... loading ...
میر افسر امان
فلسطینی غزہ میں یہودیوںسے لڑ کر جہاد کا فرض کفایہ ادا کر رہے ہیں۔ قرآن کی آیات کا مفہوم ہے کہ جس مسلم بستی پر ظالموں نے ظلم ڈھایا۔ اُس بستی کے لوگ اللہ سے فریاد کرتے ہیں کہ اللہ ہمارے لیے کوئی مدد گار بھیج دے۔ اللہ تعالیٰ نے حماس کو فلسطینیوں کے لیے مدد گار بنا دیا۔ یہود غزہ کی شہری آبادی پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہے ہے۔ پڑوسی عرب ملکوں کا کام ہے کہ وہ غزہ کے مظلوموںں کی مدد کرتے۔ ویسے بھی پڑوسی ملکوں کے کچھ علاقوں پر اسرائیل نے پہلے سے قبضہ کیا ہوا۔ اس وقت ان کے لیے سنہری موقع تھا کہ وہ غزہ میں حماس کی مدد کرتے۔ اس سے ان کے علاقے واپس ملنے کے کوئی سبیل بھی بن جاتی ۔ مگر وہ اسرائیل سے ڈر ے ہوئے ہیں۔ فلسطینیوں کی مدد کیا کرتے الٹا سرائیل کی مدد کر رہے ہیں۔یمنی انصاراللہ نے فلسطینیوں کے مدد کے لیے اسرائیل پر میزائیل داغے تو، اُردن اور سعودی عرب نے اپنے فضائوں میں ان میزائلوں کو گرایا۔ان کو آگے اسرائیل تک نہیںپہنچنے دیا۔ یمنی انصاراللہ نے فلسطینی مسلمان بھائیوں کی مدد کی۔ اپنی سمندری حدود میں درجنوں اسرائیل،امریکی اور برطانوی بحری جہازوں کو تباہ کیا اور اسرائیل کی طرف جانے نہیں دیا۔ اس پر اسرائیل، امریکا اور برطانیہ یمن پر مسلسل بمباری کر رہا ہے۔ مگر یمنی انصار اللہ ڈٹے ہوئے ہیں۔عرب اور عجم مسلمان حکمران بلوں میں چھپے ہوئے ہیں۔ صرف ایران کی پراکسی یمنی انصاراللہ اور لبنانی حزب اللہ فلسطینیوں کی مدد کے لے میدان میں اُترے ہوئے ہیں۔
ا سرائیل فلسطینی مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔فلسطینی عرب اور مسلمان ملکوں سے مدد کی اپیلیں کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کی ستاون (57) حکومتوںکے حکمرانوں نے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے۔ وہ اتنے بزدل بنے ہوئے ہیں کہ امریکا کے خوف سے نڈھال ہو رہے ہیں۔ کسی بھی مسلمان ملک نے غزہ کے مظلوموں کی فوجی مدد نہیں کی۔ انسانی طور پر بھی غزہ کی مالی مدد نہیں کر رہی ہیں۔ مسلمان ملکوں کی رفاہی امدادی تنظیمیں اپنے اپنے طور پر غزہ کے مظلوموں کی مدد کر رہی ہیں۔ جبکہ فلسطینیوں کی نسل کشی کی اس جنگ میں پوری دنیا کی عیسائی حکومتیں یہودیوں کی فوجی مدد کر رہی ہیں۔ یہودیوں کو جدید اسلحہ فراہم کر رہی ہیں۔ بھارت تیس ہزار کرایہ کے فوجیوں کی افرادی قوت سے اسرائیل کی مدد کر رہا ہے۔ اسرائیل میںقادیانی بھی اسرائیل فوج میں شامل ہیں، جو فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی میں برابر کے شریک ہیں۔ یورپ کے متعصب یہودی بھی اسرائیل کی فوج میں شامل ہیں۔ یورپ اور امریکہ سے کرایہ کے فوجی اسرائیل میں لڑ رہے ہیں۔ اس تحریر تک اسرائیل نے فلسطینیوں کی نسل کشی کرتے ہوئے لاکھوں فلسطینیوں کو شہید و زخمی کر دیا ہے۔ فلسطینیوں کی نسل کشی کرنے پر جنوبی افریقہ نے ہیگ میںعالمی عدالت انصاف میں مقدمہ درج کیا۔ عدالت کے سارے معزز ججوں نے اسرائیل کو قصورار ٹھرایا۔ اس پر پابندی کے لیے اقوام متحدہ کو کہا۔ اسرائیل کے دہشت گرد وزیر اعظم نیتن یاہوکو گرفتار کرنے کا آڈر جاری کیا۔ اس پروسس میں کوئی بھی اسلامی ملک شامل نہیں ہوا۔ یہ اس صدی کا ایک عجیب واقعہ ہے کہ غیر مسلم ملک جنوبی افریقہ فلسطین کی مدد کررہا ہے اور ستاون (57) اسلامی ملک بکری بنے چھپے ہوئے ہیں۔
مغربی ملکوں اور امریکہ کے عوام لاکھوں کی تعداد میں اسرائیل کے مظالم اور نسل کشی خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ اپنی اپنی حکومتوں کو اسرائیل کی فوجی اور مالی مدد سے منع کر رہے ہیں۔ اسی طرح اسلامی ملکوں کے عوام بھی فلسطینیوں کی حمایت میں اپنے اپنے ملکوں میں مظاہرے کرکے اپنے حکمرانوں کو غیرت دلا رہے ہیں۔آزادتجزیہ کار لکھتے ہیں کہ یہودی حماس کے مجاہدین سے تو لڑ نہیں سکتے۔ کیونکہ فلسطینی مارنے مرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ مرنے کو شہادت سمجھتے ہیں۔ یہودیوں کو اپنی زندگی سے بہت پیار ہے۔ وہ زندہ رہنا چاہتے ہیں اور دنیا کی رنگینیوںسے فائدے اُٹھانا چاہتے ہیں۔یہی بات چند دن پہلے اسرائیل وزیر اعظم نیتن یاہو نے امریکی دورے کے دوران امریکی صدر سے ملاقات کے بعد میڈیا میں کہی تھی۔ اس سے قرآن کی یہ بات کہ یہود اگر اللہ کے پیارے ہیں تو ان سے کہو اللہ سے ملاقات کے لیے موت کو ترجیح دیں۔ مگر ان میں ہر کوئی ہزار ہزار سال زندہ رہنے کی تمنا لیے ہوئے بیٹھا ہے۔
اسرائیل یہودی غزہ کی نہتی شہری آبادی پر اقوام متحدہ کے طے شدہ جنگ کے اصولوں کے خلاف ٧اکتوبر 2023ء سے مسلسل دس ماہ سے بمباری کر رہا ہے۔ یہ فساد بھی اللہ کے دھتکارے ہوئے یہودیوں کے حصے میں آیا ہے۔ اسرائیل عام شہریوں کوشہید اور زخمی کر کے حماس پر دبائو ڈال رہا ہے کہ وہ اسرائیل کے سامنے ہتھیار ڈال دے۔ بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ تاکہ حماس یہودی قیدیوں کو رہا کر دے۔ یہودی غزہ کی آبادی کو شہید ، زخمی اور بھوک میں مبتلا کر کے حماس کوگھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر رہا ہے۔ مگر حماس اللہ کے بھروسے پر اکیلا ہی اسرائیل سے لڑ رہا ہے۔ حماس اللہ کے بتائے ہوئے جہاد کے طریقے سے یہود سے لڑ رہا ہے۔ لہٰذا اُس کی فتح یقینی ہے۔ ان شاء اللہ۔
اسرائیل غزہ کے مظلوموں کے لیے باہر سے کوئی امداد نہیں آنے دے رہا۔ پانی بند کر دیا ہے۔ فلسطینی گھاس کھا کر گزرا کر رہے ہیں۔ زہریلا پانی پینے پر مجبور ہیں۔بیماریوں نے اُنہیں پریشان کر رکھا ہے۔ زخمیوں کے علاج کا کوئی انتظام نہیں۔ سارے ہسپتالوں کو یہود نے بماری کر کے ملیا میٹ کر دیا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر پچاس ساٹھ فلسطینی شہید وزخمی ہو رہے ہیں۔ قبرستانوں میں شہیدوں کے لیے جگہیں نہیںمل رہیں۔ ایک ہی جگہ کھود کر اجتماہی طورپر لاشوں کو دفنایا جار رہے ہیں۔یہود ی فوجی لائوڈاسپیکروں پر اعلان کرتے ہیں کہ اس مہاجر کیمپ کو خالی کر دو اور فلاں جگہ چلے جائو۔اس کیمپ پر اتنے وقت کے بعدبمباری کی جائے گی۔ جس مہاجر کیمپ سے مہاجرین دوسری جگہ جاتے ہیں ۔ ان کے پہنچتے ہی وہاں اُن پربمبار ی کر دی جاتی ہے۔ دنیا کے حکمران یہود کے یہ جنگی کرتوت دیکھ کر خاموش ہیں۔ کیا وہ اللہ کے عذاب کو دعوت نہیں دے رہے؟ لوگ تباہ شدہ عمارتوں کے نیچے دبے ہو ئے ہیں۔ اُ ن کی آوازیں باہر آرہی ہیں کہ ہمیں نکالو۔ مگر اُن پرسے ملبہ ہٹانے کے لیے فلسطینیوں کے پا س مشینری نہیں کہ ان کوملبے سے نکالا جائے۔ اقوام متحدہ کی امدادی ٹیموں پر بھی بمباری کر کے اُنہیں روکا جاتا ہے۔ ہزاروں امدادی ٹرک مصر میں رفح کراسنگ پر کھڑے ہیں۔ اسرائیلی اُنہیں غزہ میں داخل نہیں ہونے دیتا ۔ میڈیا میں ویڈیوز آئی ہیں کہ اُردن کے راستے امدادی ٹرکوں کے سامنے متعصب یہودی کھڑے ہو گئے ہیں ۔ امدادی ٹرکوں کو آگے نہیں جانے دے رہے۔ساری دنیا میڈیا میں فلسطینیوں پر مظالم کو دیکھ رہی ہے کہ وہ کھانے کے برتن لیے قطاروں میں کھڑے ہیں۔کھانا مانگ رہے ہیں۔ کبھی کھانا مل جاتا ہے۔ کبھی کھانا ختم ہوجاتا ہے، تو وہ خالی برتن لے کر واپس لوٹ جاتے ہیں۔ صبر کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ نے رپورٹیں جاری کی ہیں۔ اسرائیل غزہ کی چھوٹی سے بستی پر نوے (90)لاکھ ٹن سے زیادہ بارود گرا چکا ہے۔ غزہ کی اسی (80)فی صد ر عمارتیں، جن میں حکومتی، امداری اداروں کی عمارتیں، اقوام متحدہ کی عمارتیں اور دیگر شامل ہیں کو ملیا میٹ کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ایک امدادی ادارے نے رپورٹ جاری کی ہے ۔غزہ میں تباہ شدہ ملبے کو اُٹھانے کے لیے بیس(20) سال لگیں گے۔ اس کے لیے سو ٹرک روزانہ کی بنیاد پر کام کرنے کے لیے چاہئے۔اس پر لاکھوںڈالر خرچ آئیں گے۔
1948 سے دنیا سے یہودیوں کو فلسطین آنے کے لیے یورپ، امریکا اور سوویٹ یونین نے مدد کی تھی۔یہودیوں نے فلسطین آکر اس کے اصل باشندوں کو دہشت گردی سے ان کے گھروں سے نکال دیا۔ انہیں در بدر کر دیا۔ ان کے مہاجر کیمپوں، صابرہ اور شیتلہ پر بمباری کر کے مہاجروں کو موت کی نید سلا دیا۔ فلسطینی ساری دنیا میں تتر بتر ہو گئے۔کچھ فلسطینی سمٹ کر ویسٹ بینک، جس کے صدر محمود عباس ہیں اور کچھ غزہ کی پٹی جس کے وزیر اعظم شہید اسماعیل ہنیہ تھے میں رہ گئے۔ فلسطینیوںکو شیخ احمد یاسین اور عزیزالاقسام نے اسلام کی بنیاد پر جہاد کے لیے تیار کیا۔ غزہ کو بھی اسرائیل نے چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا۔ حماس نے غزہ میں سرنگوں کے جال بچھا دیے ۔ وہیں سے نکل کر اسرائیل پر طوفان اقصیٰ کے نام سے حملہ کرکے دوسو پچاس(250) کو قیدی بنا لیا۔ دس ماہ(10) سے اسرائیل غزہ پر مسلسل بمباری کر رہا ہے۔ غزہ میں گوریلا جنگ جاری ہے۔ حماس بھی روزانہ کی بنیاد پر تیس چالیس یہودی حملہ اوروں کو ہلاک و زخمی کر رہا ہے۔ اس کے مرکاوا ٹینگ اور فوجی گاڑیاں یاسین نامی میزائیل سے تباہ کر رہے ہیں۔ کئی ڈرون ہپاچی ہیلی کاپٹرز تباہ کیے۔تل ابیب ، غزہ پر راکٹوں کی بارش کرتا رہتا ہے۔ ہزاروںحملہ آور یہودی فوجیوں کو غزہ میں جہنم واصل کر چکا ہے اور کر رہا ہے۔بڑی فوجی طاقت اورامریکا و یورپ کے مدد کے باوجود اسرائیل آج تک اپنے قیدی نہیں چھڑا سکا۔حماس نے اللہ کی مدد سے اسرائیل کے فوجی غرور، ڈوم سیکورٹی کو ناکارہ کر کے زمین، سمندر اور فضائی راستے استعمال کر تے ہوئے طوفان اقصیٰ برپا کیا۔
قارئین ! حماس نے اپنی جانی قربانیاں دے یہود کو اندر سے کھوکھلا کر دیا۔ اسی بنیاد پر اسرائیل کے ایک سابق میجر نے میڈیا میںپیش گوئی کی ہے کہ ایک سال میں اسرائیل دنیا سے ختم ہو جائے گا۔ قرآن کے مطابق یہود کوپہلے دو دفعہ سرزمین انبیاء فلسطین میں فساد پھیلانے پر اللہ نے سزا دی تھی۔یہود نے اب تیسری بار فلسطین میں فساد پرپا کیا ہے۔یہود نے اپنے آپ کو اللہ کی طرف سے تیسری سزا کا مستحق بنا لیا ہے۔ اللہ کی طرف سے جلداسے سزا ملنی ہے۔ فلسطین نے آزادا ہوناہے ۔ ساری دنیا نے اسرائیل کی فوجی مدد کی ہے۔ مگر اللہ کے حکم اور جہاد کی برکت سے حماس نے اسرائیل کو شکست فاش دی ہے۔جسے وہ چھپائے ہوئے ہے۔