... loading ...
حمیداللہ بھٹی
کچے کا علاقہ تین دہائیوں سے مجرموں کے لیے جائے اماں ہے، ہر قسم کے جرائم کرنے کے باوجود وہ یہاںمحفوظ ہیں۔ یہ علاقہ حکومت یا قانون کی رٹ سے باہرہے ۔یہاںکی آبادی مکمل طورپر ڈاکوئوں اوراشتہاریوں کے رحم و کرم پر ہے جن سے کسی کی جان و مال محفوظ نہیں۔ ڈاکونہ صرف تاوان کے لیے بندے اُٹھا تے بلکہ عدم ادائیگی پر ہلاک بھی کردیتے ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اِس علاقے میں1992 سے وقفے وقفے سے کئی پولیس آپریشن ہوئے لیکن قانون کی رٹ قائم نہیں ہو سکی۔ اب تو کچے کو پولیس کے لیے بھی نو گوایریا یعنی ممنوعہ علاقہ بنا دیا گیا ہے ۔2006 سے اب تک اِس علاقے میں سات بڑے آپریشن ہو ئے جبکہ چھوٹی موٹی کارروائیاں تو سارا سال جاری رہتی ہیں لیکن قانون شکن عناصر کی طاقت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اپریل 2023میں تین صوبوں پنجاب ،سندھ اور بلوچستان کی پولیس نے ایک بڑا مشترکہ آپریشن کیا تھا اور بڑے طمطراق سے کئی ڈاکو ماردینے، نئی چوکیاں بنانے اور پُرانی بحال کرنے کے دعوے کیے تھے مگر سچ یہ ہے کہ عام لوگ تو غیر محفوظ تھے ہی ، پولیس تھانے بھی غیر محفوظ ہوگئے ہیں ۔ مجرم دندناتے آتے ہیں۔ تھانے پر حملہ کرتے اور ساتھی چھڑا لے جاتے ہیں۔ اِس دوران نہ صرف پولیس اہلکاروں کوپٹائی سے زخمی کرتے ہیں بلکہ جان سے بھی مارنے سے گریز نہیں کرتے ۔پولیس ملازمین کو اغوا کرنامعمول ہے۔ قانون شکن عناصر اِتنے طاقتور ہیں کہ پولیس نے مقابلہ خاک کرنا ہے۔ وہ خود خوفزدہ ہے ۔اسی بناپرتمام تر آپریشن ناکام ہوئے۔ کئی بارتو آپریشن میں حصہ لینے والے پولیس اہلکاروں کو جانیں بچاکر راہ فرار اختیار کرنے کی نوبت آئی ۔یہ صورتحال پُرامن پاکستان کا تشخص داغدار کرتی ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ کچے کے علاقہ کو نو گوایریا بننے سے روکا جائے۔ ظاہرہے یہ پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ قانون کی عملدآری یقینی بنائے مگریہاں پولیس ناکام ہو چکی۔ اب دیگر اِداروں کاتعاون حاصل کیے بغیرقانون کی رٹ بحال نہیں ہو سکتی ۔
کچے کا علاقہ پاکستان کا حصہ ہے ۔یہ علاقہ غیر نہیں مگر یہاں حکومت اِتنی بے بس ہے کہ بار بار آپریشن کے باوجود مجرموں کاخاتمہ نہیں کر سکی جس کی ایک ہی وجہ ہو سکتی ہے کہ پویس فرض شناسی اور ادائیگی میں غفلت کی مرتکب ہے۔ حالانکہ اگر صدقِ دل سے کوشش کی جائے تو بھاری بھرکم وسائل کی موجودگی میں مٹھی بھر مجرموں کا خاتمہ کوئی مشکل یا ناممکن نہیں۔ مگرافسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کچھ عرصہ سے فرائض کی ادائیگی کے بجائے پولیس میں شہرت حاصل کرنے کا جنون سرائیت کر چکا ہے۔ اہلکاروں سے لیکر بڑے بڑے آفیسر بھی راتوں رات شہرت حاصل کرنے کے چکر میں فرائض کے منافی سرگرمیوں میں مصروف ہیں ۔آئی جی ڈاکٹر عثمان انور بھی اِس عادت بد کے شکارہیں۔ ڈی پی اومنڈی بہائولدین احمد محی الدین اِس بُری طرح شہرت کی لت میں مبتلا ہیں کہ پولیس آفیسر سے زیادہ داکارہونے کا گمان ہوتاہے۔ ماتحت اہلکاروں نے بھی اپنے آفیسرز کی دیکھا دیکھی اب شہرت پر فرائض کو قربان کرناشروع کردیا ہے۔ اگر ایسا ہی طرزِ عمل کچھ عرصہ مزید رہا تو مجھے کہنے دیجیے کہ حالات مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے۔ ذہن میں بٹھانا ہوگا کہ اگر مزید علاقوں کو نوگوایریا بننے سے روکنا ہے تو فرائض کو ترجیح دینا ہو گی ۔شہرت حاصل کرنے کے چکر میں فرائض سے غفلت کا رویہ ترک کرنا ہوگا۔
رحیم یارخان میں دو پولیس وین پرڈاکووئوں کا حملہ ایک دلخراش واقعہ ہے جس میں پندرہ اہلکارشہید ،اِتنے ہی زخمی اور کئی ایک اغوا کر لیے گئے ہیں۔ جس نے بھی یہ خبر سنی ہے وہ رنجیدہ اور پریشان ہوگیا لیکن اگر محکمہ پولیس کی طرف دیکھا جائے تو وہاں پریشانی کے کوئی آثار نہیں۔ حسبِ روایت آمدہ اطلاعات کے مطابق آئی جی نے سخت نوٹس لیتے ہوئے واقعہ کی رپورٹ طلب کی ہے اگر اِتنے بڑے واقعہ کی محض رپورٹ طلب کرنے تک محدود رہنا ہے تو اربوں کے اخراجات اور بھاری بھرکم نفری ناقابلِ فہم ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ رپورٹ طلب کرنے کی خبریں متاثرین کے زخموں پر نمک پاشی محسوس ہوتی ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ دفاتر کے ٹھنڈے کمروں سے نکل کر جرائم پیشہ عناصر کے خلاف عملی کارروائی پرتوجہ مبذول کی جائے۔ اگر عام اہلکاروں کے شانہ بشانہ قیادت نہیں ہوگی تو کوئی کارروائی نتیجہ خیزثابت نہیں ہو سکتی ۔نہ صرف نتائج حسب ِسابق رہیں گے بلکہ کچے کا علاقہ پولیس کے لیے مستقل دردِ سر رہے گا، تو کیا یہ بہتر نہیں کہ ڈی پی او منڈی بہائوالدین احمد محی الدین جنھوں نے ٹک ٹاک پر فالور لینے کے لیے کُھلی کچہریوں میں جواداکاری کرتے ہیں اورپھر بغیر سوچے سمجھے خلافِ قانون وخلافِ ضابطہ احکامات صادرکرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے تاکہ لوگ واہ واہ کریں اور نیک نامی اور دلیری کا ڈنکا بجے ایسے لوگوں کو رحیم یار خان بھیجا جائے ،آئی جی ڈاکٹر عثمان انور ممکن ہے دیانتدار ہوں مگر ذہن نشین کرلیںجب تک شہرت حاصل کرنے کے جنون پر فرائض کی ادائیگی کو ترجیح نہیں دیں گے کچے کے علاقہ کو نوگوایریا بننے سے روک نہیں پائیں گے۔
جب بھی پولیس کے کسی بڑے آفیسرسے کچاکے مجرموں کے متعلق بات ہوئی تو پولیس کارروائیوں کی ناکامی کی درج زیل وجوہات بتائی گئیں ۔اول،مجرموں کے پاس وافرجدید اسلحہ ہے جن میںراکٹ لانچرتک ہیں دوم،پولس کے کچھ اہلکاربھی اُن سے ملے ہوئے ہیں جو پیغام رسانی کاکام کرتے ہیں، یہ علاقہ پنجاب اور سندھ کی سرحدی پٹی ہے۔ اسی لیے ایک طرف آپریشن ہو تو ڈاکو دوسرے صوبے میں چلے جاتے ہیں۔ اسی لیے تو قع کے مطابق آپریشن نتائج برآمد نہیں ہوتے یہ وجوہات خود پولیس کی نااہلی کی تصدیق ہے۔ اگر مجرموں کے پاس جدید اسلحہ جیسا کہ راکٹ لانچر وغیرہ ہیں تو سوال یہ ہے کہ ایسے حالات میں جب تین صوبوں کی پولیس نے علاقے کی ناکہ بندی کررکھی ہے اِس کے باوجود ڈاکوئوں کو کِن ذرائع سے راکٹ لانچر جیسے مہلک ہتھیار میسر ہیں۔نیز پولیس کے پاس کیا مجرموں سے مقابلے کے لیے کیا کوئی ہتھیارنہیں اور وہ نہتی ہے یا صرف غلیل ہے ؟ ایسا ہر گز نہیں بلکہ گزشتہ چند برسوں کے دوران پولیس کو نہ صرف جدید اسلحہ سے لیس کیا گیا ہے بلکہ بکتر بندگاڑیاں تک فراہم کی گئی ہیں ِس لیے مجرموں کے پاس جدید اسلحہ کی موجودگی کو ناکامی کا جواز تصور نہیں کیا جا سکتا علاوہ ازیں یہ اسلحہ مجرموں تک کیسے پہنچا؟ ظاہر ہے پولیس کی سہولت کاری کے بغیرکسی طور ممکن نہیں، جہاں تک پولیس میں موجود کالی بھیڑوں کا تعلق ہے تو اُنھیں بے نقاب کرنا اور کیفرِ کردار تک پہنچاناسویلین کا نہیں پولیس سربراہ کا کام ہے۔ اگر وہ اِس میں ناکام ہیں تو عہدے پر مزید عرصہ موجودگی بے معنی وبلاجوازہے جہاں تک صوبوں کا سرحدی علاقہ ہونے کی بات ہے تو دونوں صوبوں پنجاب اور سندھ کی حکمران جماعتیں وفاقی حکومت کا حصہ ہیں تو کیا بہتر نہیں کہ مشاورت اور تیاری سے دونوں طرف بیک وقت ایسے آپریشن کا آغاز کیاجائے جس سے کچاسے کشمور تک کا اعلاقہ قانون شکن عناصر سے پاک ہوجائے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیںکہ پولیس اپنی سستی اور ناکامیوں کے جواز پیش کرتی ہے لیکن مجرموں کو کیفرِ کردارتک پہنچانے کا طریقہ کار نہیں بناتی ۔اسی بنا پر کچے کا علاقہ نوگوایریا بننے سے روکنے کی کاروائیاں ناکامی سے دوچار ہیں ۔آپ کا کیاخیال ہے اِس بارے میں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔