وجود

... loading ...

وجود

مودی کا تیسرا دور، آنسو بھری ہیں حکومت کی راہیں

پیر 26 اگست 2024 مودی کا تیسرا دور، آنسو بھری ہیں حکومت کی راہیں

ڈاکٹر سلیم خان

وزیر اعظم نریندر مودی نے 3670دن حکومت کرنے کے بعد تیسری بار حلف لے کر 70دن میں سارے کرے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ اس دوران سماجی ،اقتصادی ،میڈیا اور خارجہ پالیسی جیسے ہر محاذ پریہ سرکارگھٹنے ٹیکتی چلی گئی۔موجودہ حکومت پر ”اب کی بار گھوم جاؤ سرکار” کا لقب صادق آتا ہے ۔ اس بار جب بی جے پی کو معمولی اکثریت بھی نہیں ملی تو مودی جی کو اندرونی بغاوت کا خطرہ لاحق ہوگیا ۔ اس لیے جلد بازی میں انہوں نے نہ تو اپنی پارٹی کے پارلیمانی بورڈ کی میٹنگ بلائی اور نہ کسی اچھے جیوتش سے مہورت نکلوایا۔ بس پھر کیا تھا پنوتی لگ گئی اور اس کی شروعات رام مندر کی چھت کے پانی ٹپکنے سے ہوئی اس کے بعد ایودھیا کی سڑکوں پر گڈھے پڑ گئے ۔ شاہ جی نے ان میں گرا کر یوگی سے چھٹکارہ پانے کی کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوسکے ۔ بارش دہلی میں آئی تو نہ صرف طلبہ ڈوب مرے بلکہ ایوان پارلیمان کی نئی نویلی عمارت کے آنسو وں کے ٹپکنے سے سیلاب سا آگیا ۔اس میں مودی کا راج دنڈ(سینگول) نہ جانے کہاں بہہ گیا۔ اس پورے عرصے میں مودی بھگت اچھے دن تو دور کسی اچھی خبر کو ترس گئے ہیں اور وزیر اعظم ان کوحسرت جے پوری کا لکھا یہ نغمہ سنارہے ہیں
آنسو بھری ہیں حکومت کی راہیں
کوئی ان سے کہہ دے ہمیں بھول جائیں
سماجی محاذ پر دیکھا جائے تو اس عرصے میں مودی سرکار نے وقف کے معاملے میں مسلمانوں سے پنگا لے کر ہاتھ جلالیے ۔ اس کو جے پی سی کے ٹھنڈے بستے میں ڈال کر راحت کی سانس لی مگر لیٹرل انٹری کا اشتہار نکال کر پسماندہ طبقات کو ناراض کردیا ۔ اس طرح اپنے پیروں پر کلہاڑی چلانے کے بعد اشتہار واپس لے کر ناک کٹوالی۔ وقف کے معاملے میں ایک بیساکھی (جنتا دل یو) ساتھ تھی تو دوسری (تیلگو دیسم پارٹی ) نے پٹخنی دی اس کے برعکس لیٹرل انٹری کی بابت چندرا بابو نے حمایت کی تو نتیش بابو نے ٹانگ مار دی ۔ اس لیے پہلے دائیں جانب لڑکھڑائے اور پھر دائیں جانب زمین بوس ہوگئے ۔ایک زمانے میں بی جے پی خاصی سخت جان پارٹی ہوا کرتی تھی۔ کسانوں پر قانون واپس لینے میں اسے کئی ماہ لگے تھے اور این آر سی کو بھی بڑی مشکل سے کورونا کے بہانے ٹھنڈے بستے میں ڈالا گیا تھامگر اب تو بجلی کی سرعت سے دھڑام تختہ ہوجاتا ہے ۔
حزب اختلاف ایک جانب سے جارحانہ انداز میں حملہ آور ہوتا ہے تو دوسری طرف بڑے پیار سے نہ صرف چندرا اور نتیش بلکہ چراغ بھی خود اپنے ہی گھر آگ لگا دیتے ہیں۔ اپنے آپ کو مودی کا ہنومان کہنے والے چراغ پاسوان نے وقف سمیت لیٹرل انٹری کے معاملے میں اپنی ہی سرکار کی مخالفت کردی۔ اس سے ظاہرہوتا ہے کہ کل یگ کا ہنومان فی الحال کس کی لنکا لگانے میں مصروفِ عمل ہے ۔ چراغ پاسوان نے جب وقف کے معاملے میں سرکار پر تنقید کی تو اسے بغض ِ نتیش کمار کہہ کر ہلکا کیا گیا مگر لیٹرل انٹری پر تو انہوں نے جے ڈی یو کے ذریعہ حمایت کی بھی پروا نہیں کی۔ اس سے زیادہ شرمناک بات کیا ہوسکتی ہے کہ نام نہاد چانکیہ امیت شاہ کے بیٹے اجئے شاہ سے کم عمر چراغ پاسوان نے بی جے پی کو نصیحت کی کہ وہ حزب اختلاف کو اپنے خلاف استعمال کرنے کے لیے گولہ بارود فراہم نہ کرے ۔ مودی اور شاہ کی جوڑی پر ایسا وقت بھی آئے گا یہ تو کسی کے خواب و خیال میں نہیں تھا۔برے وقت میں نہ صرف اپنے پرائے آنکھ دکھانے لگتے ہیں بلکہ حالات بھی غیر مواقف ہوجاتے ہیں۔ وزیر اعظم بجٹ سیشن کے اختتام پر پچیس سال بعد ہندوستان کے دنیا کی تیسری بڑی معیشت کامژدہ سنانے والے تھے کہ ہنڈن برگ کی رپورٹ کے بادل چھا گئے ۔ اس سے گھبرا کر بی جے پی قبل از وقت ایوان پارلیمان کا اجلاس ختم کرکے بھاگ کھڑی ہوئی اور وزیر اعظم کا کانٹوں بھرا خطاب ‘بن کھلے مرجھا گیا’۔ اس بار اولمپک سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں ۔ کوئی ہندوستانی کھلاڑی اگر سونے کا تمغہ جیت لیتا تو مودی جی اس کا پورا کریڈٹ لینے کے لیے تیار بیٹھے تھے لیکن وہ خواب بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکا اور اس موقع کی خاطر تیار شدہ پیغامات نشر ہونے کی سعادت سے محروم رہ گئے ۔ ونیش پھوگٹ کا سیمی فائنل میں کامیاب ہوجانا چاندی کے تمغے کی گارنٹی اور سونے کی امید تھا لیکن ان کا صرف 100 گرام سے غیر اہل ہوجانا پورے ملک کو اداس کرگیا ۔
ونیش پھوگٹ چونکہ مودی سرکار کے خلاف احتجاج کرچکی تھیں اس لیے بعید نہیں کہ وزیر اعظم کو ان کی محرومیت سے مسرت ہوئی ہو لیکن ایسی بھی کیا خوشی کہ جس اظہار ممکن نہ ہو اور’دل کے ارماں آنسووں میں بہہ جائیں’۔ 15 اگست کو اگر انہیں چاندی کا تمغہ دئیے جانے کی خوشخبری آجاتی تو گودی میڈیا اس کے لیے مودی جی کی لال آنکھوں کو ذمہ دار ٹھہراتا۔ یہ کہا جاتا کہ مودی جی سے خوف کھاکر اولمپک ایسو سی ایشن کو جھکنا پڑا۔ ونیش پھوگٹ دنگل کے اندر جو کام نہیں کرسکیں وہ کام وزیر اعظم نے اپنے رعب داب سے کردیا مگر ایسا نہیں ہوا۔ اس دوران سوشیل میڈیا میں پھوگٹ کے خلاف سازش اور اس میں مودی سرکار کے ملوث ہونے چرچا زورو شور سے جاری رہا ۔ مودی دشمنوں نے کھینچ تان کر ونیش پھوگٹ کے غیر اہل قرار دئیے جانے کو حکومت سازش ثابت کر دیا ۔
مودی سرکار نے اخبار اور ٹیلی ویژن کو خریدنے کے بعد یہ سوچ لیا کہ ا س نے میڈیا کا میدان مارلیا ہے لیکن سوشیل میڈیا نے اس کو ناکوں چنے چبوا دئیے ۔ اس کو قابو میں رکھنے کے لیے پچھلے سال ایوانِ پارلیمان میں براڈ کاسٹنگ سروسیز (ریگولیشن) بل لایا گیا۔ ٦اگست کو پرینکا گاندھی نے اسے ڈجیٹل میڈیا، سوشل میڈیا، او ٹی ٹی پلیٹ فارم اور انفرادی طور پر لکھنے اور بولنے والوں کی زبان پر تالہ لگانے کی کوشش قراردے دیا۔انہوں نے میڈیا کی آزادی کے تعلق سے مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرو کے اقوال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ آزادی دہائیوں کی لڑائی اور مجاہدین آزادی کی قربانیوں کا نتیجہ ہے ۔ اسے چھیننے کی کوشش ”قطعی ناقابل قبول” ہے ۔ اس کے ساتھ متعدد صحافتی اور شہری وسماجی اداروں کے اعتراضات نے سرکار کو اس متنازع بل کا حالیہ مسودہ واپس لینے پر مجبور کردیا۔ وزارت برائے انفارمیشن اینڈ براڈ کاسٹنگ کے مطابق بل کے مسودے پر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ تفصیلی مشاورت کے بعد نیا مسودہ شائع کیا جائے گا۔یہ بھی مودی سرکار کی ایک شکست ہے ۔
اقتصادی محاذ پر بھی بجٹ کی ایک خطرناک تجویز اس سرکار نے واپس لے لی ۔ مودی کی مکار سرکار نے لانگ ٹرم کیپٹل گین ٹیکس میں کمی
کے نام پر جائیداد کی فروخت پر جو اشاریہ سازی کا فائدہ اب تک دستیاب تھا اسے ختم کر ۔دراصل انڈیکسیشن بینیفٹ کے تحت پراپرٹی کی نئی قیمت مہنگائی کی شرح کے حساب سے نکالی جاتی تھی، اس کے بعد بچ جانے والی رقم پر 20 فیصد ٹیکس لگایا جاتا تھا۔ یعنی اگر کسی نے دس سال پہلے 50 لاکھ روپے میں پراپرٹی خریدی تھی جو آج 2 کروڑ کی ہوگئی ہے اسے افراط زر کا لحاظ کرکے 1.25 کروڑ کا سمجھا جائے گا ۔ اس طرح 75 ہزار منافع پر 20 فیصد کی شرح سے ڈیڑھ لاکھ ٹیکس لگے گا۔ مجوزہ قانون کے تحت ڈیڑھ کروڈ پر 12.5فیصد کی شرح سے 18.75 لاکھ لوٹنے کی سازش رچی گئی۔ عوام اس کو سمجھ گئے اور مخالفت کی تو سرکار کوا سے کالعدم قرار دینا پڑا۔اب نتن گڈکری لائف انشورنس اور ہیلتھ انشورنس پر جی ایس ٹی کی مخالفت کررہے ہیں اور حکومت کو اس کے آگے بھی جھکنا ہی پڑے گا ۔
امورِ خارجہ میں وزیر اعظم ایک خاموش تماشائی کے طور پر جی ٧ ممالک کی کانفرنس میں گئے اس کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ اطالوی وزیر اعظم کے ساتھ ایک ویڈیو بناکر لوٹ آئے ۔ مالدیپ کے زخم بھرے نہیں تھے بنگلا دیش معاملے میں مودی سرکار تذبذب کا شکار ہوگئی ہے ۔ شیخ حسینہ کو عارضی طور پر پناہ دی گئی مگر وہ مستقل بیٹھ گئی ۔ بنگلا دیش نیشنل پارٹی نے انہیں مقدمہ چلانے کی خاطر واپس بھیجنے کا مطالبہ کردیا۔ ہندوستان اور بنگلادیش کے درمیان ملزمین کی واپسی کا معاہدہ ہے اور اس کے تحت آسام کے علٰحیدگی پسند رہنماوں کو واپس لایا جاچکا ہے ۔ اس لیے اگر بنگلادیش حکومت کی جانب سے یہ مطالبہ آجائے تو اسے ٹھکرانا ممکن نہیں ہے اور واپس بھیجنا بھی مشکل ہے ۔ حکومت کے سامنے ایک فرد کی خاطر پڑوسی ملک سے تعلقات بگڑنے کا دھرم سنکٹ ہے ۔ وزیر اعظم کا یوکرین دورہ بھی نئی مشکلات کھڑا کردے گا۔ مودی جی ایک ایسے وقت میں یوکرین جارہے ہیں جبکہ وہ مظلوم نہیں حملہ آور ہے ۔ روس سے ہندوستان سستا تیل خریدتا ہے اور یوکرینی اسے اپنا خونِ ناحق قرار دیتے رہے ہیں۔ ایسے میں یوکرین جاکر روس کو ناراض کردینے کی حکمتِ عملی مودی بھگتوں کے علاوہ کسی کی سمجھ میں نہیں آسکتی۔ اس دورے سے بدنامی کی سونامی کا قوی امکان ہے ۔ مودی اور ان کے بھگتوں کی حالتِ زار پر رند لکھنوی کا یہ شعر(ترمیم کے ساتھ) صادق آتا ہے
آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو یوکرین پکار میں چلاؤں بنگلا دیش


متعلقہ خبریں


مضامین
دنیا ماحولیاتی دلدل کی لپیٹ میں! وجود پیر 18 نومبر 2024
دنیا ماحولیاتی دلدل کی لپیٹ میں!

کشمیری قیادت مسلسل جیل میں وجود پیر 18 نومبر 2024
کشمیری قیادت مسلسل جیل میں

''کیوں لکھوں''؟ وجود اتوار 17 نومبر 2024
''کیوں لکھوں''؟

بھارت میں سوشل میڈیا پرفوج کا کنٹرول وجود اتوار 17 نومبر 2024
بھارت میں سوشل میڈیا پرفوج کا کنٹرول

خوشحالی یا تباہی وجود اتوار 17 نومبر 2024
خوشحالی یا تباہی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر