... loading ...
حمیداللہ بھٹی
۔۔۔۔۔۔۔۔
رواں برس پندرہ اور سولہ اکتوبر کو شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او)کی سربراہ کانفرنس پہلی بار پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد منعقد ہورہی ہے۔ اِمسال تنظیم کے سربراہان حکومت کی کونسل کی چیئرمینی پاکستان کے پاس ہے ،اسی لیے میزبانی کا اعزاز پاکستان کے حصے میں آیا ہے بطورتنظیم اِس کی بنیاد2001میں رکھی گئی جس کے پیشِ نظر کہہ سکتے ہیں کہ اس کی تشکیل کو کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا مگر 23برسوں میں ہی اِس کا شمارخطے سمیت دنیا کی اہم ترین تنظیموں میں ہونے لگا ہے ۔ابتدامیں یہ روس ،چین ،قازقستان،کرغیزستان،ازبکستان اور تاجکستان پر مشتمل ایک اقتصادی ،سیاسی اور دفاعی اتحاد تھا۔ چین کی شمولیت سے اِس کی اہمیت دوچند ہوئی اور دیگر ممالک بھی راغب ہوئے کیونکہ کسی نئی شمولیت کے حوالہ سے قدغن کا کوئی اعلان نہیں ہوا تھا اور مزید ممبران کے لیے دروازے کُھلے رکھے گئے۔ اسی لیے پاکستان ،ایران اور بھارت کو بھی ممبر بننے میں کوئی خاص دشواری پیش نہیں آئی ۔افغانستان،بیلا روس اور منگولیا کو تنظیم میں مبصر کا درجہ حاصل ہے لیکن جلدہی مکمل ممبر بنائے جانے کے امکانات روش ہیں۔ عین ممکن ہے رواں برس کی سربراہ کانفرنس میں کسی کو ممبر بنانے کا فیصلہ ہو جائے۔ البتہ افغانستان کے حوالے سے کیونکہ عالمی برادری کوابھی تحفظات ہیں اِس لیے شایدابھی ممبرنہ بن سکے مگر دیگر مبصرین جو رُکنیت کی شرائط پر پورا اُترتے ہیں اُن کے بارے فیصلہ ہو سکتاہے۔ اسی بناپر قیاس کیاجارہا ہے کہ 9رُکنی تنظیم کے اراکین میں اضافہ غیرمتوقع نہیں۔ مزید بھی کئی ممالک ڈائیلاگ پارٹنر کے طور پر تنظیم کا حصہ ہیں ۔وہ شاید اگلے ایک دو اجلاسوں کے میں ممبر بن جائیں۔شنگھائی تعاون تنظیم کولاکھ علاقائی کہا جائے یایہ باورکرانے کی کوشش کی جائے کہ اِس کا مقصدعلاقائی اور عالمی مسائل پر یکساں موقف اپنانے کی راہ ہموارکرنا ہے مگر اِسے نیٹو جیسے مغربی اتحادکا مقابل تصور کیا جانے لگا ہے ۔علاقائی ممالک کو باہمی تعاون میں اضافہ کرنے کے حوالے سے اِس کی کاوشیں کامیابی سے ہمکنارہونے لگی ہیں لیکن جس تیزی سے رُکنیت سازی کی جارہی ہے سے خدشہ ہے کہ یہ اندرونی طور پر خلفشار کا شکار ہو سکتی ہے کیونکہ بھارت جیساملک اِس کی اہمیت کم کرنے کے لیے عالمی طاقتوں کو بطورمہرہ استعمال ہو نے کو دستیاب ہے ۔
روس اور چین کی طرح بھارت بھی آبادی ،معیشت اور دفاعی حوالے سے دنیاکی ایک بڑی طاقت ہے جسے کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا مگر شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل چین اور پاکستان سے بھارت کے سنجیدہ نوعیت کے مسائل ہیں اسی بناپربھارت کے ساتھ دونوں کی سرحدوں پر تنائو کی کیفیت ہے جس کے پیشِ نظر تنظیم میں کھینچاتانی کا امکان ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ دوطرفہ مسائل بات چیت سے حل کرنے میں پہل کی اور ایک پُرامن ملک ہونے کے ناطے روابط بڑھانے میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی جس کا ثبوت یہ ہے کہ مئی 2023 میں گواکے وزرائے خارجہ اجلاس میں بلاول بھٹو نہ صرف شامل ہوئے بلکہ پاکستان نے بڑا دل کرتے ہوئے نتیجہ خیز بات چیت کی خواہش کا بھی اظہار کیا تاکہ کشمیر سمیت دیگر تصفیہ طلب مسائل کا ایسا حل تلاش کیا جا سکے جو تما م فریقین کے لیے نہ صرف قابلِ قبول ہوبلکہ کشمیری امنگوں کے مطابق ہو لیکن بھارتی سرد مہری کی وجہ سے بات آگے نہ بڑھ سکی۔ 4 جولائی 2023نئی دہلی میں تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے بھارت نے جب پاکستان کو شمولیت کی دعوت دی تو شہبازشریف نے شرکت کا فیصلہ بھی کر لیاتھا لیکن بھارت نے اچانک آخری لمحے کانفرنس کو ورچوئل اجلاس میں بدل دیا۔ یہ ایک حیران کُن اعلان تھا۔ اِس بارے میں سفارتی ذرائع کا خیال ہے بھارت نے یہ چالاکی چین اور پاکستان سے کشیدگی کے تناظر میں دکھائی تاکہ دونوں ممالک کے سربراہان نئی دہلی آکرکہیں بھارت کے مکروہ چہرے کو بے نقاب نہ کردیں۔ بھارت کی یہ سوچ سراسر مفروضوں پر مبنی تھی کیونکہ مہمان سفارتی آداب ملحوظِ خاطر رکھتے ہیں تاکہ میزبان کو کسی قسم کی سُبکی محسوس نہ ہو ۔بھارتی فیصلے کو تنظیم کے بارے میں غیر سود مند تصور کیا گیا۔
اب جبکہ خطے میں دہشت گردی تشویشناک ہوچکی ہے۔ انتہاپسندی اور علیحدگی کی تحریکیں امن کوالگ خطرہ ہیں جن سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کاوشیں ناگزیرہیں کیونکہ رُکن ممالک خفیہ معلومات کا تبادلہ کرنے کے ساتھ فوجی مشقیں بھی کرتے ہیں۔ بیلٹ اینڈ روڈ انی شیٹوکی صورت میں تنظیم کے پاس اقتصادی تعاون کا ایک مربوط اور قابلِ عمل پروگرام ہے جو کمزور معیشتوں کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ علاوہ ازیں عالمی معاملات پر علاقائی ممالک کو یکساں موقف اختیار کرنے کا پلیٹ فارم ہونے کے ساتھ مغرب کی بالادستی کے مقابل تنظیم کثیر قطبی طاقت کی تقسیم کے ایک وسیع و عریض ایجنڈے کی حامل ہے مگر بھارت جسے 2017میں ممبر بننے کے بعد گزشتہ برس پہلی بار صدارت اور میزبانی کا اعزاز حاصل ہواتھا اُس نے نہ صرف سربراہان کو مل بیٹھنے کے موقع سے محروم کردیا بلکہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کی طرح کی اپنی سرمایہ کاری سے آگاہی دینے کا موقع بھی کھو دیا ۔اب تو ایسی قیاس آرائیاں ہونے لگی ہیں کہ شاید بھارت کسی ایسی عالمی طاقت کی ایما پر تنظیم میں اتحادویگانگت کی فضا سبوتاژکرنا چاہتا ہے جو اِس تنظیم کے بڑھتے رسوخ سے خائف ہے ۔
بھارت خطے کی ایک بڑی طاقت ضرورہے مگر کوئی ملک دنیاسے الگ تھلگ رہ کر ترقی کی منازل حاصل نہیں کر سکتا باہمی اشتراک سے معیشت بہتربنانے ، سیاسی اور دفاعی قوت میں زیادہ بہتر اندازمیںاضافہ کیا جا سکتا ہے مگر بھارتی قیادت کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی اگر سارک کی غیر فعالیت کا ذمہ دار بھارت کو قرار دیا جائے تو یہ عین انصاف ہے کیونکہ 2016میں پاکستان نے بطور میزبان اُسے شرکت کی دعوت دی مگربڑی رعونت کامظاہرہ کرتے ہوئے شرکت سے انکار کردیاگیا۔یہ بائیکاٹ طرزکافیصلہ سارک کولے ڈوبا کیونکہ متعصب حسینہ واجد نے بھی شرکت سے انکار کردیا۔سارک میں تمام فیصلے اتفاقِ رائے سے ہوتے ہیں ۔اسی وجہ سے پھر سارک کانفرنس کاابھی تک انعقاد نہیں ہو سکااور اب تک غیر فعال ہے۔ اب آٹھ برس کے وقفے کے بعد پاکستان نے ذمہ دار میزبان ہونے کے ناطے بھارت کوشنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت کا باضابطہ طوردعوت نامہ بھیج دیا ہے لیکن نریندرمودی جیسے متعصب اور جنونی کی پاکستان آمد ابھی تک غیر یقینی ہے۔ خیر سارک اور ایس سی او میں بہت فرق ہے سارک میں تو بھارت ہی ایک واحد بڑی معاشی اور دفاعی طاقت ہے لیکن ایس سی او میں صورتحال کافی مختلف ہے ۔بھارتی میڈیاتین روز قبل بھیجے گئے دعوت نامے کی تصدیق کرتے ہوئے ابھی سے باورکرانے لگا ہے کہ مودی نہیں آئیں گے مگراب عدم شرکت کا معقول جواز پیش کیے بغیر گزارہ ممکن نہیں، وگرنہ بھارتی مفادات متاثر ہو سکتے ہیں۔ اسی بنا پر امکان ہے کہ مودی اگر نہ بھی آئے تو ورچوئل کانفرنس میں شرکت یا پھر نمائندگی کے لیے کابینہ میں سے کسی کو نامزد کرسکتے ہیں۔ایسا نہیں کیا جاتا تو چین کے بعد روس کی ناراضگی اُسے خطے میں تنہااور بے اثر کردے گی اور پاکستان اپنی کمزور معیشت کے باوجود تنظیم میں اہمیت حاصل کرلے گا ۔ایس سی او بہرحال سارک نہیں کہ بھارت اسے غیر فعال کرنے میں کامیابی حاصل کر لے ۔