... loading ...
ریاض احمدچودھری
پچھلے کچھ سال سے بھارت میں مسلم و اسلامو فوبیا میں انتہائی تیزی آئی ہے۔ جس کے نتیجے میںبھارت میں ہندو انتہاپسندوں نے مسلمانوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ آئے روز مختلف علاقوں میں فسادات کرکے مسلمانوں کو شدید نقصان پہنچا رہے ہیں۔ کہیں مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچایا جارہا ہے، ان کے گھر مسمار کیے جارہے ہیں، کہیں مساجد کو آگ لگائی جارہی ہے اور کہیں مسلمانوں کو شہید کیا جارہا ہے۔اب تک سیکڑوں بے گناہ مسلمان مرد و خواتین بچے اور بوڑھے شہید ہو چکے ہیں۔ جبکہ ہزاروں کی تعداد میں زخمی بھی ہوئے۔ مودی حکومت نے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کیخلاف ایک محاذ کھول رکھا ہے اور ہندو انتہاپسندوں اور آر ایس ایس کے غنڈوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ اقلیتوں کو ہندوستان میں سکھ کا سانس نہ لینے دیں۔ان غنڈوں نے بھی اپنی اس جنونی ذمے داری کو خوب نبھایا اور مسلمانوں پر تشدد کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔بھارت میں مسلمانوں پر اس قدر ظلم و ستم ڈھائے گئے ہیں کہ کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ انسانیت سوز مظالم کے ساتھ ان کے گھروں کو گرا دیا جاتا ہے، مساجد کی بے حرمتی کی جاتی ہے اور انہیں شہید کردیا جاتا ہے۔ بابری مسجد جیسی تاریخی مسجد کو فقط رام کی جائے پیدائش قرار دے کر شہید کردیا گیا جس کا کسی کے پاس کوئی ثبوت نہیں مگر وہاں کی عدالتیں بھی اس قدر اندھی اور متعصب ہیں کہ کسی ثبوت کے بغیر اسے درست قرار دے دیتی ہیں اور ان میں ملوث مجرموں کو باعزت بری کردیتی ہیں۔بھارتی حکومت اور عدالتوں کے رویوں کی وجہ سے بھارت اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کیلئے نہایت غیر محفوظ ملک بن چکا ہے۔
مشرک ہندوؤں کی اسلام و مسلمانوں سے دشمنی کوئی نئی بات نہیں بلکہ ان کو یہ دشمنی ان کے آباء و اجداد سے ورثے میں ملی ہے۔ لیکن اس دشمنی نے اس وقت وحشت و بربریت کی انتہا کر دی جب ہندوستان کی تقسیم ہوئی۔ غیر جانبدار مبصرین کے مطابق اس وقت کم و بیش 6 ملین نہتے مسلمانوں کو انتہائی بیدردی سے شہید کیا گیا۔ مسلم نسل کشی کا یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ موقع و محل کی مناسبت سے یہ شیطانی فعل جاری و ساری ہے۔ انتہائی محتاط اندازے کے مطابق گذشتہ ستر سال کے دوران 50,000 کے قریب بھارتی مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا۔ خیال رہے کہ ان میں مقبوضہ کشمیر میں ایک لاکھ پچیس ہزار شہید ہونے والے مسلمان شامل نہیں ہیں۔ ہندو انتہا پسند سادھو ماہانت رام گری مہاراج کی جانب سے ریاست مدھیہ پردیش کے ضلع ناشک کے گاؤں پنچولی میں تقریر کے دوران نبی کریم ۖ کے خلاف توہین آمیز کلمات کہے گئے جس سے بھارتی مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے اور ان کی جانب سے سادھو کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہ کرنے پر احتجاج کیا گیا اور اس دوران کچھ مشتعل افراد کی جانب سے پولیس اسٹیشن پر دھاوا بھی بولا گیا۔مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ موہن یادیو ہندو انتہا پسند سادھو کی توہین آمیز تقریر کے بعد تو سوتے رہے تاہم جب مسلمانوں کی جانب سے اس معاملے پر شدید احتجاج کیا گیا اور پولیس اسٹیشن پر حملے میں کچھ اہلکار زخمی ہوئے تو انہوں نے فوری طور پر مظاہرین کے خلاف کارروائی کرنے کے احکامات جاری کیے، پولیس نے بھی شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے چھتر پور میں کانگریس کے سابق نائب صدر اور مقامی مسلم رہنما حاجی شیراز علی کو احتجاج کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ان کے گھر پر چھاپہ مارا اور مسلم رہنما کے عالیشان گھر کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ہیوی مشینری کی مدد سے مسمار کر دیا۔
پولیس نے احتجاج کرنے پر 46 نامزد افراد سمیت 150 افراد کے خلاف مقدمہ درج کر کے 20 افراد کو حراست میں بھی لے لیا ہے جبکہ پونے پولیس نے بھی مسلمانوں کی جانب سے متعدد شکایات کے بعد سادھو ماہانت رام گری مہاراج کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے تاہم ان کی گرفتاری تاحال عمل میں نہیں لائی جا سکی ہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی کے برسراقتدار آنے کے بعد شاید ہی کوئی ایسا دن ہو جب مسلم آبادی کی مذہبی، سماجی شناخت، ان کی عبادت گاہوں، مدرسوں اور دیگر چیزوں کو کسی نہ کسی بہانے نشانہ بنائے جانے کی خبر نہ آئی ہو۔بھارت کا قانون کیا ہے! دنیا کا کوئی بھی قانون کسی عمارت یا جائیداد، وہ بھی جو تعلیم دینے کا مرکز ہو، کو محض شبے کی بنیاد پر بغیر ضابطہ کی کارروائی کے گرانے کی اجازت نہیں دیتا۔ لیکن شمال مشرقی بھارت کی ریاست آسام میں محض ایک مہینے کے اندر ایک نہیں تین تین مدرسوں کو محض دہشت گردی کے شبے میں مہندم کر دیا گیا۔
اس ریاست میں جہاں مسلم آبادی کا تناسب جموں و کشمیر کے بعد سب سے زیادہ یعنی تقریباً 35 فی صد ہے۔ ایک عرصہ سے یہاں مسلمانوں پر بنگلہ دیشی دراندازی کا ہوا ّ کھڑا کر کے عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔ لیکن 2017ء میں جب سے ہندو قوم پرست جماعت یہاں بر سراقتدار آئی ہے، تب سے مختلف انداز سے مسلم آبادی کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ موجودہ حکومت نے اس سے قبل مدرسوں کو برٹش دور سے چلی آ رہی سرکاری گرانٹ یہ کہہ کر ختم کر دی کہ ایک سیکولر حکومت مذہبی تعلیم کے لیے پیسہ نہیں دے سکتی جبکہ ان مدارس میں تمام عصری علوم پڑھائے جاتے تھے۔ اسی طرح مسلم آبادیوں کو ان جگہوں سے زبردستی اجاڑ دیا گیا جنہوں نے سیلاب سے متاثر ہونے کے باعث دوسری جگہوں پر اپنا آشیانہ بنایا تھا۔حیرت یہ ہے کہ پوری دنیا کو پرامن بنانے کی جدوجہد کا دعوی کرنے والا ملک امریکہ جس نے کل تک تو نریندر مودی کو اس کی انتہا پسندی کی بنا پر امریکہ کا ویزا دینے سے انکار کیا تھا آج وہی امریکہ بھارت کے کہنے پر کشمیر میں آزادی کی جدو جہد کرنے والے فریڈم فائٹر سید صلاح الدین کو دہشت قرار دیتا ہے۔ جبکہ دنیا کا امن صرف اسی صورت میں قائم رہ سکتا ہے کہ بھارت میں ہندو انتہاپسندی کے جن کو بوتل میں بند کیا جائے۔ بھارت میں مذہبی جنونیت اور انتہاپسندی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مذہبی انتہاپسندی میں بھارت دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ بھارت میں اقلیتوں کے خلاف پائی جانے والی انتہاپسندی برسوں سے حکومت کی سرپرستی میں پروان چڑھ رہی ہے۔ جس سے پورے بھارت میں بدامنی اور بے چینی بڑھتی جارہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔