے حلف اٹھانے کے بعد گورنر سے مطالبہ کیا کہ انہیں فری ہینڈ دیا جائے اور کہا کہ اگر وہ نیویارک سٹی کو ایک پرامن سٹی دیکھنا چاہتے ہیں تو ان کے معاملات میں مداخلت نہ کی جائے ۔میئر جولیانی نے 28 ہزار نیویارک پولیس کی تعداد بڑھا کر 40ہزار کر دی۔ اس کے پیچھے ان کی حکمت تھی۔ انہیں خبر تھی کہ پولیس میں کالی بھیڑیں ہیں جن کا تعلق ڈاکوؤں کے ساتھ ہے ۔جولیانی نے جب ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن شروع کیا تو انہوں نے ان کرپٹ پولیس آفیسرز کو آگے ڈھال کے طور پر رکھا اور نئے تربیت یافتہ پولیس افسران کو پیچھے رکھا۔ تاکہ ڈاکوؤں کے مقابلے میں کالی بھیڑوں کا صفایا ہو سکے اور اس منصوبے میں انہیں بڑی کامیابی حاصل ہوئی۔ مختصر عرصے میں میئر جولیانی نے ثابت کر دیا کہ وہ نیویارک سٹی کے بہترین میئر ہیں ۔تشدد جرائم کی شرح میں 56فیصد کمی واقع ہوئی ۔قتل تقریبا ًدو تہائی نیچے آگیا۔ لوٹ مارمیں 67فیصد کم ہوئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے چار سال کے اندر نو گو علاقوں میں زندگی معمول کے مطابق آگئی۔ رات کے اندھیرے روشنیوں کی چمک دمک میں بدل گئے جن علاقوں میں خوف کا راج تھا وہاں اب خوشحالی کا راج ہے۔ میئر جولیانی کو امریکہ کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ انہوں نے نیک نیتی کے ساتھ رات دن کام کر کے نیویارک شہر کے ان علاقوں کو جو کرائم کی آماجگاہ تھے، انہیں پرامن بنایا۔ میئرجولیانی شروع میں ہی بھانپ گئے تھے کہ جب تک پولیس کی کالی بھیڑوں کا صفایا نہیں کیا جائے گا، اس وقت تک ان نو گو ایریا میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اصل میں وہ برائی کی جڑ تک پہنچ چکے تھے ۔اگرچہ کہ اس آپریشن میں سینکڑوں پولیس والے مارے گئے لیکن ان کا مارے جانا ہی وقت کی اہم ضرورت تھی ۔پاکستان میں کچے کے پکے ڈاکو اس وقت تک پکے ڈاکو بنے رہیں گے جب تک پولیس اور بیوروکریٹس کی کالی بھیڑیں ان کی پشت پناہی کرتے رہیں گے ۔حکومت پاکستان کو اگر کچے کے علاقے سے ڈاکو راج کا خاتمہ کرنا ہے تو انہیں میئرجولیانی کی پالیسی کو اپنانا ہوگا۔ کیونکہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کچے کے ڈاکو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پکے ڈاکو بن چکے ہیں۔