... loading ...
ریاض احمدچودھری
کشمیر پر پہلی جنگ کے بعدبھارت اس مسئلے کو اقوام متحدہ لے گیا۔ اقوام متحدہ کی 13 اگست 1948ء کی قرارداد میں کہا گیا تھا کہ پہلے پاکستان اپنی فوجیں کشمیر نکالے گا۔ پاکستان نے یہ مطالبہ منظور کیا تھا لیکن 14 مارچ 1950ء کو سلامتی کونسل نے قرارداد پاس کی تھی کہ اب دونوں ملک بیک وقت فوجوں کا انخلاء شروع کریں گے۔ 13 اگست 1948ء کی قرارداد میں کہا گیا کہ جب پاکستان اپنی فوج اور قبائلیوں کو نکال لے گا تو یہاں کا انتظام مقامی انتظامیہ سنبھالیں گی اور کمیشن ان کی نگرانی کرے گا۔اس قرارداد میں یہ نہیں کہا گیا تھا کہ بھارت کو یہاں ساری فوج رکھنے کی اجازت ہو گی۔ بلکہ قرار پایا کہ اس کے بعد بھارت بھی اپنی فوج کا بڑا حصہ “Bulk of its forces” یہاں سے نکال لے گا اور اسے صرف اتنے فوجی رکھنے کی اجازت ہو گی جو امن عامہ برقرار رکھنے کے لیے مقامی انتظامیہ کی مدد کے لیے ضروری ہوں۔
جب اقوام متحدہ کے کمیشن نے دونوں ممالک سے قرارداد پر عملدرآمد کے لیے پلان مانگا تو بھارت نے دو مزید مطالبات کر دیے۔ ایک یہ کہ اسے سیز فائر لائن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شمال اور شمال مغرب کے علاقوں پر کنٹرول دیا جائے اور دوسرا یہ کہ آزاد کشمیر میں پہلے سے قائم اداروں کو نہ صرف مکمل غیر مسلح کر دیا جائے بلکہ ان اداروں کو ہی ختم کر دیا جائے، اس بات کا اعتراف جوزف کاربل نے اپنی کتاب ‘ ڈینجر ان کشمیر ‘ کے صفحہ 157 پر کیا ہے۔جوزف کاربل کا تعلق چیکو سلواکیہ سے تھا اور یہ اقوام متحدہ کے کمیشن کے چیئر مین تھے اور کمیشن میں ان کی شمولیت بھارتی نمائندے کے طور پر ہوئی تھی۔ جوزف کاربل نے اعتراف کیا کہ بھارتی موقف اقوام متحدہ کی قرارداد سے تجاوز کر رہا تھا۔ پاکستان نے آزاد کشمیر سے فوج نکالنے پر رضامندی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ قرارداد کے مطابق بھارت جو ضروری فوج کشمیر میں رکھے گا اس کی تعداد اورتعیناتی کا مقام اقوام متحدہ کمیشن کو پیش کیا جائے۔ بھارت نے اس سے بھی انکار کر دیا۔اس پر کمیشن نے امریکی صدر ٹرومین اور برطانوی وزیر اعظم کلیمنٹ ایٹلی کی تجویز پر کہا کہ دونوں ممالک اپنا موقف پیش کر دیں جو ایک آربٹریٹر کے سامنے رکھا جائے اور وہ فیصلہ کر دے۔
اقوام متحدہ کی دستاویزات کے مطابق پاکستان نے یہ تجویز بھی قبول کر لی لیکن بھارت نے اسے بھی رد کر دیا۔ بھارت کے اپنے نمائندے نے اعتراف کیا کہ اقوام متحدہ کی اس قرارداد پر بھارت کی وجہ سے عمل نہ ہو سکا۔ ان کے الفاظ تھے : “a lack of goodwill on part of India” معاملے کے حل کے لیے سلامتی کونسل نے سلامتی کونسل ہی کے صدر مک ناٹن پر مشتمل ایک یک رکنی کمیشن بنایا۔ اس کمیشن نے کہا کہ اب دونوں ممالک بیک وقت اپنی فوجیں نکالتے جائیں گے تا کہ کسی کو کوئی خطرہ نہ رہے۔ پاکستان نے یہ تجویز بھی قبول کر لی۔ بھارت نے اس تجویز کو بھی رد کر دیا۔
یہاں دل چسپ بات یہ ہے کہ اس تجویز کو سلامتی کونسل نے 14 مارچ 1950ء کو ایک قرارداد کی شکل میں منظور کر لیا۔ گویا اب اقوام متحدہ کی قرارداد یہ کہہ رہی ہے کہ دونوں ممالک بیک وقت فوجیں نکالنا شروع کریں گے۔ اقوام متحدہ اوون ڈکسن کو جو آسٹریلیا کے چیف جسٹس رہے اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا۔ انھوں نے فوج کے انخلاء کی بہت سی تجاویز دیں۔ پاکستان نے سب مان لیں ، بھارتی وزیر اعظم نے ایک بھی نہ مانی۔ 1951ء میں بھارت نے کہا ہمیں خطرہ ہے اس لیے ہم فوج نہیں نکالیں گے۔ آسٹریلیا کے وزیر اعظم گورڈن منزیزنے مشترکہ فوج کی تجویز دی بھارت نے رد کر دی۔ انھوں نے اقوام متحدہ کی نگرانی میں مقامی فورس بنانے کی بات کی بھارت نے اسے بھی رد کر دیا۔ انھوں نے کہا ہم کامن ویلتھ کی فوج بھیج دیتے ہیں، بھارت نے یہ تجویز بھی رد کر دی۔ معاملہ ایک بار سلامتی کونسل چلا گیا۔ 30 مارچ 1951ء کو سلامتی کونسل نے امریکی سینیٹر فرینک پی گراہم کو نیا نمائندہ مقرر کر کے کہا کہ تین ماہ میں فوج کشمیر سے نکالی جائے اور پاکستان اور بھارت اس پر متفق نہ ہو سکیں تو عالمی عدالت انصاف سے فیصلہ کرا لیا جائے۔ فرینک صاحب نے چھ تجاویز دیں بھارت نے تمام تجاویز رد کر دیں۔ خانہ پری کے لیے بھارت نے کہا وہ تو مقبوضہ کشمیر میں اکیس ہزار فوجی رکھے گا جب کہ پاکستان آزاد کشمیر سے اپنی فوج نکال لے ، وہاں صرف چار ہزار مقامی اہلکار ہوں ، ان میں سے بھی دو ہزار عام لوگ ہوں ، ان کا آزاد کشمیر حکومت سے کوئی تعلق نہ ہو۔ ان میں سے بھی آدھے غیر مسلح ہوں۔ گراہم نے اس میں کچھ ردو بدل کیا، پاکستان نے کہا یہ ہے تو غلط لیکن ہم اس پر بھی راضی ہیں ، بعد میں بھارت اس سے بھی مکر گیا۔ تنازع کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کا موقف بدستور قائم ہے،اسے عالمی ادارے کے چارٹر کے تحت اس انداز میں حل کیا جانا چاہیے جس میں وہاں کے لوگوں کے انسانی حقوق کا مکمل طور پر خیال رکھا گیا ہو۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ تعلقات سے متعلق 1972 کا شملہ معاہدہ بھی موجود ہے۔
پانچ سال قبل بھارت کی مودی حکومت نے ریاست جموں و کشمیر کو اس کی خصوصی حیثیت سے محروم کردیا،آئین کے آرٹیکل 370 اور اے 35 کو ختم کردیا گیا جن میں شہریوں کو جائیداد، ملازمتوں اور وراثتی امور کے حوالے سے تحفظ حاصل تھا۔ آرٹیکل 370 جموں و کشمیر سے باہر کے بھارتی شہریوں کو ریاست میں مستقل طور پر آباد ہونے ،زمین خریدنے،مقامی سرکاری ملازمتیں رکھنے اور تعلیمی وظائف کے حصول سے روکتا تھا، بھارت کے اس اقدام سے مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر کے لوگوں کو ٹیلی کام بلیک آئوٹ،عوامی نقل و حرکت پر پابندیوں اور ہزاروں نئے تعینات بھارتی فوجیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد بھارت نے ریاست جموں و کشمیر میں اپنی بربریت میں اضافے کے ساتھ ساتھ وہاں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے لیے ہزاروں بھارتی شہریوں کو اس علاقے کے ڈومیسائل سرٹیفکیٹس دیے ہیں جس سے انہیں وہاں رہائش اور مقامی سرکاری ملازمتوں کا حق مل گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔